تحریر: سید انور محمود گذشتہ سال اتوار 15 جون 2014 ءکو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ ’العضب ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تلوار کا نام ہے، اسی مناسبت سے پاک فوج نے آپریشن کا نام “ضرب عضب” رکھا، جس کا مطلب “ضرب کاری” یعنی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ۔آپریشن کو ایسا مقدس نام دینے پر پوری قوم نےسوائے طالبان کے ہمدردوں کے پاک فوج کو بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے یہ دلی دعا بھی کی کہ اللہ تعالی معصوم شہریوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور آپریشن”ضرب عضب” کامیاب ہو۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کرتے، آپریشن شروع کرنے کا اعلان کرتے اور اُن مذاکرات کی ناکامیابی کے اسباب پر روشنی ڈالتے جو اُس وقت طالبان دہشتگردوں سے ہورہے تھے۔ مگر قوم کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے زریعے آپریشن شروع ہونے کی اطلاع ملی، آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کےمطابق شمالی وزيرستان ميں حکومتی ہدايت پر باقاعدہ فوجی آپريشن شروع کر ديا گيا ہے۔
اگلے روز شاید نہ چاہتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کررہے تھے جبکہ دوسری جانب تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ہماری نیک نیتی پر مبنی پیش رفت کو اسی جذبے کے ساتھ نہیں لیا گیا، کراچی حملے کے بعد مشاورت سے آپریشن کا فیصلہ کیا، دہشتگردی نے معیشت کو گہرا زخم لگایا، پاکستان دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے۔ دکھ کی بات ہے مساجد‘ امام بارگاہیں‘ عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں‘ کھیل کے میدان ویران ہیں‘ بازارو شہر خوف کے سائے میں ہیں۔ دہشتگردی ہماری معیشت کو 103 ارب ڈالر کا زخم لگا چکی ہے۔ ہم کسی قیمت پر ملک کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ قومی اسمبلی میں یہ سب باتیں کرنے والے نواز شریف اور اُنکے وزرا گذشتہ ایک سال اور خاصکر 23 جنوری 2014ءسے مذاکرات کے نام پر پوری قوم کو دھوکا دے رہے تھے۔
وزیراعظم نواز شریف جس وقت مذکراتی کمیٹی کا اعلان کررہے تھے اُس وقت بھی کراچی کی فضائیں یکے بعد دیگرے ہونیوالے دھماکوں سے گونج رہی تھیں، ان دھماکوں میں دو رینجرز اہلکاروں سمیت چار بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا تھا۔ آٹھ جون کو ایک مرتبہ پھر کراچی میں خون بہایا گیا اور ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گی۔ نواز شریف جو فی الوقت آپریشن کےلیے تیار نہیں تھے کراچی ایئرپورٹ پرحملے کے بعد اُنہیں آپریشن کی منظوری دینا پڑی یا افواج پاکستان کے آپریشن کے مشورہ کو قبول کرنا پڑا اسکے علاوہ اُنکے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔
Pak Army Soldier Shaheed
آپریشن ضرب عضب سے پہلے دس سال میں جون 2014ء تک پاکستان میں 52 ہزار 409 افراد شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز کے 5 ہزار 775 اہلکار شہید ہوئے، 396 خود کش حملے ہوئے جس میں 6 ہزار 21 افراد جاں بحق اور 12ہزار558 افراد ذخمی ہوئے، 4ہزار932 بم دھماکے ہوئے۔ آپریشن ضرب عضب سے پہلے عام شہریوں کو اُن علاقوں سے نکالا گیا، جہاں طالبان دہشتگرد وں کا قبضہ تھا۔شروع میں گیارہ لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی جنہیں بنوں اور بکا خیل میں عارضی طور پر پناہ دی گئ، ان تمام آئی ڈی پیز کا رجسٹریشن کیا گیا اوراُن کو کیمپوں میں منتقل کیا گیا، یقینا آئی ڈی پیز کو پریشانیاں بھی ہویں لیکن یہ ایک وقتی مجبوری تھی۔15 جون کو پہلی کاروائی میں 120 دہشتگرد مارے گئے اور بارودی ذخیرے تباہ ہوئے۔
آپریشن میں ابتدائی طور پر لڑاکا جیٹ طیاروں،گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا نے اہداف کو نشانہ بنایا بعد میں زمینی کاروائی کا آغاز ہوا اوردہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فوج کی ان کاروائیوں میں دہشتگردوں کو بھاری جانی نقصان پہنچا، اُنکا بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود تباہ ہوا، بعد میں جب دہشتگردوں کی ایک خاصی تعدادماردی گئی تو دہشتگرد کافی اسلحہ کی تعداد جن میں بم بنانے کا سامان،خود کش جیکٹوں کی ایک کثیر تعداد چھوڑکر بھاگ گئے۔
آپریشن ضرب عضب نے کامیابی سے اپنے اہداف پورے کرنا شروع کئے تو بزدل دہشتگردوں نے دو نومبر کی شام واہگہ باڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد ایک انیس یا بیس سال کے بچے کے زریعےتقریب سے واپس جانے والوں پر خود کش دھماکا کیا اُسکے نتیجے میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت 60 افراد شہید اور 175سے زائد زخمی ہوگئے، جن میں 12خواتین اور7بچے بھی شامل ہیں۔ دہشتگرد یہ سمجھ بیٹھے کہ اب لوگ سہم گے ہونگے اور آئندہ اس طرح کی تقریب میں شریک نہیں ہونگے، لیکن دہشت گردوں کا خیال غلط نکلا اگلے دن تین نومبر کو پھر تقریب ہوئی، اپنے شہید ہونے والے پاکستانی بہن بھایوں کا غم تھا، لیکن لوگوں کی بڑی تعداد نے واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں شرکت کی
دہشتگرد پاکستانیوں کے حوصلے پست نہ کر سکے۔ واہگہ بارڈرپرپرچم اتارنےکی تقریب میں ہزاروں شریک پاکستانیوں کے حوصلےبہت بلندتھے، شریک پاکستانیوں میں خواتین اوربچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ پاکستانیوں کاجوش وجذبہ برقرار دکھائی دیا۔ اس موقع پر کورکمانڈر، ڈی جی رینجرز اور پولیس حکام بھی موجودتھے۔کورکمانڈر کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کےدکھ میں شریک ہیں، آج کی تقریب ثابت کررہی ہےکہ بزدلانہ حملے سے قوم کاجذبہ کم نہیں ہوگا۔
Army Public School Attack
بزدل دہشتگردوں کو عادت پڑی ہوئی تھی کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں دہشتگردی کریں لیکن آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشتگردوں کو اپنی موت نظر آنے لگی تو بزدلوں نے بدلے کی آگ میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کردیا۔ سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور 132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132 طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔
لیکن اتنے بڑئے سانحے کے باوجود بھارت کے زرخرید بزدل طالبان دہشتگرد پاکستانیوں کے حوصلے کو پست نہیں کرسکے۔ افسوس وزیراعظم حادثے والے دن پشاور پہنچے لیکن متاثرین کو وہ حوصلہ اور تاثر نہ دئے سکے جسکی اُس وقت ضرورت تھی۔ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا اس موقع پر کردار قابل ستائش رہا۔ بارہ جنوری کوپشاور کا آرمی پبلک اسکول جب دوبارہ کھلا تو کوئی بھی سیاسی قیادت وہاں موجود نہیں تھی لیکن فوج کےسربراہ جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں طالب علموں اور اُنکے والدین کے استقبال کےلیے موجودتھے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’تمام بچے ہائی سپرٹس میں ہیں اور اس قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی‘۔
وزیراعظم نواز شریف 30 جنوری کو کراچی آپریشن کے سلسلے میں وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کے ہمراہ کراچی پہنچے ۔ ابھی وزیر اعظم کراچی میں ہی تھے اور کراچی اسٹاک کے انڈیکس کے بڑھنے کو اپنی کامیابی بتارہے تھےکہ صوبہ سندھ کے شہرشکارپورسے دہشتگردی کی خبر آگئی۔ صوبہ سندھ کے شہرشکارپور کے مرکزی علاقے لکھی در پر گنجان آبادی کے درمیان قائم مرکز ی مسجد اور امام بارگاہ کربلا معلی میں 150 کے قریب نمازی جمعہ کی ادائیگی کے لئے موجود تھے، اس دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا اور امام بارگاہ کی چھت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں 60 افراد شہید ہوگئے جبکہ 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ چونکہ شکار پور جانے سے وزیر اعظم کو کوئی سیاسی فاہدہ نہ تھا لہذا شام کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام آباد چلے گئے۔
13 مئی 2015ء کو کراچی میں صفورہ چورنگی کے قریب ہونے والی دہشتگردی بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردیوں کے انداز میں کی گئی ہے۔ اس دہشت گردی میں شقی القلب شارپ شوٹرز نے صرف چند منٹ میں اسماعیلی برادری کے معصوم اور بے ضرر لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ، اطلات کے مطابق بیس سے ستر برس تک کی عمر کے 46 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ جب 13 مئی کو اسلام آباد میں وزیراعظم کی دعوت پرائے پی سی میں موجود سیاسی رہنماوں نے شاندار لنچ کا آغاز کیا تو کراچی میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کررہے تھے۔ وزیر اعظم شام کوائے پی سی ختم کرکے کراچی پہنچے اور چند گھنٹے بعد ہی واپس چلے گئے، جبکہ وزیر داخلہ کا اُس دن دور دور پتہ نہیں تھا۔ ہماری قومی قیادت شاندار لنچ کررہی تھی تو ہماری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنا سری لنکا کا دورہ منسوخ کرکے سب سے پہلے کراچی پہنچے اور سب سے آخر میں تمام معاملات خود طے کرکے اگلے دن کراچی سے گئے۔
Pak Army
گذشتہ سال 15 جون کو شروع ہونے والا آپریشن ضرب عضب ابھی جاری ہے، پاک فوج کے مطابق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کو ایک سال پورا ہونے پر مختلف کارروائیوں کےدوران 2763 دہشت گردوں کو ہلاک کیاگیا ہے جبکہ آپریشن میں سکیورٹی فورسز کے347 افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔ فوجی ترجمان کے مطابق سکیورٹی فورسز نے 9000 خفیہ اطلاعات پر کارروائیوں میں شہری علاقوں میں موجود 218 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران مختلف نوعیت کے 18087 ہتھیار اور 253 ٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا ہے۔ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور اسی وجہ سے چینی صدر کا دورۂ پاکستان اور پاکستان زمبابوے کرکٹ سریز ممکن ہوئی۔
گذشتہ ایک سال میں جو حالات اور واقعات سامنے آئے ہیں اُس سے یہ بات تو واضع ہوگئی ہے کہ مرکزی اورصوبائی حکومتیں آپریشن ضرب عضب میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جو اُنہیں کرنا چاہیے۔ زبانی باتیں تو بہت ہورہی ہیں لیکن عملی کچھ نہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجینسی ’را‘ ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کرواکرپاکستان کو داخلی طور کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور اس بات کےلیے کوشاں ہے پاکستان میں کبھی امن قائم نہ ہو۔ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں بھارت کے پالتو دہشتگردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تباہ کر کے پورے علاقے میں امن قائم کر دیا ہے۔
جس کے باعث ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ نواز شریف اگر واقعی اس ملک کی بھلائی چاہتے ہیں تو پھر اُنکوعملی طور دہشتگردی کے خلاف لڑنا ہوگا تب ہی وہ قوم سے کیے ہوئے اپنے وعدوں اورپاک چین اقتصادی راہدری کے منصوبے اور معاہدوں کو مکمل کرپاینگے، گذشتہ ایک سال میں آپریشن ضرب عضب اور حکومتی کردار میں واضع فرق تھا۔