سانحہ مستونگ۔۔۔۔ذمہ دار کون؟

Mustang Tragedy

Mustang Tragedy

تحریر: سید احمد علی رضا
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریبا ستر کلو میٹر دور جنوب مشرق میں واقع ضلع مستونگ میں منگوچر اور کھڈکوچہ کے درمیانی علاقے میں جمعہ کی رات مسلح افراد کے ایک بڑے جتھے نے کراچی جانے والی دو مسافر کوچز کو زبردستی روک کر ان میں موجود مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ان میں سے 22 مسافروں کو اغواکرلیا جنہیں وہ قریبی پہاڑوں میں لے گئے اور انہیں فائرنگ کرکے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔سیکیورٹی فورسز نے اطلاع ملنے پر حملہ آوروں کا تعاقب کیا اور اغوا کرنے والوں کے چنگل سے پانچ مغویوں کو چھڑا لیا ۔اخباری اطلاع کے مطابق دو کوچوں میں سوار مسافر پشین سے کراچی جارہے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تر پشتو بولنے والے تھے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ کی ویسی ہی واردات ہے جیسی امسال اپریل میں تربت میں 20مزدوروں کو قتل کرنے اور پھر مئی کے دوسرے ہفتے میں کراچی کی صفورا چورنگی پر اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس کو یرغمال بنانے اور پھر ان میں سے 43افراد کو قتل کرنے کے لیے کی گئی تھی۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے حسب سابق واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

قارئین۔۔۔ بلوچستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں،بلوچستان کی امن و امان کی صورتحال گزشتہ تقریبا دس سال سے انتہائی مخدوش ہے اور اس وقت سے ہی وہاں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری افواج پاکستان کے ماتحت ایف سی نے سنبھال رکھی ہے۔ اس دوران مشرف کے دور اقتدار سے اب تک وفاقی سطح پر چار اور بلوچستان میں گورنر راج سمیت پانچ حکومتیں قائم ہو چکی ہیں مگر کسی ایک بھی دور حکمرانی میں بلوچستان کے عوام کو امن نصیب ہوا نہ انکی معاشی اور اقتصادی محرومیوں کا ازالہ ہوسکا جبکہ ایف سی کے انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے بعد علاقائی اور لسانی بنیادوں پر بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ، قومی املاک و تنصیبات کو دھماکوں سے اڑانے والی دہشت گردی، لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کرنے، قومی پرچم جلانے اور زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی تک کو تخریب کاری سے تباہ کرنے کے واقعات ایف سی کے کنٹرول کے دوران ہی رونما ہوتے رہے ہیں۔

بعض بلوچ قوم پرست لیڈروں کی جانب سے ڈیرہ بگتی میں شروع کئے گئے مشرف کے فوجی اپریشن اور ایف سی کے عمل دخل کو بلوچستان کے حالات کی خرابی کی جڑ قرار دیا جاتا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے روبرو ایف سی کی جانب سے فراری کیمپوں میں پناہ لئے افراد کو صورتحال کی خرابی کا ذمہ دار گردانا جاتا رہا ہے جن کے بقول انہیں بعض بیرونی قوتوں کی مالی اور حربی سپورٹ حاصل ہے۔ بلوچستان کی ہر حکومت بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے خود کو اس لئے لاتعلق ٹھہراتی رہی ہے کہ یہاں امن و امان کا معاملہ کلی طور پر ایف سی کے زیر کنٹرول ہے۔

Balochistan

Balochistan

بلوچستان کے حالات کی خرابی کے جو بھی عوامل کارفرما ہوں وہاں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری افواج پاکستان کے ایک منظم ادارے ایف سی کو سونپی گئی ہے جو گزشتہ دس سال سے وہاں سرگرم عمل ہے اور وہاں سے حاصل ہونیوالے مفادات میں خود کو حصہ دار بھی بنا چکی ہے تو امن و امان کی بحالی کیلئے اب تک اسکی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہوسکی ؟کبھی فرقہ واریت اور کبھی لسانی بنیادوں پر وہاں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی و تخریب کاری کا سلسلہ رکنے میں کیوں نہیں آرہا؟یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کئی گروپ بروئے کار ہیں۔ یہاں فرقہ پرست کالعدم تنظیمیں زیر زمین کام کر رہی ہیں اور فرقہ ورانہ قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر بھی بعض گروہ غریب و بے گناہ مزدوروں، ہنرمندوں اور اساتذہ کو قتل کر رہے ہیں۔ طالبان کا عنصر بھی موجود ہے اور ایسے گروہ بھی سرگرم عمل ہیں جو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ یوں بلوچستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قانون شکنی کی کئی جہتیں ہیں۔بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی” خاد” بھی مختلف گروہوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان اس حوالے سے متعدد بار اظہار خیال بھی کر چکی ہے۔

قارئین۔۔۔ بلوچستان میں گزشتہ کافی عرصے سے بعض مخصوص برادریوں کو وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے تدارک کے لیے حکمرانوں کی طرف سے بلند بانگ دعوے تو بیشک کیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ ایک افسوسناک واقعہ کے کچھ عرصے بعد ایک اور پہلے سے بھی بڑا وقوعہ رونما ہو جاتا ہے جس میں پچھلا واقعہ دب جاتا ہے اور فراموش کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی ایسی ہر واردات کے بعد آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ان کا مقابلہ کرنے اور ان کیخلاف اپریشن جاری رکھنے کے مقتدر قیادتوں کے بیانات اور دعوئوںکے بعد بھی حالات جوں کے توں ہی نظر آتے ہیں اور دہشت گرد ملک کے ہر حصے میں دندناتے اپنے اہداف پورے کرتے جارہے ہیں۔ اگر یہ بیک وقت ہمارے انتظامی اور سکیورٹی سسٹم کی ناکامی ہے تو خدارا غور کیجئے کہ ہم ملک کے دفاع کے حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہیں۔ایسے واقعات بار بار رونما ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے سانحات کی جامع تحقیقات اور ان کے ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی؛ چنانچہ جب حکومت کچھ وقت گزرنے پر ماضی کے واقعات بھول جاتی ہے اور اہم معاملات کو طاق پر رکھ دیتی ہے تو اس سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو شہ ملتی ہے اور وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کھل کھیلتے ہیں۔ بلوچستان میں ایف سی موجود ہے۔

آپریشن بھی چل رہے ہیں لیکن شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہی دہشت گرد گروہ ہیں جو پاکستان میں امن نہیں چاہتے اور گوادر پورٹ میں کام شروع ہونے اور اکنامک کوریڈور کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد جن کی کارروائیاں تیز ہو گئی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب نشاندہی کی جاتی ہے کہ را کے گماشتے یہ ساری کارروائیاں کر رہے ہیں تو محرومی کے مارے اور ناراض لوگوں کا ذکر سننے کو ملتا ہے ،حالانکہ یہ قوم پرست نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جو ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔ بلوچستان ہر دوسرے ہفتے لہولہان ہو جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں اور بلوچستان کے حقوق کے علمبردار بھی مہربلب۔مقتدر اداروں اور حکومتی و عسکری قیادتوں کی جانب سے کسی نہ کسی دہشت گردی کے دستیاب ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر آسانی کے ساتھ یہ الزام تو لگادیا جاتا ہے کہ بھارت اپنی ایجنسی را کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے مگر اسے ایسی سازشوں کا موقع کس نے دیا ؟اور کیسے ملا ؟اگر کبھی اپنا دامن جھاڑ کر بھی دیکھ لیا جائے تو شاید آئندہ کیلئے ایسی سازشوں کی پیش بندی کرنے کی کوئی راہ نکل آئے۔

قارئین۔۔۔بلوچستان میں اس وقت بظاہر ایسا کوئی خلفشار موجود نہیں جس کے ساتھ سانحہ مستونگ کا ٹانکا جوڑا جا سکتا ہو۔ حکومتی اور عسکری قیادتیں مستونگ سانحہ کو معمول کی واردات سمجھ کر خاموش نہ بیٹھ جائیں ۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ پورے پاکستان کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کے بلاامتیاز سب کو ثمرات ملیں گے۔پاکستانی عوام کو پاک چین دوستی کے ثمرات سے کیا ملک دشمن عناصر مستفید ہونے دینگے ؟ کیا وہ پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم بحثیت قوم اپنے دشمن کی”کمینگی”،”اخلاقی گراوٹ”اور بزدلی سے واقف نہیں ہیں۔اگر ہم اب بھی سب کچھ جانتے ہوئے خاموش رہینگے تو یہ ہماری فراخدلی نہیں مجرمانہ سوچ ہوگی۔ہمارے پاس بہادر فوجی قیادت ہے جو دشمن کی آنکھیں نوچ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ہماری سیاسی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرتے ہوئے ملکی و غیر ملکی پلیٹ فارم پر مضبوط اور دلیرانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔اگر ہم اب بھی سر اٹھا کر دشمن کے سامنے نہ آئے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہ کیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔اس قوم کی داستان کو داستانوں میں کوئی تلاش نہیں کرسکے گا۔

Ahmad Raza

Ahmad Raza

تحریر: سید احمد علی رضا