رضی الدین رضی

Razi udin Razi

Razi udin Razi

تحریر: ایم آر ملک
یہ ملتان سے نئے دن کا آغاز تھا اور پہلا اتفاق تھا جب ہم رضی سے ملے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہمارا سانس پھول گیا ایک بڑی میز کے ساتھ لگی کرسی پر رضی نظر آئے مصافحہ کیا تو احساس ہوا کہ ہاتھوں میں بلا کی نرمی جو شاید معاشرے کی ناہمواریوں کو دیکھ کر پیدا ہوئی ،وہ نرمی جو احساسات کو الفاظ کا روپ عطا کرتے وقت پیدا ہوتی ہے وہ نرمی جو محبت کی میراث کہالاتی ہے مگر ہاتھوں کی گرفت اتنی کمزور کہ قانون کے ہاتھوں کا گماں ہونے لگا

بہت سی باتیں ہوئیں پی جیمز بھی ملے حالات حاضرہ پر بحث نے طول پکڑا چہرے پر گھمبیر خاموشی طاری دیکھی تو یوں لگا جیسے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے میں مشکل درپیش ہو لیکن جب بولنا شروع کیا تو سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے نپے تُلے موزوں الفاظ ،خوبصورت لب و لہجہ ،شاندار حوالے ،بر محل دلائل لگا جیسے کوئی اپنی علمیت کے خزانے لٹا رہا ہو سوچ کا کینوس اتنا وسیع اور بولنے کا نداز اتنا فصیح کہ ہر بات دل نشیں ہوتی گئی

یہی حال مزاج کا نکلا کہ ہم لوٹتے ہوئے کف افسوس ملتے رہے کہ ملنے میں اتنی دیر کیوں لگائی پھر یہ ملن ملاقاتوں کے تسلسل میں بدلا کئی روز پہلے اپنی تخلیق ”وابستگان ِ ملتان ”بھیجی وہی خیالات جو سوچ کے نئے در کھولنے کا باعث بنتے ہیں سرورق کے چہرے پر وہی مسکراہٹ نظر آئی جو رضی کیلئے حجاب کا کام دیتی ہے اس سے قبل رضی نے رفتگان ِ ملتان لکھی یقینا اس میں ملک وزیر اعوان کا ذکر بھی ہوگا جن کے بارے میں رضی نے لکھا ہوگا کہ
موت کو نیند ہی نہیں آتی زندگی ہے کہ جاگتی نہیں ہے

رفتگان ملتان سے لیکر وابستگان ملتان تک ایک طویل سفر کی یاداشتیں ہیں اور اپنے عصر میں رونما ہونے والی وارداتوں کی اطلاعات ،جن میں رضی اپنے گزرتے ہوئے آج اور گزرے ہوئے کل کے حوالوں کے رشتے تلاش کرتا نظر آتا ہے رضی کا یہ سفر دریافت نارسائی کا سفر ہے جس میں وہ دریافت کی خاطر لفظوں کے محرابوں اور راہداریوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچا ہے ہر بار تخلیق کے سفر میں وہ ایک نئے انداز میں ،ایک نئی جہت پر ،زبان اور لفظوں کی بیساکھیوں کے بغیر وہ لفظ کے اندر معنی کے خلا اور لفظ کو لفظ سے ملاتے ہوئے مفہوم کی ناداری سے آشنا نظر آتا ہے
ہمارے ساتھ کیا کیا جھیلتا وہ بچھڑ کر کتنا اچھا رہ گیا ہے

Razi udin Razi Books

Razi udin Razi Books

عرصہ ہوا رضی کے چرنوں میں چند لمحات تک میسر نہ آسکے یوں لگتا ہے جیسے ہماری محبتیں ایک معاشرتی مصلحت اور ہماری منافقتیں ایک سماجی ضرورت ہیں عرصہ پہلے اُنہوں نے اپنی کتاب ”ستارے مل نہیں سکتے ”دان کی تو لگا کہ” ستارے مل نہیں سکتے ”رضی کا شعری مجموعہ ہی نہیں اس کی پوری تخلیقی ذات کا ایک استعارہ ہے اردو کی کلاسیکی روایت سے اتنا اچھا اکتساب کرنے والے آج خال خال ہی نظر آتے ہیں وہ اپنی تحریروں میں زندگی کے اس میلے میں شریک نظر آتا ہے جہاں بھیڑ والی جگہوں سے الگ ایک کونے میں کھڑا وہ سب منظر دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ رضی کی شاعری اپنے ماحول سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اُس سے مختلف ہے مثلاً وہ کہتے ہیں
یہ بھی ممکن ہے عشق تجھے ولایت دے دے
یہ بھی ممکن ہے تیرے ہوش ٹھکانے آجائیں

ان کی غزلیں ،نظمیں زیادہ تر ایسے جذبات و احساست کی مظہر ہیں جن کا تعلق محبت جیسے آفاقی جذبہ سے ہے شاعری بالخصوص اُردو شاعری میں اس حوالے سے اظہار خیال کلاسیکی غزل کی روایت کا ایک اہم حصہ رہا ہے مگر رضی کو اظہار پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ جب وہ صدیوں سے لکھے جانے والے موضوع کو بیان کرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تازہ ہوا کا مشکبار جھونکا آیا ہو میں اک چراغ تو خوشبو بھری ہوا
پھر بھی میں چاہتا ہوں تیرا سامنا تو ہو

شاعری بنیادی طور پر دو طرح کی ہے اولاً نظریات کی شاعری ،ثانیاًجذبات و احساسات کی شاعری ،لیکن جب ہم شاعری کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں تو اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ نظریات کی شاعری جذبہ و احساس سے عاری ہوتی ہے یا جذبات و احساسات کی شاعری میں سرے سے کوئی خیال نہیں ہوتا شاعر کو اس طرح دو حصوں میں تقسیم کر دینے کا مقصد یہ واضح کرتا ہے کہ نظریات کی شاعری کا محرک کوئی خیال (IDEA)ہوتا ہے جبکہ جذبات و احساسات کی شاعری کا محرک کوئی لطیف جذبہ یا ذاتی واقعہ ہوا کرتا ہے

رضی کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اُس کی شاعری انسانی نفسیات کی گنجل سلجھانے کی مظہر ہے جس میں ہجرو وصال کی کیفیات بھی ہیں ،جدید معاشرے اور بدلتی ہوئی دنیا کا گہرا شعور بھی ،رضی کی شکل میں ایک ایسا شاعر سامنے آتا ہے جو اپنے دل میں طبقاتی ،معاشرت انسانی مشکلات کے حل کیلئے دل ِ درد مند بھی رکھتا ہے اور روز و شب کی یکسانیت اور جمود کے خلاف اکتاہٹ اور بغاوت کا اظہار بھی کرتا ہے رضی کی شاعری میں لوگوں کی نفسیات ،اُن کے رد ِ عمل اور اُن کی سوچوں کے خطوط واضح طورپر نظر آتے ہیں رضی کی شاعری کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے والوں کو اُن کی حقیقت پسندی رومان کی چادر میں لپٹی نظر آتی ہے

حالات کے کینوس پر بکھرا ہوا شخص جو خود کو سمیٹنے اور پھر سے بکھیرنے میں مصروف نظر آتا ہے سا نحہ پشاور پر رضی کے اندر کا انسان شدت سے رویا تبھی تو اُس نے ”ہر تابوت میں میری میت” کا نوحہ لکھا
اشک سبھی کی آنکھ سے ٹپکے خیبر تا ملتان
سب چہروں پر خوف کا ڈیرہ سب کے سب ویران
سب کی آنکھ میں خواب سجے تھے، خواب ہیں لہو لہان
سارے بچے میرے بچے سب کے سب حنان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال میں تو بے حال تھے مستقبل بھی اب برباد
اتنا ماتم کون کرے ،اب کون کرے فریاد
ہم کو دکھ میں قید کیا اور ہوگئے خود آزاد
ان کا سبق بھی کرنا ہوگا اب کو ہی یاد ۔۔۔۔۔۔
خون سے اِن پھولوں کا چہرہ آخر کس نے دھویا ؟
اُن سے پوچھو کیا اسلام کا درس یہی ہے گویا ؟
ہم جو کچھ اب کاٹ رہے ہیں ،ہم نے کب تھا بویا ؟
خود کو پرسہ دینے نکلا خود سے لپٹ کر رویا ۔۔۔۔۔۔۔۔
سانجھے بچے ،سانجھی خوشیاں اور سانجھے آلام
سارے زخم مرے سینے پر میرے گھر کہرام
ہر تابوت میں میری میت یہ میرا انجام
سب قبروں پر ایک ہی کتبہ، سب پر میرا نام ۔۔۔۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک