تحریر: شاز ملک کہتے ہیں زندگی ایک سفر ہے اورانسان ایک مسافر لیکن میں یہاں یہ کہوں گی انسان کی روح جب تخلیق ہوئی وہ سفر کا آغاز ہو گیا زندگی کی مسافت روح کا جسم فانی میں پڑائوروح کی پالیدگی کیلئے ضروری ٹھہرتا ہے اور اسی پڑائو پر اپنے ہونے کا احساس پیدا ہونے کا مقصد اور مقام عشق کو سمجھنا اور معرفت الہی کو جاننا مطلوب ہوتا ہے مگر ذی روح کا یہ مقدر نہیں ہوتا کچھ روحیں اور کچھ محصوص اجسام ادراک کے اس سفر معرفت کیلئے حسب منشا رب دوجہاں چن لیے جاتے ہیں۔
جن کو مہد مادر میں ہی اوصاف حمیدہ اور ظاہری اور باطنی علوم سے مالا مال کر دیا جات ہے، کوئی درویش کوئیملامت کا ملامتی کوئی سادھو کائی فقیر کوئی مجزوب، کوئی دربدر بھٹکتا نیم پاگل ، کوئی سوٹڈ بوٹڈ پڑھا لکھا کہانی کار شاعر تو کوئی ادیب ، کوئی فنکار ، ان گنت عشاق اور محبوب صرف ایک ذات واحد ہ ہو لاشریک جو کرے لاشریک جو کرے آتش کو گلزار ، جس نے انسان کی فطرت کر کے خود کو اوجھل کر دیا ہے ۔ خود ہی عشق میں سرشار ہو گیا ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب پاک کے درجہ پر فائز فرماکر یہ کائنات تخلیق کی ۔ سبحان اللہ ، عشق کی کار فرمائی ہے۔
تخلیق کا مظہر عشق ، عشق جب دل کے صحیفے پر آیت بن کر اترتا ہے تو من کا نگر اوجالا اور پوترآستان بن جاتا ہے اور تن آپو آپ نکھرنے لگتا ہے جیسے بن میں بہار آئے تو خود بخود سبزہ و پھول کھلنے لگتے ہیں، عشق کی پاک مٹی سے کچھ محصوص انسانوں کے دل گوندھے جاتے ہیں ، تو ان کی خشبو الگ ہوتی ہے، اس لیے اہل عشق کے درجات بھی رد دو جہاں نے الگ رکھے ہیںاور ان کا عشق پردے میں محصور ایسے جیسے جنت کی حور ، جیسے سیپ میں موتی ، آبدارکارخانہ قدرت کی صناعی عجیب ہوتی ہے۔
Love of Allah
عشق ایک قدرتی امر ہے انسان کی فطرت میں جو ہے وہ اس کے برعکس نہیں جا سکتا جیسے توشا گل میں خوشبو عشق و جدان کے جھروکے سے آنے والی خوشبو کا وہ جھونکاجس سے معطر ہونے کے بعد تازگی کا اور خوشبو کے منبع کی تلاش کا پہلا سفر شروع ہو تا ہے اس سفر کا پہلا وسیلہ عشق مجازی وہ پہلی سیڑھی پر پہلا قدم جہاں آگے قدم بہ قدم بے انت سفر عشق مجازی کی انتہا عشق حقیقی کا۔