لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے بجلی کے بلوں پر عائد سرچارجز کو غیر قانونی، غیر آئینی قرار دیکر وصولی روک دی جبکہ حکومت کو صارفین کے پیسے واپس کرنے کا پلان پیش کرنے کا حکم بھی دیدیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ سنایا ۔ عدالت نے بجلی کے بلوں پر عائد ایکو لائزیشن سرچاج ، نیلم جہلم سرچارج ، ڈیٹ سروسنگ سرچارج، یونیورسل فنڈ سرچارج کو غیرقانونی غیرآئینی قرار دے دیا جبکہ اس حوالے سے نیپرا کے سیکشن اکتیس (5) کو بھی غیرقانونی قرار دیا۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ تین ماہ میں صارفین کے پیسے واپس کرنے یا بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے پلان پیش کریں ۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ عوام کو بجلی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بجلی کی چوری ، لائن لاسز اور انتظامی نقصان کی وصولی عام شہریوں سے وصول کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت کے روبرو 269 درخواست گزاروں نے بجلی کے بلوں پر عائد سرچارجز کو چیلنج کر رکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے نیپرا کی منظوری کے بغیر سرچارجز عائد کر دئیے۔ وفاقی حکومت نے عدالت سے اس فیصلہ کو معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ قریب ہے ، فیصلے سے بجٹ متاثر ہوگا۔ عدالت نے حکومتی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تین ماہ کا وقت دے دیا گیا ہے۔