ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلا دیش کے کیمپوں میں محصور برما سے آئے روہنگیا مسلمانوں کی پریشانی بڑھ گئی، حکومت نے کیمپ چھوڑنےکی ہدایت کردی۔ اس معاملے پرنوبل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بن گئی۔ میانمار کی ریاست رخائن میں کئی دہائیوں سے آباد لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو کیا پتہ تھا کہ جس زمین پرانہوں نے آنکھ کھولی وہی زمین ان کے لئے تنگ کردی جائیگی۔
بدھ مت کے شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں سے پریشان سینکڑوں برمی مسلمانوں کی کشتی بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہے ۔ بنگلا دیش کے کیمپوں میں محصور روہنگیا مسلمانوں کو حکومت نےکیمپ چھوڑنے کی ہدایت کردی ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سیاسی مشیر ایچ ٹی امام نے صاف کہہ دیا ہے کہ روہنگیا میانمار کےشہری ہیں،بنگلا دیش لمبے عرصے تک ان کی مہمان نوازی نہیں کر سکتا،انہیں یہاں سے جانا ہوگا۔
اس صورتحال میں میانمار کی اصول پسند،جرات مند،جمہوریت ، انسانی حقوق کی علمبرداراور نوبل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی خاموشی دنیا بھر کیلئے سوالیہ نشان بن گئی ہے۔میانمار پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی رکن 69 سالہ سوچی اکثر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں لیکن روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔آس وقت وہ ملک میں عام انتخابات کی مہم چلا رہی ہیںاور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس موقع پر روہنگیا مسلمانوں کی حمایت کر کے شدت پسند بدھ مت کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتیں۔