تحریر: مجیداحمد جائی صبح صبح اپنے پیارے دوست کو کال کی تو دوسری طرف سسکیاں ہی سسکیاں تھیں۔ آواز جیسے دُور بہت دُور گہرائی سے آرہی ہو۔ صبح صبح کیا ہوا ؟ میرا دوست غمگین کیوں ہے۔ روہانسی لہجے میں جواب ملا، کیا بتائوں دوست؟ کلجہ کٹ گیا ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔مجھ سے ان مائوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی ،جن کو جوان بیٹوں کے سامنے برہنہ کر کے شہید کیا جا رہا ہے۔ میں کھانا نہیں کھا سکتا ،میرے سامنے میانما کے بھوکے بچے روتے بلکتے ہیں۔ قتل عام ہو رہا ہے۔ بچوں ،بوڑھوں ،عورتوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہاہے اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔مائیں لٹ رہی ہیں۔بے آبرو ہیں۔ آخری سانس تک اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہی ہیںاور ظالم ظلم کرتا چلا جا رہا ہے۔
برما، میانما میں مسلمانوں پر درندے ٹوٹ پڑے ہیں، کنواریاں بیٹیاں ماں باپ کے سامنے،جوان بھائیوں کے سامنے برہنہ کرکے ان کے نازک اعضاء پر تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔مقام عبرت ہے، بھائی کے سامنے، بہن بے آبرو ہے،ماں کے سامنے بیٹی لٹ رہی ہے،شوہر کے سامنے بیوی برہنہ کی جا رہی ہے،باپ کے سامنے اس کی معصوم بیٹیوں کو نوچا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ والے ناجانے اندھے ہو گئے ہیں۔مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے تماشا دیکھے جا رہے ہیں۔ہزارو ں لوگ کٹ گئے ہیں ہزاروں کو روز کاٹا جا رہا ہے۔زمین پھٹتی ہے نہ آسمان لرزتا ہے۔ستارے گم صم ہیں،چاند شرمندہ سا ہے،سورج بے بسی کا لبادہ اوڑھے ہوئے روز اُترتا ہے۔پرندے خوف سے تڑپ رہے ہیں ،ہر طرف خون ہی خون ہے۔زمین سُرخ ہو رہی ہے۔جو زندہ بچ گئے ہیں ان کو کوئی مسلم ممالک بھی پناہ دینے کو راضی نہیں ہے۔بیچارے بے رحم لہروں کی زد میں ہیں۔بھوک و افلاس سے بچے مر رہے ہیں۔پیاس سے حلق خشک ہو گئے ہیں۔ہر طرف چیخ و پکار ،آہیں ،سسکیاں سنائی دے رہی ہیں۔لیکن میں حیران ہوں۔
مسلم ممالک کے ردعمل پر،کسی کو رحم نہیں آیا ،سبھی جلاد بنے بیٹھے ہیں۔ ان کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں،دل پتھر ہو گئے ہیں، ضیمر سو گئے ہیں،غیرت مر گئی ہے۔آنکھوں سے اندھے،کانوں سے بہرے، پائوں سے لنگڑے ہوگئے ہیں۔ان کے عقلوں کو دمک چاٹ گئی ہے ۔ڈالر وں نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ان کی زبان پر قفل لگ گئے ہیں۔
Tv Channels
ٹی وی چینلزجو روز سیاسیتدانوں کے قصدے پڑھتے نہیں تھکتے تھے اب کالا مشکی ناگ سونگھ کیا ہے۔ان کی آنکھوں پر نوٹوں کی سیاہ پٹی بندھ گئی ہے۔دولت کے پوجاریوں کو انسانیت سے کیاغرض۔ان کا کام لوٹنا ،نوچنا،اپنی تجوریاںبھرنی ہوتا ہے۔سیاستدان گونگے ہو گئے ہیں،حکمران اندھے ہو رہے ہیں۔کرسی بس کرسی کا ورد کیا جا رہا ہے۔انسان کی اوقات رہی ہی نہیں۔
احساسات، ہمددری، محبت ناپید ہو گئے ہیں۔ اخوت و بھائی چارہ کا نظام رہا نہیں۔ ناجانے کس سمت چل پڑے ہیں۔ایک بھائی پر ظلم ہور ہا ہے ، دوسرا ہنس رہا ہے۔ایک مر رہا ہے دوسرا تماشا دیکھ رہا ہے۔ دین اسلام یہی درس دیتا ہے۔وہ تو اُخوت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے،انصاف ،عدل کا درس دیتا ہے۔ایک دوسرے کے کام آنے کا کہتا ہے۔ ہم کس دین کے پروکار ہیں۔خدا کو بُھول کر جھوٹے خدائوں کے پیروکا ربن بیھٹے ہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ایک مسلمان قتل ہو رہا ہے دوسرا تماشائی بنا میر صادق کا کام کر رہا ہے۔
لمحہ فکریہ ہے اہل مسلم کے لئے۔اب بھی آواز نہ اُٹھائی تو کب ؟تمام مسلم ممالک کو مل کر اقدام کرنے چاہیے تاکہ کوئی یہودی،غیر مذیب مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ بھی نہ دیکھ سکے۔پاکستان حکومت بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یک زبان ہو کر اس بربریت کو روکنا ہو گا۔ برما کے مسلمانوں کا ساتھ دینا ہو گا۔ میرا دوست کہتے کہتے خاموش ہو گیا تھا اور میں خاموشی کے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ کاش ہر مسلمان میرے دوست کی طرح سوچے عمل کرے اوراپنا کردار ادا کرے،آمین۔