تحریر: محمد علیم الدین خان 124،ماہی ہاسٹل، جواہر لال نہرو یونیورسٹی۔ نئی دہلی6 یوں تو دنیا میں آنے والا ہر انسان زندگی جیتا ہے اور اپنے مقدرسے ملے دن گزارتا ہے۔اس کے بعد اس کی زندگی اور گزرے دن سب ماضی کے قصے یا بھولی بسری یاد بن کر رہ جاتے ہیں۔ مگر اسی دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر خود ان کی زندگیوں کو ناز ہوتا ہے اور ان کی زندگی رشک حیات ہوتی ہے نیزوہ دنیا والوں کے لیے ایک مثال، نمونہ اور کبھی نہ بھولی جانے والی یاد گار بن جاتے ہیں۔
لوگ ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کر تے ہیں ،کچھ ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور کچھ ان کو اپنا آئیڈیل بنا کر زندگی کے جھمیلوں سے بآسانی گزر جاتے ہیں ۔ایسی ہی منفرد اور قابل رشک زندگی کے مالک مولانا شکر اللہ فیضی تھے جنھوں نے ایک جدوجہد ،محنت و کوشش اور قوت و عمل بھری زندگی گزاری ۔اسی کے ساتھ ساتھ علم و علم ،علما اور علوم اسلامی سے محبت و لگائو اور ان کی اشاعت و ترسیل کی فکران کی زندگی کا ایسا روشن پہلو ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔یوں تو ان کے علمی،دینی اور یادگاری کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں خاص طور سے مقامی اور بیرونی سطح پر متعدد مدارس قائم کر نا اور بدعات و خرافات کے قلع قمع کے لیے تبلیغی اسفار بھی کر نا نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب انسان کو ئی اہم اور تاریخی قدم اٹھاتا ہے تو اسے گھر والوں کی مدد و معاونت کی ضرور ت محسو س ہو تی ہے۔اکثر یہ ہو تا ہے کہ گھر والے اس سے متفق نہیں ہوتے اور بات بگڑ جاتی ہے یا جہاں سے چلتی ہے وہیں تک سمٹ کر رہ جاتی ہے مگرمولانا شکر اللہ فیضی کوخوش قسمتی سے ایسے گھر والے ملے جنھوں نے ان کی قدم قدم پر دامے ،درمے سخنے اور ہر ممکن مدد کی بلکہ ان کے کاموں کو اپنا کام اور سعادت سمجھ کر کیا اور اس طرح سے ان کا مقصد عظیم پورا ہو گیا۔
Islam
مولانا شکر اللہ فیضی نے حفاظت دین اور صیانت اسلام کے لیے جس طرح کے منصوبے اور اصول بنائے ان کو پورا کر نے اور ان پر چلنے میں انھیں اس طرح کی دقتیں نہیں آئیں جیسی کہ عموماً اور اکثر آیا کر تی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دست مبارک سے لگے علمی و دینی گلستان آج بھی اسی طرح لہلہا رہے ہیں جس طرح ان کی زندگی میں لہلہاتے تھے۔اس کے علاوہ ان کے گھر کے افراد بھی اسی روش پر گامزن ہیںجس کی انھوں نے تلقین کی تھی اور جو انھوں نے ان کے لیے منتخب کی تھی۔ یہ بندے کی کوشش و محنت کا مظہر ہیں جس کا وعدہ اللہ پاک نے اپنے کلام مقدس میں بار بار کیا ہے۔
مولانا شکر اللہ فیضی کی سب سے نمایاں خصوصیت اور وصف مدرسوں کے قیام اور علمی و دعوتی امور کی انجام دہی کے مراکز سے محبت اور لگائو تھا ،وہ انھیں اپنی جاں سے عزیز رکھتے تھے اوران کے وجود ،بقا اور قیام کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر نے کے لیے ہمیشہ تیا ررہتے تھے۔انھیں ان دینی اور علمی اداروں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اسی طرح خوشی اور شادمانی ہوتی تھی جس طرح کوئی باپ اپنے بچو ں کو پلتا اور پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی سے جھوٹ اٹھتا ہے۔ حقیقی معنوں میں مدرسوں اور علمی مراکز کے درودیوار صیانت اسلام کے محفوظ قلعے معلوم ہوتے تھے ۔ان کی اس طرح کی شادمانی اورمسرت کے بیان کا واقعہ بیان کر تے ہو ئے ان کی پوتی اپنی ذاتی ڈائری میں تحریر کر تی ہیں: ”مدرسہ مفتاح العلوم دادا جان کی حرز جان تھا ۔دادا صاحب اس مدرسے کو اپنا ثمرہ آخر ت سمجھتے تھے اس لیے رات دن اس کے تعلیمی معیار کی بلندی،طلبا اور اساتذہ کے سہولیات اور دیگر ملازمین مدرسہ کے حالات کی خبرگیری کرنا اور ان کے دکھ درد میں کام آنا دادا جان اپنا فرض سمجھتے تھے۔
اللہ پاک نے دادا جان کی سعی و کوشش کو قبول بھی فرمایا جس کا مظہر یہ ہے کہ مدرسہ اسی آن و بان اور شان سے چل رہا ہے جس طرح ان کی حیات مبارکہ میں چلتا تھا۔”مذکورہ بالا حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی وہ رجال کار ہیں جن کے طفیل دنیا کا چمن آباد اور باقی ہے اس طرح یہی لوگ ہیں جن کے دم سے اسلام کے سینے میں روح باقی ہے۔ایسے ہی لوگوں نے ہر دو رمیں اسلام اور دین الہی کی حفاظت کی اور اس کی تعلیمات کو سینوں سے لگا کر آگے پہنچایا۔خاص طور سے ایسے وقت میں ان لوگوں کے زرین کارنامے وجود اور غنیمت سے بھی سوا کچھ ہیں جب کہ ہر طرف بے دینی،بے حیائی اور اسلام و مذہب سے بے زاری عام سے عام تر ہوتی جارہی ہے ۔مولانا شکر اللہ فیضی اور ان کے جیسے افراد نے ان تیز و تند اور مخالف حالات میں ہدایت کے چراغ جلا کر امت کی ہدایت و رہنمائی کے کامیاب اقدامات کیے ہیں ۔جن کا فیض دیر تک باقی رہے گا۔
Lamp
آج وہ نہیں ہیں مگر ان کے یاد باقی ہیں اور ان کے ذریعے ثبت کردہ نقوش مدارس اور علمی و تبلیغی کوششوں کی صورت میں باقی ہیں۔جن سے ایک جہاں مستفید ہو رہا ہے۔افسوس اس بات کا ہے زمین کیسے کیسے لوگوں کو کھا گئی اور کیسے کیسے راحت و بخش و راحت رساں آسمانوں کو یہ نگل گئی۔نہ اس سے کوئی حساب مانگتا ہے اور نہ پوچھتاہے ۔بس یہی حسرت دل میں رہتی ہے کہ
فرصت ملے زمیں سے پوچھوں کے اے لعین تونے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے ؟ مگر کب تک …..ایک دن زمین ان قیمتی دفینوں کو ضرور نکالے گی ،اس دن دنیا انھیں دیکھے گی اور عش عش کرے گی۔