تحریر: ایم اے تبسم اللہ تعالی نے اپنی کسی مصلحت اور حکمت کے تحت بعض اوقات میں تقدس اور عظمت کا پہلو رکھ کر بندوں کے دلوں میں ان اوقات کی طرف رغبت اور محبت پیدا کر دی ہے۔ جیسے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کا مہینہ ہے کہ اپنے کلام کے نزول اور روزوں و تراویح کے لئے مخصوص کر کے بندوں کے دلوں میں اس مہینے کی اس قدرمحبت پیدا کر دی کہ حتی المقدور وہ اس مقدس مہینہ کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں اور اس کے تقدس و عظمت کو یوں رائیگاں نہ جانے دیں۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اللہ کے نیک بندوں میں اپنے کو شامل کریں۔ ہفتے کے ساتوں دن اللہ کے یہاں برابر ہیں لیکن ان میں ایک دن جمعہ کے لئے مخصوص کر دیا اور اس نماز جمعہ کی وجہ سے اس دن کو باقی دنوں سے افضل بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس دن کا آغاز بڑے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ضروری سے ضروری دنیا وی مشاغل چھوڑ کر نہادھو کر اچھا لباس پہن کراللہ کے گھر ( مسجد ) پہنچ کر با جماعت جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ یہی حال شب برأت کا ہے۔ جو شعبان المعظم کی پندرھویں شب کہلاتی ہے اور جو بے شمار فضیلت و عظمت کی حامل ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ماہ شعبان المعظم کی آمد سے ہی اہل ایمان کے دلوںمیں ہلچل پیدا ہونے لگتی ہے۔ اہل اسلام کے مرجھائے دل کھلنے لگتے ہیں۔ انکے دلوں میں خوف خدا پیدا اور آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہنے لگتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس کے بعد نزول قرآن والا مہینہ ‘ خیرو برکت اور عظمت و رفعت والا مہینہ رمضان المبارک پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہو نے والا ہوتا ہے۔ گویا کہ ماہ رمضان کے قریب ہونے کی وجہ سے شعبان کا مہینہ پورے طور پر نہایت ہی عظمت کا حامل ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان المعظم میں ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے اوررمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبان میں آپ کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا۔ چنانچہ رمضان کے بعد سب سے زیادہ شعبان میں ہی آپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے رکھتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان سے زیادہ کسی اور مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ماہ میں زیادہ روزے رکھنے کی چندوجوہات بتائی گئی ہیں۔ جن میں سے ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اس مہینے میں مرنے والوں کی موت لکھی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اگر چہ ہر روزرات کے اعمال نماز فجر کے بعد اور دن کے اعمال نماز عصر کے بعد اور ہفتہ کے اعمال دو شنبہ یعنی سوموار کو اور جمعرات کو بارگاہ خدا وندی میں پیش ہوتے ہیں لیکن پورے سال کے اعمال شب برأ ت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آنحضور ۖہر مہینہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے۔ بسا اوقات کسی وجہ سے وہ روزے چھوٹ جاتے تو سب کو اکٹھا کر کے شعبان میں رکھ لیتے تھے۔ حضرت اسامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے۔ لوگ اس ماہ کی فضلیت سے غافل ہیں جب کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال پیش ہوں اس حال میں کہ میں روزہ دار رہوں۔اسی ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب۔ شب برأ ت کہلاتی ہے۔ ( یعنی چھٹکارہ کی رات) شب برأت کی حقیقت کیا ہے،شب برات صرف اور صرف عبادت کی رات ہے۔ اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر نادم ہو کر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنے کی رات ہے۔
Shab e Barat
شب برأت سے متعلق احادیث مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے شب برأت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ چنا نچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ( اپنے بستر پر ) نہ پایا تو میں تلاش میں نکلی۔ آپ ۖ جنت البقیع ( قبرستان) میں تھے۔ آپ ۖ نے فرمایا:کہ میرے پاس حضرت جبریئل تشریف لائے اور فرمایا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی مغفرت کرے گا مگر چند لوگ اس مغفرت سے محروم رہیں گے۔ مشرک، کنبہ پرور، قطع رحمی کرنے والا اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ شراب پینے والا، روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ چار راتوں میں ہر قسم کے احسانات کے دروازے کھول دیتا ہے اور یہ دروازے اذان فجر تک کھلے رہتے ہیں۔ وہ چار راتیں ہیں۔( 1)عید کی رات۔( 2)بقر عید کی رات۔(3)شب برأت۔ جس میں سب کی عمر یں اور سب کے رزق نیز جن کو حج نصیب ہوگا ان کے نام لکھے جاتے ہیں۔ (4)شب عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کی رات۔ شب برأت بہت ہی با برکت رات ہے۔
اس رات میں خوشنودی الٰہی حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ عبادات۔ خوب خوب توبہ و استغفار کر نا چاہئے۔ کیونکہ اس رات میں باری تعالیٰ کے انعامات اور اس کی رحمتوں کی بے پناہ بارش ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے پوری مستعدی ، حضور قلب اور اخلاص کی سخت ضرورت ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں شب میں قیام کرو یعنی عبادت میں مصروف رہو اس کے دن میں روزہ رکھو۔ اس رات میں جس سے جو ہو سکے وہ کرے۔ ذکر واذکار کرے۔ قرآن شریف کی تلاوت کرے۔ یا نوافل وغیرہ پڑھے۔ فتاویٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ شب برأت میں جاگنااور عبادت میں یہ رات گزارنا مستحب ہے اسی وجہ سے بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی نہیں جاگتا ہے بلکہ سو جاتا ہے تو اس کو برا نہیں کہنا چاہئے اور اس کی عظمت وشان کے خلاف نہیں سمجھنا چاہئے۔
اس لئے کہ یہ مستحب ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی حالت ایسی ہو کہ رات کو جاگ کر مستحب پر عمل کرنے کی صورت میں فرض چھوٹنے کا اندیشہ ہو یا خشوع و خضوع جانے کا ڈر ہو تو واقعی ایسے شخص کے لئے جاگنے سے بہتر سونا ہے۔ اس رات کا حق تو یہ ہے کہ جس سے جتنا ہو سکے مسجد میں گھر پر یا جہاں بھی مناسب سمجھے تنہا ذکر و نوافل میں مشغول ہو۔ جتنا ہو سکے نیک اعمال کرے۔ اگر پوری رات نہیں جاگ سکتا تو جتنا ہو سکے اتنا ہی جاگے۔ ایسا نہ ہو کہ پوری رات تو جاگ کر نوافل و مستحبات میں گزار لیا اور نماز فجر جو کہ فرض ہے وہ سونے کی نذر ہوگئی۔ بلکہ یہ راتیں اس لئے ہیں کہ گوئشہ تنہائی میںبیٹھ کر تم اللہ کے ساتھ تعلقات استوار کر لو اور تمہارے اور اللہ کے درمیان کوئی حائل نہ ہو۔
M A TABASSUM
تحریر:ایم اے تبسم صدر، کالمسٹ کونسل آف پاکستان email: [email protected] 0300-4709102