تحریر: ممتاز ملک. پیرس ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہیں دل میں ایک پرانی یاد کا درد اٹھا. اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے.اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا.
چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے.انہی دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پیٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے.کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں.
ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہاہے یا کسی دیوار پر .خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئ بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی .دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی .میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا .رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ،ماں مر گئ ہے کیا؟ہنس کیوں رہی ہو .ماں کا بیاہ ہے کیا؟
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟ یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ،یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ آج فل فرآئ انڈا بنانا تھا ہاف فرائ کیوں بنادیا ؟ افوہ ہاف فرائ انڈا کیوں بنایا ہے ؟ گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ گلاص پوراکیوں بھرا پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گاکہ ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئ ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئ نارمل آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا .
Violence
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئ اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے. اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتآ تھا .) بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئ قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ خاتون زاروزار روئ اور بولی بیٹا میں نے کہاتھانا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچآنے کے لیئے کوئ پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی.ہمیں تو ہمارے ماں ماپ اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے .میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے.
اور میں سوچنے لگی. کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئ بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں .صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے،کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معآملہ ہی تھا .آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں.
اور اس بات کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور .بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کوئ پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئ بھلا کرنے نہیں آئے گا. ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی.اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی.