تحریر: اقبال زرقاش میرے ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر ہردور میں برسراقتدار حکمرانوں نے نئے نئے تجربات کیے اور اپنی ذاتی تشہیر اور من پسند فیصلے کر کے ایسے منصوبے شروع کیے جن سے ملک کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ اربوں روپے کے پراجیکٹ شروع کیے گئے اور بعدازاں یہ منصوبے قومی دولت کو برباد کرنے کے سوا کچھ ثابت نہ ہوئے۔
کسی دور میں جنرل بس سروس (جی ٹی ایس) ملک بھر میں سرکاری طور پر چلائی جاتی تھی اور فتہ رفتہ جس طرح ہمارے سرکاری اداروں کا حال ہوا کرتا ہے وہی ہوا کہ یہ سرکاری بس سروس مالی خسارے کی وجہ سے بند کرنا پڑی۔کروڑوں روپے سے خریدی گئی بسیں کھڑی کر دی گئیں اور یہ گل سٹر کر کباڑ خانوں کی زینت بننے لگیں اور آج ان کا نام ونشان تک باقی نہ رہا۔ ہماری نوجوان نسل شائد جی ٹی ایس سروس کے نام سے بھی آج واقف نہ ہو۔
ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ایسے منصوبوں جو ہمارے ملکی مالی حالات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں شروع کرنا سراسر قومی دولت کو اپنی انا اور خواہش کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہیں۔ میاں برادران جو خواب دیکھتے ہیںان کی تعبیر،ان کے لیے تو بہترثابت ہو سکتی ہے مگر ملک اور قوم کو اس کا خمیازہ مدتوں بھگتنا پڑتا ہے۔ آج پاکستان میں ہربچہ ایک لاکھ کا مقروض ہو کر اس ملک میں آنکھ کھول رہا ہے۔ سود در سود قرضے لے کرحکمرانوں نے ملک کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا ہے۔آج حکمران طبقہ خوشحال اور پاکستان بد حال ہوتا جا رہا ہے۔
Pakistani People
یہی حال عوام کا ہے کہ وہ دووقت کی روٹی سے لاچار نظر آنے ہیں ایسے حالات میں ایسے میگا پراجیکٹ جس پر اربوں روپے خرچ کر کے یہ بارآور کرایا جا رہا ہے کہ اس سے عوام میںخوشحالی آئے گی اور انہیں سستی سفری سہولیات میسر آئیں گی کسی طرح بھی درست نہ ہے۔دیگر منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی بری طرح فلاپ ہو گا۔ کچھ عرصہ بعد ایک ایک کر کے بسوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی اور دیگر مسائل سر اٹھائیں گے اور یہ منصوبہ بدنامی سے دوچار ہو گا۔ جی ٹی ایس بس سروس کی طرح آیندہ آنے والی نسلیںاس میٹرو بس سروس کے نام سے بھی ناآشنا ہوں گی مگر ملکی خزانے پر جواربوں روپے کا ٹیکہ لگایا گیا ہے اس کافیصلہ آنے والا وقت ہی کر ے گا کہ یہ منصوبہ درست تھا کے غلط۔
اس وقت ملک توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میاں برادران لوڈشیڈنگ کے شکار عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی اقدام اٹھاتے۔ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جو راگ الاپا گیا تھا اس کو عملی شکل دیتے مگر تاحال بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی صرف بیانات کی حد تک منصوبے رواں دواںدیکھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو اس وقت میٹرو بس سروس کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ضرورت تھی تو صرف اور صرف بجلی کے موجودہ بحران سے فوری نجات دلانے کی۔
Shahbaz Sharif
سابقہ دور حکومت میں میاں شہبازشریف جس طرح لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے رہے تھے آیا آج اپوزیشن جماعتو ں کو بھی اس احتجاج کا حق دیں گے یا پھر میٹرو بس سروس کے تحفہ کی نوید سنا کر خاموش تماشائی بننے کا مشورہ دیں گے۔ اب بقول انکے احتجاج اور دھرنوں سے ملکی معیشت کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ میاں برادران کے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں احتجاج اور لانگ مارچ جیسی مہم جوئی کا حصہ بنتے رہے کیا اس وقت ملکی معیشت پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہو رہے تھے ؟واہ میاں برادران آپ کے کیا کہنے۔
اپنے لیے سب جائز اور دوسروں کے لیے ہر چیز ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار آخر کب تک چلے گا۔خدارا یسے منصوبے شروع کریں جو دیرپا اور ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں ورنہ جی ٹی ایس (بس سروس )اور میٹرو بس سروس میںکچھ فرق باقی نہ رہے گا اور یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوکر ملکی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ نہیں بن جائے گا اور آیندہ آنے والی نسلیں قرض کی رقم اتارتے اتارتے دیوالیہ ہو جائے گی۔