تحریر: رانا اعجاز حسین پاکستان کا شمار باقاعدہ رائے شماری کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست ایک ضابطے کے تحت وجود میں آئی، تو پھر اس کی بنیاد سے انحراف مناسب نہیں۔ بنیادی طور اس کے قیام میں مذہب کو دخل تھا۔ مذہب کے بعد دوسری اہم چیز زبان تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی تحریک کے دوران ہمیشہ دو ٹوک انداز میں اردو کو نئی ریاست کی زبان قرار دیا گیا۔ گویا زبان، مذہب کے ساتھ ریاستی نظریے کی دوسری بڑی بنیاد ہے۔ریاستوں کے امور آئین کے تابع ہوتے ہیں اور آئین ریاستوں کے مقاصد پر استوار ہوتا ہے۔ آئین میں ریاست کی بنیاد کو چھیڑنے کی اجازت نہیں ہوتی، کیوں کہ آئین سے پہلے ریاست وجود میں آتی ہے، جس کا کچھ پس منظر ہوتا ہے۔
اگرچہ ریاست کی اس بنیاد سے اختلاف کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، لیکن انھیں تحریک پاکستان سے کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا، جس سے وہ اردو کے سوا کسی دوسری زبان کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر ثابت کر سکیں۔ البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے 1948 میں ڈھاکا میں اردو کو قومی زبان قرار دیا تو کچھ اسے بنگالیوں سے ان کی زبان چھیننے کے مترادف قرار دیا، جب کہ قائداعظم نے واضح طور پر صوبائی سطح پر بنگالی زبان اپنانے کے اختیار کا ذکر بھی کیا۔ اردو مسلمانان برصغیر کے علیحدہ وطن کے خواب کا ایک لازمی جز ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے سب ہی متفق تھے کہ اس مملکت کی زبان اردو ہوگی۔ 1948 میں بھی قائداعظم نے تحریک پاکستان کے اسی موقف کو دہرایا، نہ کہ کوئی نئی بات کی۔
اردو اور ہندی کے تنازع نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میںآل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے رکھا۔ 1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر اردوکو اختیار کیا گیا۔ 1946 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں فیروز خان نون نے انگریزی میں تقریر شروع کی تو ہر طرف سے ”اردو۔اردو” کی آوازیں آئیں۔ جس پر انھوں نے چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں شروع ہو گئے، مجمع سے پھر اردو اردو کا مطالبہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ ”مسٹر جناح بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔” یہ سننا تھا کہ قائداعظم کھڑے ہوئے اور فرمایا ”فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ ”
Language
آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، لیکن اسے آئین میں دی گئی مقررہ مدت (1988ء تک )میں نافذ نہیں کیا جا سکا، الٹا کچھ ناعاقبت اندیش اسے قومی زبان کے رتبے سے پیچھے دھکیلنے کے درپے ہیں۔ لوگوں کو جوڑنے والی شیریں زبان ” اردو” کو لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ بھی اردو کے سر ڈال دیا جاتا ہے، جب کہ اگر زبان مسئلہ ہوتی تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا کیوں کہ ہم نے تو 1956 اور 1962 کے دساتیر میںاردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان تسلیم کر لیا تھا۔
آج کل کچھ قوتیں اردو کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے کے لیے سر جوڑے بیٹھی ہیں۔ اور انتہائی غیر مناسب طور پر اردو کو بھی دیگر زبانوں کی طرح لوگوں کی ایک مادری زبان قرار دیاجا رہا ہے۔ ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ آج گھر وں میں اردو بولنے والوں میں بہت کم لوگوں کا پس منظر اردو کا ہے۔ اردو کے ساتھ ان کا ناتا فقط چند نسلوں پرانا ہے۔ اس کے علاوہ اردو ہی وہ زبان ہے جسے تقریباً ہر فرد ہی اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ بہتر طریقے سے بول، سمجھ اور لکھ سکتا ہے، لہٰذا اردو کو محض مادری زبان قرار دے کر محدود کرنا نرم سے نرم الفاظ میں نا عاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔
India And USA
ایک سے زائد قومی زبانوں کے لیے ہندوستان اور امریکا کی مثال دی جارہی ہے، لیکن یہاں اردو کو ریاست کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے کسی بھی دوسرے ملک کی مثال کا اطلاق یہاں کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اگر اردو کی قومی حیثیت کو تبدیل کیا جاتا ہے، تو مولانا ابوالکلام آزاد اور ان جیسے دیگر تقسیم مخالف رہنمائوں کے مزید خدشات درست ثابت ہو جائیں گے، کیوں کہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں اردو کو شدید نقصان پہنچا۔
ادھر بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں سے بھی پاکستان دشمنی میں اردو کو دیس نکالا مل گیا اور اب بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک بار پھر قومی زبان اردو کو اس کے تاریخی اور آئینی مقام سے بے دخل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جو نہایت تشویش ناک امر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی قومی زبان ”اردو” سے انحراف کرنے کی بجائے اسے پورے ملک میں مکمل طور پر نا فذ العمل کرے ،اور ملکی تعلیمی و سرکاری اداروںاور عدالتوں میں لکھنے اور بولنے میں اردو کو عام زبان کے طور پر استعمال کیا جائے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین ای میل:ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033