تحریر : طارق حسین بٹ چین کی طرف سے٤٥ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کو ئی معمولی بات نہیں ہے۔سالہا سال لگتے ہیں تب بھی اتنی بڑی سرمایہ کاری کا ذائقہ چکھنا ممکن نہیں ہو تا ۔پچھلے کئی عشروں میں جتنی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے چینی قیات نے ایک ہی سٹروک (ہلے ) میں اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کا مظاہرہ کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں۔یہی ہے دوستی کی وہ اجلی روح جس نے پوری دنیا کو ششدر کر دیاہے۔ ایک ایسا ملک جسے دھشت گردی نے آدھ مووا کر رکھا تھا اس کے ساتھ چین نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کا جو عظیم الشان مظاہرہ کیا ہے وہ اس کے دلی خلوص کا آئینہ دار ہے۔وہ ملک جسے ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں اور جس کے ڈیفالٹر ہونے کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا وہی ملکی ملک چینی سرمایہ کاری کے بعد ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہو رہا ہے جو پوری دنیا کے لئے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔
پاکستان چینی اعانت کے ساتھ ایک ایسی جست بھر چکا ہے جس سے آنے والا کل اسی کا ہے اور جسے روکنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے۔پاکستان کے خلاف سازشیں تو ہوتی رہیں گی لیکن وہ ان سب سازشوں کے باوجود بلندیوں کی جانب محوِ پر و از رہے گا اور ایک دن اس مقام پر برا جمان ہو گا جس کی پیشن گوئی شاعرِ مشرق نے کی تھی کہ (اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا ۔۔کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں) ۔یہ بات بڑی ہی خوش آئیند ہے کہ چینی مدد کے ساتھ پاکستان ٢٠٢٠ تک توانائی کی اپنی ساری ضروریات خود پوری کریگا جس سے اس پر صنعتی ترقی کے دروازے کھلیں گئے،بے روز گاری کا خاتمہ ہوگااور خوشخالی کا نیا دور شروع ہو گا جس سے پاکستان دنیا پر ثابت کریگا کہ پاکستانی قوم بے شمار اوصاف کی حامل ہے۔
پاکستان کو خدا نے بے شمار خصائص سے نواز رکھا ہے لیکن قیادت کی کوتاہ نگا ہی اسے اصلی ہدف تک جانے نہیں دے رہی۔ پاکستان پر دھشت گردی کی وجہ سے کوئی سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کر رہا کیونکہ اسے اپنے سرمائے کے ڈوب جا نے کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ سرمایہ ہ کاری میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنے کیلئے بڑی جدو جہد کرنی پڑ رہی تھی ۔وہ فی کس آمدنی میں اضافہ کرناچاہتا ہے اور افراطِ زر میں کمی کرنا چاہتا ہے لیکن دھشت گردی کا آ سیب اسے کہیں کا نہیں چھوڑ رہا۔ سرمایہ کاری تو بڑی دور کی بات ہے ہماری حا لت تو یہ ہے کہ کرکٹ کی کوئی ٹیم بھی پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
India
بھارت نے اس صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھایا اور دنیا کو یہ باور کروانے میں جٹ گیا کہ پاکستان ایک انتہا پسند ملک ہے جس کی پہچان دھشت گردی ہے جہاں پر کسی کی جان و مال محفوظ نہیں، لہذا وہاں پر کرکٹ جیسے کھیل کا انعقاد نہیں ہو سکتا ۔میں جنرل راحیل شریف کو سلام پیش کرتاہوں کہ انھوں نے اپنے عزم ِ مصمم سے دھشت گردوں کے عزائم خاک میں ملا دئے ۔دھشت گرد چھپتے پھر رہے ہیں اور انھیں کہیں بھی جائے پناہ نہیں مل رہی ۔وہ جہاں بھی چھپنا چاہتے ہیں پاکستان فوج وہاں پر ان کے خاتمے کیلئے موجود ہو تی ہے ۔ اس جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے جس طرح اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دھشت گردوں کو چن چن پر ختم کیا ہے پاکستانی قوم سدا ان کی ا حسان مند رہے گی۔،۔ہمار المیہ یہ ہے کہ ہم نے امریکی دوستی پر اپنی ساری توانائیاں صرف کر رکھی ہیں اور امریکی دوستی کو بہت زیادہ اہمیت دے رکھی ہے لیکن امریکہ پھر بھی ہمارا دوست بننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اس کی ترجیح بھارت سے دوستی ہے ۔یہ سچ ہے کہ سیاسی سرکس میں دوستی اور دشمنی اپنا مستقل وجود نہیں رکھتی بلکہ حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
آج کے دشمن کل کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بن جاتے ہیں کیونکہ دوستی اور دشمنی کی بنیادیں قومی مفادات کے تحضظ سے پھو ٹتی ہیں۔امریکہ یہی سمجھ رہا ہے کہ اس کے مفادات کا تحفظ بھارتی دوستی میں مضمر ہے لہذا وہ بھارت کو شہ دے رہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں اس کے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھے تا کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ پر بریکیں لگائی جا سکیں۔ پاک چین دوستی سے امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ چین سے ہماری قربتیں امریکہ سے دوری کے مترادف ہیں جسے امریکہ استحسان کی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ایک وقت تھا کہ پاکستان امریکی دوستی کا خواہاں تھا اور اپنی ترقی کیلئے اسے ضروری خیال کرتا تھاشائد اس کی وجہ یہ ہوکہ تخلیقِ پاکستان کے ابتدائی ایام میں عالمی سیاسی حالات کے تناظر میں امریکی دوستی کی بہت زیادہ قدرو قیمت تھی کیونکہ اس وقت ہم بالکل نوزائدہ ا ور بے یارو مددگار قوم تھے اور کوئی ہمیں گھاس ڈالنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ سوویت یونین اور بھارت مل کر پاکستان کے حصے بخرے کرنے پر تلے ہو ئے تھے اور امریکہ ہی ایسا واحد ملک تھا جو اس جارحیت کے خلاف پاکستان کے استحکام کی ضمانت دے سکتا تھا چین اس وقت خود بھی اتنا توانا نہیں تھا کہ وہ ان دونوں قوتوں سے نبر آزما ہو سکتا۔
مشرقی پاکستان کا سانحہ اس گٹھ جوڑ کی بدترین مثال تھا۔وقت کے جبر کے ہاتھوں سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بنا تو روس بھارت گٹھ جوڑ کے خدشات قدرے کم ہو گئے لیکن پھر بھی ہماری یک جہتی اوراستحکام کے کہیں بھی شواہد نہیں تھے بلکہ ہم مسلسل علیحدگی پسند تحریکوں کی زد میں تھے جس سے ہماری صنعتی ترقی انتہائی سست رفتار ہو گئی ۔ ابھی ہم اس مخصمے کا شکارتھے کہ افغان جنگ نے پاکستان کے اندر دھشت گردی کی ایسی آگ بڑھکائی کہ پاکستان کے در و دیوار جھلس گئے۔ایسے لگ رہا تھا کہ آگ کے ان شعلوں میں پاکستان اپنا وجود کھو دیگا لیکن جنرل راحیل شریف کے عزم اور حکمتِ عملی نے ساری بازی بد ل کر رکھ دی۔چین نے پاکستان کا ہاتھ پکڑا تو پھر ایسے لگا جیسے طاقت کے مراکز بدل گئے ہیں اور نیا پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا ہے۔ ،۔
America
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مدد تو کرتاہے لیکن ساتھ ہی دوددھ میں مینگنیں بھی ڈال دیتا ہے۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔امریکہ کو جب ضرورت ہوتی ہو پاکستان کو گلے لگا لیتا یے اور جب ضرورت نہیں ہوتی وہ اسے دھتکار دیتا ہے۔دونوں ا فغان جنگوں کے خاتمے کے بعد ہم نے یہی دیکھا ہے کہ امریکہ نے ہمیں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔امریکہ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی امداد پر کسی نہ کسی بہانے سے پاندیاں بھی لگا دیتاہے۔پریسلر ترمیم اور کیری لوگر بل اس کی واضح مثا لیں ہیں۔کیری لوگر بل پر تو ہماری پارلیمنٹ میں بڑا ہنگامہ بپا ہوا تھا لیکن بہر حا ل وہ بل منظور تو ہوگیا تھالیکن پی پی پی حکومت کو امریکی پٹھو ہونے کا طعنہ بھی سننا بھی پڑا تھا۔
ایک دوسر اپہلو بھی ہے جو کہ بہت خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیلی مفادات کو مقدم ر کھتا ہے اور اسرائیل کی پاکستان کے ساتھ سخت مخا صمت ہے ۔ پاکستانی قوم اسرائیل سے شدید نفرت کرتی ہے لیکن امریکی اسرائیلی منشاء کے خلاف کسی بھی قسم کی امداد دینے کا تصور نہیں کر سکتا ۔امریکہ کا ہر اقدام اسرا ئیل کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے جو پاک امریکی تعلقات میں رخنہ پیدا کرتا رہتا ہے کیونکہ اسرائیل عالمِ اسلام کا دشمن ہے۔عیسائیت کی تاریخ بھی مسلما نوں سے ٹکرائو اور مخا صمت کی تاریخ ہے جس میں دونوں مذا ہب ایک دوسرے سے سدا بر سرِ پیکار رہے ہیں ۔صلیبی جنگیں تو تاریخ کا ایسا معرکہ ہیں جسے عیسائیت ایک ڈرائونے خوا ب سے تعبیر کرتی ہے۔مسلمانوں کے خلاف انھیں جب بھی متحد ہونا ہوتا ہے وہ صلیبی جنگوں کا نعرہ بلند کر دیتی ہے ۔ عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار کو امریکی صدر جارج بش نے صلیبی جنگوں کا نام دیا تھا لیکن پھر میڈیا کی تنقیدسے گھبرا کر اس سے پسپائی اختیار کر لی تھی۔
چینی دوستی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں یہ سارے عوامل نہیں ہیں ۔نہ تو اسرائیل کی ناز برداریاں ہیں،نہ ہی مذہبی منا فرت ہے اور نہ ہی عیسائیت کی طرح اسلام سے ازلی دشمنی کا شا خسانہ ہے ۔ پاکستانی مذہب کے بارے میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں لہذا وہ ہر اس قوم کو جو ان کے مذہب کے بارے میں تعصبانہ سوچ رکھتی ہے اس کی دوستی کو کو کبھی کھلے دل سے قبول نہیں کرتے ۔ پاک چین دوستی چونکہ ہر قسم کے مذہبی تعصبات سے پاک ہے اس لئے اس دوستی میں پاکستانیوں کا دل دھڑکتا ہے کیونکہ اس میں ان کے مذہب سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی بلکہ ا س کا صدقِ دل سے احترام کیا جاتا ہے اور یہی احترام پاک چین دوستی کی بنیاد ہے۔،۔