تحریر : انجینئر افتخار چودھری اور خاندان نظامی سے ایک آواز سنی ۔پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو وہ برا بھلا کہہ رہے تھے انہوں نے ایک ٹیلی ویزن چینیل پر گفتگو کرتے ہوئے ان نوجوانوں کو ہٹلر کا چیلہ قرار دیا۔محترم اپنی دھن میں بہت کچھ کہہ گئے۔وہ یہ کہتے بھی پائے گئے کہ مجھے اب نواز شریف ایجینٹ کہا جائے گا۔انہوں نے اپنی گفتگو میں پی ٹی آئی کے ان جوانوں کو فاشسٹ بھی قرار دیا اور من ہی من میں نہیں واضح الفاظ میں عمران خان کو رگڑ گئے۔خانوادہ ء نظامی کے یہ فرزند عظیم گالی تو نہ دے سکے مگر گالی جیسی باتیں ضرور کر گئے۔میں نوائے وقت کا اسوقت سے قاری ہوں جب پرائمری اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔سچی بات ہے اسلام دو قومی نظریہ اور پاکستان سے محبت کا جو درس حمید نظامی کے اخبار سے ملا کسی اور جگہ سے نہ مل سکا۔
مجید نظامی صاحب جب بھی سعودی عرب آیا کرتے ان کی میزبانی کا شرف بھی مجھے ملتا رہا ان سے پیار محبت اس قدر تھا کہ میری داستان الم جو جنرل اسد درانی کے ہاتھوں سر زد ہوئی تھی اسے سن کر آبدیدہ بھی ہوئے اس بات کی گواہی نئی بات کے ایڈیٹر اور میرے محترم دوست جناب عطا ء الرحمن بھی دیں گے۔پاکستان کے بنانے میں جو کردار مسلم لیگ نے ادا کیا اس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا بڑا ہاتھ تھا۔ اور جب بات اس ایم ایس ایف کی ہو گی تو جناب حمید نظامی کا نام نہ لینا حقائق سے پردہ کرنے کا عمل کہلائے گا۔عارف نظامی اسی عظیم باپ کے فرزند ہیں۔ خدا ان کے والد محترم اور چچا صاحبان کی مغفر ت کرے آمین
عارف نظامی ایک بڑے باپ کے فرزند ہیں۔انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ نوائے وقت کی طویل تربیت نے ان کے والد گرامی اور چچا محترم سے پیار کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ پیدا کر رکھا ہے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق کہنے کی روایت اس قومی جریدے نے بخوبی ادا کی ہے۔ان کے ساتھ نظامی لکھا جانا ایک معنی رکھتا ہےمیں سمجھتا ہوں عارف صاحب ایسی بات کر کے ایک بڑی پارٹی کے سربراہ اور اس کے کروڑوں چاہنے والوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔عارف صاحب کی یہ گفتگو اگر ایک عام عادمی کے منہ سے ہوتی تو اس کا نوٹس بھی نہیں لیا جانا تھا۔مگر مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے دل پر چوٹ لگی ہے اور چند سطریں لکھ دی ہیں۔عارف صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے نوجوان گالیاں دیتے ہیں جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔ گندی گندی گالیاں دیتے ہیں۔انہیں شاید معلو م نہیں سوش میڈیا کے اس حمام میں کافی سارے ننگے موجود ہیں،شنید تو یہ ہے کہ مریم بی بی نے تو باقاعدہ ایک ایسا سیل بنا رکھا ہے جو جدید طرز کی دشنام ترازیاں کرتا ہے۔عمران خان کی نجی زندگی پر جتنا گند ان کی ٹیم نے اچھالا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
Facebook
میں یہاں کہنا چاہوں گا کہ فیس بک واحد ایسا ذریعہ ہے جس کے توسط سے لوگ اپنے غصے کا اظہار کر لیتے ہیں۔ہوتا یوں ہیں کہ بے ضمیری کی اس منڈی میں وہ لوگ موجود ہیں جو صرف روپیہ پیسہ لے کر صحافت کرتے ہیں۔کیا نظامی صاحب اس بات سے انکار کریں گے کہ صحافت کے شعبے میں کالی بھیڑیں ہی نہیں بھیڑیے ہیں جو لفظوں کی قیمت وصول کرتے ہیں۔کیا نوائے وقت نے ان کہنہ مشق صحافیوں کی لسٹ نہیں شائع کی جنہوں نے حکومت وقت سے مراعات حاصل کیں؟کیا پاکستان کی سیاست میں پیسہ نہیں راج کر رہا؟کیا جناب نظامی مجھے بتائیں گے کہ صحافت میں لفافہ جرنلزم کی بنیاد کس دور میں رکھی گئی؟اور یہ سوال لکھتے وقت میرا اپنے محترم بھائی سے مطالبہ ہو گا کہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ صحافیوں کو کس نے کرپٹ کیا ہے؟آپ جانتے بھی ہیں
لیکن میرے محترم آپ اعتراف نہیں کرتے۔جناب نظامی یقینا آپ جانتے ہیں کہ یہ سیاہ دور میاں نواز شریف کے دور سے شروع ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے ہر شعبے کی طرح صحافت میں بھی ایمان دار لوگ ہوتے ہیں۔لیکن آپ کسی طور انکار نہیںکر سکتے کہ اس شعبے کو گندہ کرنے میں مسلم لیگ نون کا ہاتھ سب سے مضبوط ہے۔اللہ کرے میں غلط ہوں لیکن چوںکہ ایک عرصہ جدہ میں گزارا ہے اور سرور پیلیس میں بھی وقت گزرا ہے اسی لئے وثوق سے کہتا ہوں کہ میاں صاحبان کی پیڈ لسٹ میں بہت سے صحافی بھی تھے۔اب اگر سوشل میڈیا پر ان صحافیوں کی جانب سے تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف کوئی مہم شروع کی جاتی ہے تو اس مہم کے پیچھے وہی پیسہ ہوتا ہے جو میاں صاحبان کی تجوریوں سے ان صحافیوں کی جیب میں جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی سائٹس پر چلے جائیں کسی بھی پارٹی کی سائٹ دیکھ لیں وہاں اسی طرح کی مغلظات ملیں گی۔پی ٹی آئی نوجوانوں کی پارٹی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک طلسماتی شخصیت آئی ہے اور اس کا نام ہے عمران خان۔یقین کیجئے جو نوجوان پی ٹی آئی کا نہیں ہوتا لوگ اس کی ذہنی صلاحیت پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کے اکابرین کی اولادیں بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دیتی ہیں۔جناب ظفر علی شاہ نے تو ایک بار کہہ بھی دیا تھا کہ کے میرے بچے تحریک انصاف کے حامی ہیں۔
PML N
نظامی صاحب کو علم ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو سڑکوں پر بھٹکنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔خاص طور پر مسلم لیگ نون کے اس دور حکومت میں ہر سال سات لاکھ افراد کا روزگار ختم ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ تعداد یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ڈگریوں کے حصول کے بعد سڑکوں پرآ جاتی ہے۔پاکستان میں صرف تحریک انصاف ہے جس نے نوجوانوں کی بات کی ہے۔عمران خان اور نواز شریف عمر میں ایک جیسے ہیں لیکن نوجوان اپنی امیدوں کا مرکز عمران خان کو کیوں بنا چکے ہیں۔کیا آپ کو علم ہے کہ عمران خان نے ایسے نوجوانوں کو اسمبلی میں بھیج دیا ہے جن کے پاس پیسہ نہیں تھا ایک رکن اسمبلی جو ٢٦ سالہ جوان ہے اس نے برملا اعلان کیا کہ اس نے الیکشن میں صر ف پانچ لاکھ خرچ کیا ہے۔ہم نے اس مکروہ معاشی جنگ میں نوجوان طبقے کو مایوسی کے جنگل میں چھوڑ دیا ہے۔وہ تنگ آ چکا ہے ان لٹیروں سے جنہوں نے وسائل کی تقسیم کے وقت انہیں نظر انداز کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار کے اس نئے پلیٹ فارم پر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔
اب اگر غاصب لوگوں کے دفاع کی ذمہ داری نظامی صاحب نے لے ہی ہے تو ان میں حوصلہ ہونا چاہئے کہ وہ ان نوجوانوں کا غصہ بھی برداشت کریں عمران خان نے ایک نجی چینیل کا بائیکاٹ ختم کیا تو اسی سوشل میڈیا پر انہیں بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔ میری سنیں توانصاف کے داعی کو تنقید کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں بڑی احتیاط کرنا چاہئے۔میں خود سوشل میڈیا پر فعال ہوں اور میرے ہاتھ ان نوجوانوں کی نبض پر ہوتے ہیں۔یقین کیجئے ہر دوسرا نوجوان مجھ سے نوکری کے لئے بات کرتا ہے۔آپ اگر چاہتے ہیں کہ ان چیختی چنگاڑتی آوازوں کو مہذب رنگ میں بدلیں تو ان نوجوانوں کو ان کا حق دے دیجئے۔انہیں روزگار دے دیں۔پاکستان میں نوکریاں نہیں ہیں تو راستہ دیں کہ باہر نکل جائیں۔نواز شریف صاحب سعودی عرب کے بڑے مداح ہیں کیا انہوں نے ٢٠ لاکھ پاکستانیوں کے حقوق کی کبھی بات کی ہے وہاں کا پاکستانی نوجوان آجر کے ظلم کا شکار ہے
وہاں اگر میں ذکر کروں تو شاید آبگینوں کو چوٹ لگ جائے خود ان کی کمپنی اور ان کے داماد کے بزنس پارٹنر نوجوانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔کفیل کے پاس ھروب کا ایک ایسا ہتھیار ہے جو اس کے مکفول کی زندگی کو موت میں بدل دیتا ہے۔کمپیوٹر پر ایک کلک سے کفیل اپنے مکفول کے تمام کاغذات بلاک کر دیتا ہے۔یہی کچھ میاں صاحب کے انتہائی قریبی عزیز نے ایک پرانے مسلم لیگی کے ساتھ کیا ہے۔اب اگر وہ اپنا دکھ کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے فیس بک کا سہارا لیتے ہیں تو جناب نظامی صاحب اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ سوشل میڈیا نے آپ کے جذبات کو مجروح کیا لیکن عمران خان کی انقلابی تحریک کے راستے میں جب آپ جیسے لوگ ڈٹ کر سامنے آ جائیں تونتیجہ ایسا ہی نکلے گا۔میری اگر کوئی سنے تو میں تو یہی گذا رش کروں گا کہ تنقید کے لئے الفاظ کا چنائو مناسب ہونا چاہئے۔حضور آپ سے توقع تو نہ تھی کہ ان حالات کے مارے ہوئے لوگوں کے لئے نازی ازم کے الفاظ چنیں گے فسطائیت کی بات کریں گے۔اب وہ زمانہ لد گیا کہ لوگوں کو دبا کر خاموش کر دیا جاتا تھا۔ نوجوان پیار سے بات مانتے ہیں گلے شکوے اور اس انداز میں ۔یو نظامی ٹو۔