اے خاصہ خاصان رسل وقتِ دعا ہے امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
پھر مسلمانوں پر وہ وقت آن پڑا ہے جب شدت سے ایک محمد بن قاسم کی ضرورت پڑ گئی ہے کہ آج ایک مسلمان بہن نہیں بلکہ برما (میانمار) کے ہزاروں مسلمان بھائی اور بہن صدا دے رہے ہیں، ان کی آہ و پکار عرش کو تو ہلا رہی ہے لیکن زمین کے خدائوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ ان کے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے بلکہ مہر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
وہ صم بکم عمی کے مصداق اندھے بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں۔یہ وہ حکمران ہیں جو مسلمان ہیں تو اپنی عیاشیوں میں کھو چکے ہیں۔ ان کے پاس اپنے ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے کا وقت نہیں ہے تو دوسرے ملک کے عوام کی کیا سنیں گے۔ سوائے ایک ملک کے جس کو حق حاصل ہے کہ وہ سب مسلمان ملکوں کا لیڈر بنے۔ ترکی، جو بے شک مصطفی کمال پاشا بے نے سیکولر بنانا چاہا تھا لیکن بھلا ہو طیب اردگان بے کا جس نے وہاں اسلام کی روح پھونک دی۔ وہاں کے عوام کو سیکولرزم سے نکا کر اسلام کی راہ پر چلا دیا۔اس ترکی نے ہر مشکل وقت میں ہر مسلمان ملک کی مدد کے لیے سب سے پہلے قدم آگے بڑھایا ہے۔ اور اس بار بھی وہ بازی لے گیا۔ سمندر میں گھرے ہزاروں بے گھر برمی روہنگی مسلمانوں کو اس نے نہ صرف پناہ دی بلکہ انکے کھانے پینے اور رہائش تک کا انتظام کیا۔اور مزید کا انتظام بھی کر رہا ہے۔
جب کہ دوسری طرف انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنے والے امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس، جرمنی ، ناروے غرض سب بڑے بڑے ممالک بالکل خاموش بیٹھے ہیں۔ ان کو جیسے علم ہی نہیں کہ برما میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ بعینہ وہی صورت حال ہے جیسی انڈونیشیا کے ایک صوبہ مشرقی تیمور میں تھی۔ جہاں دنیا کے بقول عیسائیوں پر ظلم ہو رہا تھا۔ پھر دنیا نے اور خاص طور پر اقوامِ متحدہ نے وہ کھیل کھیلا کہ اس وقت کے انڈونیشین صدر جناب بی ۔جے۔ حبیبی مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کروانے پر مجبور ہو گئے۔ اور ریفرنڈم کے نتیجے میں اسی فیصد عوام نے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا۔ وہاں کیا ظلم ہو رہا تھا شاید برما کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ کیونکہ کسی بھی عیسائی کی اس طرح کے مرنے کی خبر نہیں سنی گئی۔نہ ہی وہاں کسی عیسائی کو جلایا گیا۔ اب اقوامِ متحدہ کو کیا ہوا ہے؟ کیوں اس کو برما کے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آرہا ۔ اور اگر آرہا ہے تو کیوں وہ اس طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے؟ شاید اس لیے کہ یہ مسلمان ہیں اور اقوامِ متحدہ پر اصل حکومت امریکہ کی ہے اور امریکہ پر یہودیوں کی۔ تو یہودی کبھی نہیں چاہتے کہ مسلمان اس دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پھیلے اور نہ ہی وہ اپنے دین کی تعلیمات پر مستحکم طور پر عمل پیرا ہوں۔اسی لیے اقوامِ متحدہ کسی بھی قسم کا کوئی ایکشن لینے سے پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔
پاکستان کی عاصمہ جہانگیرجو ہر وقت انسانی حقوق کا نعرہ لگاتی رہتی ہے، آج وہ بھی بہری ہو چکی ہے، اندھی ہو چکی ہے۔ اس کو وہ خواتین نظر نہیں آرہیں جن کی برہنہ مثلہ شدہ لاشوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر، سوشل میڈیا پر ہر ذی روح انسان کو نظرا رہی ہیں۔ لیکن وہ بوڑی گھوڑی لال لگا م کی طرح فیشن شو کی دلدادہ ہیں۔ چونکہ یہ تصاویر کسی فیشن شو کی نہیں ہیں اسلیے محترمہ کی نظر میں بلیک اینڈ وائیٹ ہیں۔ کہاں گئے انسانی حقوق کے دنیا میں رہنے والے اور علمبردار۔ جن کو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی غیر مسلم پر ہونے والے کسی بھی معمولی ظلم کی شکل تو نظر آجاتی ہے۔ کہیں پر دھماکہ ہو اور غیر مسلم مارے جائیں تو ان انسانیت کے علمبرداروں کو ان پر ظلم نظر آجاتا ہے لیکن پچھلے تین چار سالوں میں انتہائی ظالمانہ طریقے سے شہید ہونے والے مسلمانوں پر کیا گیا ظلم ان کو دھندلا دھندلا بھی نظر نہیں آتا۔مسلمانوں کی سربریدہ، کٹی پھٹی ، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی لاشیں، بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں ، خواتین کی عصمت دری کے بعد کی چیرپھاڑی کی ہوئی لاشیں ان کو قطعاً نظر نہیں آتیں۔ افسوس ہے، تف ہے ، لعنت ہے ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو پہلے مسلمان کہتے ہیں اور پھر انسانیت کے علمبردار کہتے ہیں۔
Mass Killing of Rohingya
کہاں گئے طالبان جو خود کو امن کے داعی کہتے ہیں ۔ جو کفار سے آخری سانس تک جہاد کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ کیا انکا جہاں صرف مسلمانوں کے خلاف ہے، پاکستانی افواج کے خلاف ہے، پاکستانی قوم کے خلاف ہے، پاکستانی بچوں کے خلاف ہے۔ افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف ہے۔ انہیں کشمیر، فلسطین میں ہونے والا دشمن عناصر کا ظلم نظر نہیں آتا۔اور سب سے بڑھ کر جو ظلم بربریت کی داستان برما میں رقم کی جارہی ہے اور ظلم کرنے والے بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ وہ بدھ مت جس کا بانی مہاتما بدھ مکمل طور پر امن کا داعی تھا۔ جنگ و جدل سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ انسانوں کو انسانیت کا درس دیتا تھا۔ جس نے امن کی خاطر بادشاہت کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اسی سدھارتھ عرف مہاتمابدھ کے پیرو کار آج برما میں چنگیز و ہلاکو کو بھی مات دے رہے تھے۔ طالبان کو یہ ظلم نظر نہیں آرہا۔ اور کیوں نظر آئے، ظلم کرنے والے مسلمان نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ظلم طالبان پر ہو رہا ہے۔ پھر کہاں ہے داعش۔۔ مشہور زمانہ داعش، جو طالبان کی طرح اسلام اسلام کی رٹ لگائے بیٹھی ہے۔ جس کو صرف شام، اردن، عراق میں ہی مسلمانوں کے بھیس میں غیر مسلم نظر آرہے ہیں۔اس کی نظر بھی ان امن کے داعیان بدھ مت کے پیروکاروں پر نہیںپڑی۔ اسے برما میں ہونے والا ظلم بالکل بھی نظر نہیں آرہا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ داعش اور یہ طالبان امریکہ کی پیداوار ہیں نہ کہ ان کا کوئی تعلق کسی بھی لحاظ سے اسلام سے ہے۔یہ صرف نام کے اور حلیہ کے مسلمان ہیں، اسلامی تعلیمات سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے برما کے مہاجرین کی کراچی میں آبادکاری پر غور شروع کر دیا ہے۔اس مد میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو مختلف قسم کی سفارشات حکومت کو پیش کرے گی، جس میں کراچی میں جگہ کی تلاش، اسکی خرید اور اس پر خیمہ بستی کی تعمیر شامل ہیں۔ برما کے تیس لاکھ روہنگین مسلمانوں میں سے دس لاکھ مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ جن جن کو موقع ملتا ہے وہ وہاں سے کشتیوں کے ذریعے بھاگ رہا ہے۔ قریب ترین ملک بنگلہ دیش بنتا ہے، لیکن وہاں پر آج بھی غداروں کی حکومت ہے جس نے ١٩٧١ ء کی جنگ میں بھارت کے جیتنے کی خوشی میں انڈیا کو ایک ایوارڈ سے نوازا جس کو اس وقت کے بقول گوگل سب سے بڑے مجرم وزیراعظم مسٹر مودی نے وصول کیا۔اسکے بعد ظاہر ہے کہ بنگلہ دیش کی کبھی بھی یہ جرأ ت نہ ہو گی کہ وہ برما کے مہاجر مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے سکیں۔ جب کہ پاکستان نے کم از کم یہ قدم تو اٹھا یا کہ مہاجرین کی آباد کاری کا سوچا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اسلامی ممالک کی تنظیم کو غصہ دلاتا۔ اس کو اس کے ہونے کا احساس دلاتا اور پھر اسکے جھنڈے تلے مسلمان ممالک کی ایک فوج تیار ہوتی اور وہ نیٹو کے طرز پر بنا کسی سے اجازت مانگے برما کی طرف مارچ کرتی، اور اسے یہ دھمکی دیتی کہ اگر اس نے فوراً سے پہلے برماکے مسلمانوں کا قتلِ عام نہ چھوڑا اور ان کے اسلامی و انسانی حقوق تسلیم نہ کیے تو بنا وقت ضائع کیے برما پر حملہ کر دیا جائے گا۔ جس کا ذمہ دار برما ہو گا۔ظاہر ہے جب ساٹھ سے زیادہ ممالک کی فوج یہ کام کرے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اس فوج کو نہیں للکار سکتی۔چلیں دیر آیددرست آید کے مصداق پاکستان نے کوئی قدم تو اٹھایا۔ اللہ کرے کہ اگلا قدم ہر مسلمان حکومت کا اپنے اپنے ملک سے برما کا سفارت خانہ ختم کرنے کا ہو۔
تاکہ برما کی حکومت جو کہتی ہے کہ اسے اس بات کو کوئی علم نہیں ہے کہ آیا برما میں کوئی ظلم بھی ہو رہا ہے۔ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ حکومت کو معلوم نہ ہو اور روزانہ ہزاروں کی بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کیا جارہا ہو۔ سوشل میڈیا میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی سازشوں کے پیچھے آشین ویراتھو کا ہاتھ ہے اور اس کی تصاویر نیٹ پر گردش کر رہی ہیں۔ بدھ بھکشو قتل کرتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ مسلمان بچوں کو تہہ تیغ کرتے، ان کو جلاتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں اور حکومت میانمار کہتی ہے کہ اس کو علم نہیں۔ یعنی یہاں پر بھی امریکہ کا ہاتھ ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی جب آسانی سے ہو رہی ہے تو ہوتی رہے، کیا ضرور ت ہے مشرقی تیمور کی طرح یہاں پر دخل اندازی کرنے کی۔ یہ تو انکا اندرونی مسلہ ہے۔اللہ پاک برما کے مسلمانوں کی مدد فرمائے، اور سب مسلمانوں یہ توفیق دے کہ وہ اپنے طور پر ہر ممکن طریقے پر برما کے مسلمانوں کی اخلاقی، معاشی ، جسمانی طور پر مدد کر سکیں اور انہیں اس مشکل سے نکال سکیں۔آمین۔