تحریر: سجادعلی شاکر،لاہور دنیا کے نقشے پر ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت متنازعہ ہے اور یہ کسی نسلی، مذہبی اور علاقائی اعتبار سے متنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے سیاسی مقدر کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔۔ مسئلہ کشمیر کے پرامن طور حل کے بغیر نہ تو خطے میں کشیدگی کم ہوسکتی ہے اور نہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو روکا جاسکتا ہے۔ جموں کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جس طرح حیدر آباد، جونا گڑھ اور مناوا درجیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اسی طرح قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29 اکتوبر 1947 کو انڈیا نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔
بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستانی افواج کو بھارتی لشکر کشی کا جواب دینے کا حکم دیا تو پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر جنرل ڈگلس گریسی نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔بعد ازاں 1948ء میں پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیاجس پر سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء اور 5مئی 1949ء کو دو قراردادیںپاس کیں کہ جنگ بند کرکے دونوں حکومتیں کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا انتظام کیا جائے۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی ہوگئی۔ اس کے بعد پاکستان کی تمام کوششوں کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کو ٹالتا رہا اور اقوام متحدہ جیسا حقوق انسانی کا علمبردار ادارہ جو مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو،مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں ، شخصیات واداروں پر پابندیوں کا مسئلہ ہو تو دنوں میں اپنی قراردادوں و فیصلوں پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اس نے کبھی بھارت پر اس طرح دبائو نہیں ڈالا جس طرح اسے ڈالنا چاہئے تھا۔یہ نام نہاد عالمی طاقتوں اور اداروں کے بھارت کی طرف جھکائو کا نتیجہ تھا کہ انڈیانے ہمیشہ اس مسئلہ پر روایتی ٹال مٹول سے کام لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا
India Police Attack
یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا، کشمیر میں استصواب رائے کے وعدہ سے انڈیا صاف طور پر مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیا۔اس وقت سے لیکر آج تک بھارت ہٹ دھرمی کا یہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کیلئے تیا رنہیں ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے نائن الیون کے بعد سابق حکمرانوں کی جانب سے بھارت و امریکہ کے دبائو پرکشمیری جہادی تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں اورایسے ایسے اقدامات کئے گئے کہ جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کنٹرول لائن پریکطرفہ سیز فائر کردیا گیا، اعلان اسلام آباد پر دستخط کئے گئے اور بھارت سے یکطرفہ دوستی اور باہمی اعتماد سازی کے نام پر ملکی و قومی خود مختاری اور وقار کی دھجیاں اڑا دی گئیں مگر اس قدر بھارت نوازی کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی اہل پاکستان سے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ وہ اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو ان کی نگاہیں پاکستانی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔یوم پاکستان پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پاک بھارت کرکٹ میچ ہو تو ان کی تمام محبت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔بھارت نے 68 برسوں میں ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا ،ہزاروں کشمیری مائوں بہنوںاور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی،بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔جگہ جگہ سے اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں۔کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری قوم68 برس سے عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔
بھارت کی طرح پاکستان نے اٹوٹ انگ کا نعرہ نہیں لگایا حالانکہ قائداعظم کے الفاظ میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس صورتحال میں ہماری حکومتی سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے کہ وہ ایک تو مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ اور اصولی موقف کو کسی صورت کمزور نہ ہونے دیں اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے کسی اقدام یا پالیسی سے بالخصوص کشمیری عوام میں مایوسی کی ایسی فضا پیدا نہ کریں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کرانا، شاطر ہندو بنیا کے عزائم ناکام بنانے اور عالمی امن کے قیام کیلئے بھی ضروری ہے۔
United Nations
اقوام متحدہ جان لے کہ پاک بھارت تعلقات کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو کشمیری عوام پر بھارتی فوج کے بہیمانہ مظالم ختم ہوسکتے ہیں اور نہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد کو روکنا ممکن ہے مسئلہ کشمیر حل کرائے بغیر دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہتر بنانے اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے کوئی کوشش کی گئی تو وہ عارضی اور ناپائیدار ہوگی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کشمیر کے بارے میں قراردادوں کو پس پشت ڈال کر خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے
اور ایٹمی جنگ کے خطرات کو دعوت دی جا رہی ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پس پشت ڈالنے کی بنا پر مسلمانوں میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ امریکہ کی طرح اقوام متحدہ بھی مسلم مفادات کے منافی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور مسلم دشمن عناصر کے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے لہذا بان کی مون کا فرض ہے کہ وہ فی الفور سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلا کر مسئلہ کشمیر کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے رائے شماری کے انتظامات کرائیں اور بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کرتے ہوئے رائے شماری میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تاکہ خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو اور پاکستان و بھارت اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔