کل تک تو با ضمیر تھا مگر آج کیسے بے ضمیر ہو گیا اوڑھ کے انسان لبادہ ہوس کا ظالم فقیر ہو گیا بنت آدم سر بازار تیرے جسم کی ہو تی ہے رونق حرامی یہ خون اب رگ رگ میں تا ثیر ہو گیا غریب بکتا رہا ٹھا ئے اپنی اسناد ہر کو نے پہ اک بشر نے دی جو رشوت تو فیصلہ ہاتھوں کی لکیر ہو گیا امراء کا قاتل لٹک گیا تختوں پہ مجرم بن کے غربا کے لخت جگر کاقا تل اس کی تقدیر ہو گیا کسی کی بیٹی جہیز کے لیے عمر بھر بیٹھی رہی با بل کی چو کھٹ پے کو ئی لے گیا مال و دولت ڈولی میں سا تھ سر تاج امیر ہو گیا کو ئی ہمیشہ نہیں رہے گا یہاں ہو ش کر تو اے ندیم اکڑ کے چلا توذلیل ہو گایہ جہاں کب کسی کی جا گیر ہو گیا !
ندیم عباس ڈھکو nadeemdhako79@yahoo.com 03225494228