تحریر : حبیب اللہ سلفی بھارت سرکار نے بالآخر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی کھل کر مخالفت کر دی ہے اور کہا ہے کہ ہندوستانی cنریندر مودی نے اقتصادی راہداری روٹ کے کشمیر سے گزرنے پر اسے چینی قیادت کے سامنے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بی جے پی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی نے گزشتہ ماہ چین کے دورے کے دوران واضح کردیا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کی سخت مخالفت کی جائے گی اور اس سلسلہ میں چینی سفیر کو طلب کرکے اس کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔اسی طرح بھارت نے چینی سفیر کے سامنے اقتصادی راہداری منصوبے پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے ۔ادھر وزیر اعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری دشمن کو کھٹک رہی ہے۔ بھارت کے پاکستان کے خلاف تمام عزائم ناکام بنا دیں گے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے دورہ پاکستان کے دوران جب سے 51معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں’ بھارت کے پیٹ میں اس وقت سے سخت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ان معاہدوں میں سے تیس سے زائد منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق ہیں اس لئے وہ دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعہ مسلسل اس منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ سانحہ صفورا کراچی اور مستونگ بلوچستان میں مزدوروں کو اغواء کر کے بہیمانہ انداز میں قتل کرنے جیسے واقعات اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور اسے ”گیم چینجر” کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونیوالا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا۔ اس راستے کو بنانے میں چین کی دلچسپی یہ ہے کہ آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا اور ملائشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام ،ہانگ کانگ سے تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تمام ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنایاجائے
تاکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کم خرچ اور کم وقت میں پہنچ سکیں ۔آبنائے ملاکہ سے چینی تجارتی سامان کو یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جبکہ کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا رہ جائے گا۔پاکستان کو اس راہداری سے یہ فائدہ ہوگا کہ دہشت گردی اور بد امنی کا شکار یہ ملک تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو کر معاشی ترقی کر سکے گا اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے ہو گا ۔ چین نہ صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل چاہتا ہے بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مل کرا سی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولنا چاہتا ہے۔ یہ منصوبہ معاشی استحکام کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اوردیگر علاقوںمیں جاری علیحدگی کی تحریکوں کیلئے بھی زہر قاتل ثابت ہو گا کیونکہ معاشی استحکام آنے سے یہ تحریکیںبہت حد تک خود بخودکمزور ہو جائیں گی۔
Pakistan and China
راہداری منصوبہ سے تمام صوبوں کو فوائد ملیں گے اور اس سے ملک میں امن و خوشحالی آئے گی یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے اعلان پر بھارت کے اوسان خطا ہیں اور وہ ہر صورت اسے ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس مسئلہ کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا دیا جائے۔وزیر اعظم نواز شریف سمیت سبھی حکومتی ذمہ داران بارہا یہ بات کر چکے ہیں کہ راہداری منصوبہ کے ثمرات میں تمام صوبوں کو بلا امتیاز شریک کیا جائے گا اور پورا پاکستان اس سے فائدہ اٹھائے گا مگر اس کے باوجود کبھی اقتصادی راہداری روٹ تبدیل کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی کہاجاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) حکومت اس روٹ کو سب سے پہلے پنجاب میں مکمل کر رہی ہے اور اسی صوبہ کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاناچاہتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض سیاسی قائدین حالات کی سنگینی کو مدنظر نہیں رکھ رہے اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھنے کی بجائے انتہائی سطحی قسم کی بے سروپا باتیں کر کے قوم کو تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ راہداری منصوبہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی اور ان افواہوں پر کان نہیں دھرا جانا چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس وضاحت کے بعد بھانت بھانت کی یہ بولیاں بند ہونی چاہئیں۔پاک چین راہداری منصوبہ کا تین ہزار کلومیٹر حصہ بلوچستان میں بنے گا اور اس طویل راستہ میں بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ایجنٹ ضرور ہندوستانی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے۔اس خطرہ کا اظہار چینی حکام نے بھی کیا ہے جس پر پاکستان کی جانب سے 8ہزار فوجی اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی سکیورٹی ڈویژن کوتربیت دی گئی ہے جوقومی شاہراہ این 10 ایسٹ بے ایکسپریس وے کو سمندری پٹی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد سے کراچی اورگوادرشاہراہ کے منصوبے کی سکیورٹی کے لیے فرائض سرانجام دے گی۔
اس روٹ پرکام کرنے والے پندرہ ہزار سے زائد چینی کارکنوں کی حفاظت کے لیے رینجرز،لیویز،پولیس اوراسکائوٹس پرمشتمل نو ہزار اہلکار بھی پاک فوج کے خصوصی ڈویژن کی معاونت کریں گے۔اس پوری فوج کی کمان ایک میجرجنرل رینک کے افسر کے سپرد ہوگی۔اقتصادی راہداری کی حفاظت کے علاوہ پاکستان میں 210 منصوبوں پرکام کرنے والے 8,112 چینی کارکنوںکی حفاظت کے لیے آٹھ ہزار سکیورٹی اہلکاروں کومتعین کیا گیا ہے۔ چین ہمارا بہترین دوست اور سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے باشندوں کے تحفظ کیلئے ہر ممکن سکیورٹی انتظامات کرنا حکومت پاکستان کے فرائض میں شامل ہے۔ بھارت میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے جو نہ صرف اپنے ملک میں مسلم کش فسادات کی آگھ بھڑکاکر نہتے مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے بلکہ پاکستان میں بھی بلوچستان، سندھ اور دیگر صوبوں میں دہشت گردی کروارہا ہے اور اعلانیہ طو رپر دہشت گردوں کی سرپرستی کی باتیں کی جارہی ہیں۔ انڈیا کی طرف سے راہداری منصوبہ کی مخالفت بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
Pakistan
مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اورہر وقت پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ اس لئے اب بھی وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے کسی صورت باز نہیں آئے گا۔ اب تو یہ خبریں بھی کھل کر منظر عام پر آچکی ہیں کہ انڈیا نے راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام ہی اس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے قتل و خون بہانا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی طرف سے پاک چین راہداری منصوبہ کی مخالفت عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ ا نڈیا کا اس راہداری منصوبہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ اسے برداشت نہیں ہو رہا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آنے والے چند دنوں میں اسرائیل جارہے ہیں’ یہ کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہو گا۔
2000ء میں بی جے پی کے ہی سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی حکومتی عہدیدار تھے۔ 2003ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا اور پھر یہ تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے اور پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے سمیت حساس سینسرز لگانے میں اسرائیل نے بھارت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہی سے دوچار کرنے کیلئے بھی اسرائیلی طیارے سری نگر میں تیار کھڑے تھے کہ پاکستان نے بروقت معلوم ہونے پر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ ان حالات میں بھی جب پاک چین راہداری منصوبہ سے پورے خطہ میں ترقی کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فوری طور پر اسرائیل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا یہ دورہ خطہ کے موجودہ حالات کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔بھارت کی پوری کوشش ہو گی
Israel
پاک چین راہداری منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے وہ اسرائیل کا بھرپور تعاون حاصل کر سکے۔ پاکستان دشمنی میں یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے بڑھ کر مکروہ عزائم رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارتی خفیہ ایجنسی را کی دہشت گردی بے نقاب کرنے کیلئے بھرپور سفارتی مہم چلائے اور بلوچستان، سندھ و دیگر علاقوں میں اس کے بھیانک کردار کو پوری دنیاکے سامنے لایا جائے۔اسی طرح ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، لسانیت اور صوبائیت پرستی کے فتنوں کو ختم کر کے ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاک چین راہداری منصوبہ اور وطن عزیز پاکستان کی سلامتی و استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔