تحریر: سید انور محمود لوئر دیر صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے جہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت پچھلے دو سال سے قائم ہے۔ ایک خبر کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں سات مئی کو حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے اسے الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیکر دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ خواتین کی عدم شرکت کی وجہ سے لوئردیر کے انتخابات کالعدم قرار دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کا شیڈول جاری کریگا۔
نو مئی کو میں نے ایک مضمون بعنوان ‘لوئردیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام’ تحریر کیاتھا اور جسکے آخر میں میں نے لکھا تھا کہ ‘الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرئے اور پی کے 95 لوئر دیر کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیکر وہاں دوبارہ انتخاب کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ خواتین اپنا حق رائے دہی بغیر کسی خوف کےاستمال کرسکیں ورنہ کہا جایگا کہ کراچی میں خواتین کا ووٹ دینا حلال ہے اور لوئر دیر میں حرام کیونکہ امیر جماعت اسلامی کامریڈ سراج الحق کی منافقت سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لوئردیر کے رہنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور اُن سب کو جنہوں نے لوئردیر میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کیا ہے اُنکو صرف یہ کہنا ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ناقص العقل عورت اتنے عقل مند انسانوں کو جنم دیتی ہے جو اسے ووٹ دینے کے بھی قابل نہیں سمجھتے، یعنی اُن عقلمند انسانوں کو اپنی ماں پر بھی اعتبار نہیں’۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں سات مئی کو حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار اعزازالملک 19827 ( کل ووٹوں کے صرف 14.08 فیصد) ووٹ لے کر کامیاب ہو ئے تھے، اُنکے حریف اے این پی کے بہادر خان 15927 ( کل ووٹوں کے صرف 11.32فیصد) ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔ 2013ءکے الیکشن میں اس سیٹ پر سراج الحق نے 12ہزار ووٹ کی برتری حاصل کی تھی ۔اب 2015ء یہ برتری صرف 4ہزار رہ گئی تھی۔حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں ضمنی انتخابات میں ووٹر کی کل تعداد 140747 تھی جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 86930 (61.76 فیصد) اور خواتین کی تعداد53817 (38.24 فیصد) تھی۔ سات مئی کو 53817 خواتین میں سے کسی ایک خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا، اس میں سراج الحق اور جماعت اسلامی کے امیدوار اعزازالملک اور بہادر خان کے گھرانے کی خواتین بھی شامل ہیں۔انتخابات کے بعد الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نےکافی شور مچایا، اخبارات اور پرنٹ میڈیا میں کافی مضامین لکھے گئے، لکھنے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔
Elections
خواتین لکھنے والیوں میں سابق امیرجماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد کی صابزادی محترمہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ‘عورت، انتخابات اور پشتون روایات’ کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کی صفائی دینے کی کوشش کی ہے کہ دیرکی خواتین نے تو کبھی ووٹ ڈالا ہی نہیں۔ اس مضمون میں دیر کےلیے تو چند الفاظ کہے ہیں ، ہاں کچھ اپنے والد قاضی حسین احمد جنہیں وہ آغا جانی کہتی تھیں اُنکی تعریف، کچھ دیر کی کسی تقریب کا ذکر، کچھ جماعت اسلامی کی شاندار کامیابی جو (کل ووٹوں کے صرف 14.08 فیصد) ہے، اور پھر یہ دعوہ کہ دیر میں رواج کی وجہ سے خواتین نے کبھی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ اُن کا یہ دعوہ قطعی غلط ہے اس لیے کہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم دیہی اجتماعی اور ترقیاتی سوشل ورکرز کونسل کے مطابق دیر میں 1970ء اور 1977ء کے عام انتخابات میں خواتین نے ووٹ ڈالا تھا، تاہم اس کے بعد مذہب اور سخت گیر پشتون روایات کا سہارا لیکر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے۔یہ بھی سب کو معلوم کہ مشرف کی بانٹی ہوئی ریوڑیوں سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اورمنور حسن کی بیگم عائشہ منور جب 2002ء میں رکن قومی اسمبلی بنیں تو انہوں نے خواتین کے حقوق کے بل کی شدیدمخالف کی تھی۔
خاتون مصنف لبنی ظہیراپنے ایک مضمون ‘دیر کے انتخابات اور خواتین’ میں لکھتی ہیں کہ ‘اگرچہ سیاسی جماعتیں تسلیم نہیں کرتیں لیکن مقامی اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ حصہ لینے والی جماعتوں نے پس پردہ ایک غیر تحریری معاہدہ کر لیا تھا کہ کسی بھی خاتون کو ووٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے فاتح امیدوار اعزاز الملک نے بطور فخریہ کہا ہے کہ خواتین کا ووٹ نہ ڈالنا کوئی نئی بات نہیں۔ 1985 سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس صورتحال کو نرم سے نرم لفظوں میں شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے’۔ اسی مضمون میں آگے چلکر لبنی ظہیر لکھتی ہیں کہ ‘ایک اور مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اس نشست پر نئے پاکستان کا دعویٰ کرنے والی انقلابی جماعت تحریک انصاف بھی جماعت اسلامی کی حمایت کر رہی تھی۔لیکن تحریک انصاف یا اُسکے سربراہ عمران خان کی طرف سے بھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ خواتین کے حق رائے دہی کا احترام کرتے ہیں۔ کراچی، لاہور یا کسی بھی بڑے شہر میں جلسہ ہو یا اسلام آباد میں چار ماہ پر پھیلا ہوا دھرنا۔خواتین پی ٹی آئی کے ہر اجتماع میں نہایت نمایاں نظر آتی ہیں۔ لیکن دیر کی خواتین گھروں میں بیٹھی رہ گئیں اور تحریک انصاف بھول گئی کہ ان کے نام بھی انتخابی فہرستوں میں شامل ہیں۔ وہ بھی ووٹ کا حق رکھتی ہیں’۔
محترمہ کشور ناہید نےاپنے مضمون‘خواتین کے حقوق اور قومی اداروں کی تنزلی’ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں لوئر دیر میں الیکشن ہوئے۔ جماعت اسلامی جیتی اس لیےکہ خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے۔ اس حکم نامے کے باوجود ہوا کیا، خواتین کے ووٹنگ بوتھ بنے ہوئے تھے مگر خواتین کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا گیا ۔لوئر دیر میں خواتین کی آبادی 52فیصدہے’۔ نو مئی کو میں نے اپنےمضمون ‘لوئردیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام’ میں تحریر کیاتھا کراچی اور لوئردیر کے انتخابات سے ایک بات یہ پتہ چلی کہ جماعت اسلامی نے لوئردیر میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جبکہ کراچی میں ووٹ حاصل کرنے کےلیے خواتین کا ایک بڑا جلسہ کیا،گویا جماعت اسلامی کے نزدیک لوئردیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام جبکہ کراچی میں خواتین کا ووٹ دینا حلال ہے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئےایک اور خاتون مصنف مسزجمشیدخاکوانی نے اپنے فیس بک پر کچھ یوں لکھا ہے کہ ‘خواتین کو برقعے کے پیچھےچھپاکررکھو اُنہیں ووٹ کا حق بھی نہ دو لیکن جب کراچی میں جلسہ کرو تو سندھیوں، مہاجروں، بلوچیوں اورکشمیریوں کی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دو، اپنے کارکنوں کو خواتین کو جلسوں میں لانے کی ترغیب دو…! یہ کہاں کا اسلام ہے ..کیا اسلام خیبر پختونخوا میں اور کراچی میں الگ الگ ہوتا ہے …! واہ رے منافقت تیرا ہی آسرا’۔
Women Voters
عام خواتین ووٹر کی کیا بات کریں امیدواروں کی بیویاں بھی ووٹ ڈالنے نہیں آئیں۔ جماعت اسلامی اور اے این پی کی کوئی خاتون رکن ووٹ ڈالنے نہیں گئی، اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو منظم منصوبے کے تحت ووٹ ڈالنے سے روکا گیا، لازمی طور پر جماعت اسلامی اور اے این پی کے درمیان خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے دینے کا کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے ۔ جماعت اسلامی کی بات تو الگ ہے، اسکو دیر میں خواتین کے ووٹوں کی ضرورت نہیں تو دیر میں خواتین ووٹ نہ ڈالیں، لیکن کراچی، لاہور، ملتان اور جہاں جہاں خواتین کے ووٹوں کی ضرورت ہے وہاں خواتین کو جلسہ میں جمع کرکے اُن کے سامنے اسلام کا نعرہ لگاکرووٹوں کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا کہ پی کے 95 کےضمنی انتخاب میں خواتین اس حلقہ میں ووٹ ڈالنے نکلتیں تو شام کو ہم اپنی خواتین کے جنازے اٹھاتے، افسوس ہوا کہ اے این پی نےاس گندئے کھیل میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیا، کم از کم اپنے لبرل ہونے کا ثبوت تو دیتے۔ کل تک پیپلزپارٹی میں ایک خاتون رہنما، بے نظیر بھٹو کی آواز سب پربھاری تھی لیکن آج وہی پیپلز پارٹی خواتین کے بنیادی حق کو استمال کرنے کی پابندی پر خاموش ہے۔
خیبر پختونخوا کےحالیہ بلدیاتی انتخابات کے بعد ہر سیاسی جماعت نے یہ الزام لگایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، تحریک انصاف کے مخالفوں کو تو چھوڑیے، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں اُسکی اتحادی جماعت اسلامی نےنہ صرف حالیہ بلدیاتی انتخابات کو بدترین اور شرمناک کہا بلکہ جماعت کا کہنا تھا کہ‘دھاندلی دھاندلی کا شور کرنے والی تحریک انصاف خود دھاندلی کی چیمپئن بن گئی ہے’۔ یہ یاد رہے کہ صوبائی وزیر بلدیات کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔عمران خان نے پیشکش کی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں چاہیں توپورئے خیبر پختونخوامیں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہوں، لیکن خان صاحب کے مخالفین تو اب تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ اُنکی اتحادی جماعت اسلامی پشاور نے بلدیاتی انتخابات میں صوبائی حکومت کی جانب سے مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر ضلع پشاور کے الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے اور عدلیہ و فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ عمران خان کے صوبے میں تبدیلی تو آئی ہے ، کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف ‘صاف چلی، شفاف چلی’ تبدیل ہوکر ‘دھاندلی کی چیمپئن چلی’ بن گئی ہے۔ عمران خان اگر دھاندلی کے داغ کو دھونا چاہتے ہیں تو اُنکو چاہیے کہ پی کے 95 کےضمنی انتخاب فوج کی نگرانی میں کروایں اور اس بات کو یقینی بنایں کہ حلقہ پی کے 95 لوئردیر کےضمنی انتخابات میں 53817 خواتین میں سےزیادہ سے زیادہ اور اپنی مرضی سے ووٹ ڈالیں۔ عمران خان کواُن لوگوں یا سیاسی جماعتوں بشمول اُنکی اتحادی جماعت اسلامی سے بھی سختی سے نبٹنا ہوگا، اگر وہ ایسا کرپائے تو شاید وہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے آزاد ہو پاینگے۔
اب جب الیکشن کمیشن حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں کےضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دئے چکا ہے تو آئندہ کےلیے وفاقی حکومت کو جرگوں یا سیاسی جماعتوں کے ‘خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کے معاہدوں’ کوقانون سازی کے زریعے ختم کرنا ہوگا، لیکن وفاقی حکومت فوری طورایک آرڈیننس جاری کرئے جسکے زریعے آئندہ کےلیے ‘خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کے معاہدوں’ کو جرم قرار دیا جائے، جسکی سزا اور جرمانے مقرر کیے جایں تاکہ خواتین اپنا حق رائے دہی آزادی سے استمال کر سکیں۔