لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ محمد زبیر حفیظ نے کہا ہے کہ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کرنے کے بعد معیار تعلیم تنزلی کی جانب گیا ہے۔نت نئی قومی تعلیمی پالیسیاں، بین الاقوامی پروگرامز برائے تعلیم، ایجوکیشن کانفرنسز اور مذاکرے محض اعداد کا گورکھ دھندہ ہیں۔
ملک میں 25 ملین بچے سکول ہی نہیں جا پاتے اور جو جاتے ہیں ان میں سے تقریباً نصف پرائمری کے بعد ہی تعلیم کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ ابتدائی لازمی تعلیم کو ہمارے ملک میں بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ ملینیم ڈیولپمنٹ گولز کو پورا کرنے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ اسلام آباد کے زیر اہتمام پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس مو قع پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان،سابق ممبر قومی اسمبلی میا ں محمد اسلم،مرکزی صدر انجمن تاجران اسلام آبادکاشف چوہدری ، ناظم اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب محمد عامر نے بھی خطاب کیا۔سیمینار سے خطاب کر تے ہو ئے زبیر حفیظ نے کہا پاکستان کے نوجوان ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
تعلیم کو صوبوں کو حوالے کرنا ایک سنگین غلطی ہے جس کے نتائج قومی وحدت کے لئے خطرناک ہیں ،آئین ریاست کو ہر شہری کو مفت تعلیمی سہولیات دینے کا پابند بناتا ہے لیکن حکمران روزانہ آئین کے ساتھ غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں ،۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ میں تعلیم کا حصہ دنیا میں مروجہ اصولوں کے مقابلے میں کم ہے۔ تعلیمی نظام ناقص ہے۔ سیاسی مداخلت ہے جس کے نتیجے میں بدعنوانیاں، اقربا پروری ، میرٹ کی پامالی اور جانبداری نے تعلیم کی جڑیں کھوکھلا کر دی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ہاں شرح خواندگی کے اعداد و شمار کبھی تسلی بخش قرار نہیں پائے۔کینیا جیسے چھوٹے سے ملک میں تعلیمی بجٹ 18فیصد ہے اور ہمارے ملک پاکستان میں 2 فیصد ہے۔ جس کا بیشتر حصہ کرپشن اور تنخواہوں کی نظر ہوتا ہے۔اور معولی سا بجٹ ریسرچ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔ حال ہی میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58 فیصد آبادی خواندہ ہے۔بجٹ میں ہائیر ایجو کیشن کے لئے بھی بجٹ مختص کیا جائے۔
میاں محمد اسلم نے کہا ہے کہ آرٹیکل 25 اے کو قانون کا حصہ بنا کر آئندہ مالی سال میں کم از کم5 فیصد بجٹ رکھا جائے۔صوبے نصاب تعلیم میں من مانی کرتے ہوئے قومی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تعلیم نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے اقدامات کرنی کی بجائے نصاب کو سیکولر بنایا جا رہا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی شرح 60 فیصد جبکہ بلوچستان میں یہ شرح صرف 39 فیصد ہے۔میاں محمد اسلم نے کہا اسلام آباد جیسے پڑھے لکھے شہر میں چھیالیس ہزار بچے سکول میں پڑھنے سے محروم ہیں۔یہ صورت حال حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے ، سرکاری تعلیمی اداروں میں پانچویں جماعت کے تقریباً آدھے بچے دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔محمدکاشف چوہدری نے کہا عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں اپنے حقوق کی جدو جہد اور اپنے مسائل کے حل کے لئے بھیجتی ہے مگر اسمبلی ممبران اپنے بنک اکاؤنٹس میں اضافہ کرنے اور اپنے فوائد کے حصول میں مگن ہو جاتے ہیں، ایسی اسمبلیوں کو تالے لگا دینے چاہیں جو قوم کے بچوں کی تعلیم میں سنجیدہ نہ ہوں۔ قوم کو یکساں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دیا جائے کیوں کہ زبان ، کلچر اور جغرافیائی تغیرات میں گھری قوم کو صرف تعلیم ہی باہم جوڑ سکتی ہے 1973ئ کے آئین کے بعدجتنے بھی بجٹ پیش ہوئے کسی بھی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ نہیں کیا۔
کرپشن کی دیمک نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔محمد عامرنے کہاکمیشن مافیا نے جہاں دیگر شعبوں کو تباہ کیا وہیں تعلیم کے شعبے کا بھی جنازہ نکال دیا ہے، میٹرک تک یکساں نصاب تعلیم را£ج کیا جائے ، نیشنل کریکولم اتھارٹی قائم کرکے وفاقی سطح پر نصاب تعلیم تیار کیا جائے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضامین میں جدت لائی جائے، سرکاری جامعات کا تحقیق کا طریقہ کار بہتر بنایا جائے۔مقررین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تعلیمی بجٹ کو پانچ فیصد کیا جائے ، نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں اور ناگفتہ بہ تعلیمی اداروں کی حالت کو سدھارا جائے۔
سید امجد حسین بخاری مرکزی سیکرٹری اطلاعات اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان 0334-5019016