تحریر: پروفیسر رفعت مظہر ہمارے طلال چودھری پہلودار شخصیت کے مالک ہیں۔ یوں تو وہ پکے نون لیگئے ہیں لیکن تحریکِ انصاف کی محبت میں بھی سرشاررہتے ہیں۔ ان کی جنوں خیزی کا یہ عالم کہ وہ تحریکِ انصاف سے بات کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کی تحریک انصاف سے چھیڑچھاڑ کا بس ایک ہی مقصد ہوتاہ ے کہ جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں ان سے ہم کلام کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں اِس”اٹ کھڑکے” میںان کی ایک اورخواہش بھی پنہاں ہوتی ہے کہ سونامی کو جوش میںآتا دیکھ کر وہ زیرِلب مسکراہٹ کے ساتھ کہیںکہ کتنے ”شیریں” ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
19 جون کوپارلیمنٹ کے اجلاس میں انہوںنے محترمہ شیریںمزاری کو”آنٹی” کہہ دیاجس پروہ بھڑک اٹھیں۔ اُن کاآگ بگولا ہونا بالکل بجا کہ خواتین اپنی عمرکے بارے میںحسّاس ہی بہت ہوتی ہیں۔شیریں مزاری چونکہ خاتون ہیںاِس لیے ہماری تمام تر حمایت اورہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ بننا سنورنا ہرعورت کا بنیادی حق ہے اور اگر شیریں مزاری صاحبہ اسی حق کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے بالوں کو ”سہ رنگی ٹَچ”دینے کے لیے کئی کئی گھنٹے صَرف کر دیتی ہیں تو دوسروں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں؟۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلال چودھری کاانہیں ”آنٹی” کہہ دیناانتہائی غیرپارلیمانی ہے۔ حقوقِ نسواں کی NGO’s یقیناََ اِس ”بَدتمیزی”پر بینرزاور پلے کارڈزاُٹھائے سڑکوںپر نکل آتیںلیکن ایک توآجکل وہ خود ”حکومتی تخریب کاری” کے ہاتھوں”وَخت” میںپڑی ہوئی ہیں، دوسرے گرمی بھی بہت اورسب سے اہم بات یہ کہ اِس ”احتجاج”پر ڈالریا پاؤنڈ ملنے کی ہرگزتوقع نہیں۔
ہم نے آئین کی کتاب کھول کرکوئی ایسا آرٹیکل تلاش کرنے کی کوشش کی جسے طلال چودھری کی اِس بَدتمیزی پرلاگو کیاجا سکے لیکن ”کَکھ”پلّے نہ پڑا۔ اِس لیے چاروناچار ہمارامشورہ تویہی ہے کہ چودھری صاحب پرآرٹیکل چھ لاگوکر دیاجائے تاکہ ”نہ رہے بانس ،نہ بجے بانسری”۔ ہمارے سپیکرایازصادق صاحب نے طلال چودھری کوڈانٹتے ہوئے کہاکہ وہ غیرپارلیمانی لفظ ”آنٹی” کی بجائے پارلیمانی لفظ ”آپا”استعمال کرے۔ کوئی سپیکرصاحب سے پوچھے کہ طلال چودھری کوئی ”چوچہ” ہے جوشیریںمزاری کو ”آپا” کہے؟۔ دونوںمیں بس انیس ، بیس کاہی فرق ہوگا اوریقیناََ شیریںمزاری ہی” انیس” ہیں۔ چودھری صاحب شیریںمزاری سے پلٹے توہمارے ”تیلی پہلوان”پر اقرباء پروری کاالزام دھرتے ہوئے مستقبل کی خاتونِ اوّل محترمہ ریحام خاںتک جاپہنچے ۔
Reham Khan
انہوں نے کہا ”ریحام خاںصاحبہ خیبرپختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹرکو ”رَکشے”کی طرح استعمال کرتی رہتی ہیں”۔ ہمیںتو یوںمحسوس ہوتاہے کہ جیسے شدیدگرمی نے چودھری صاحب کی ”مَت” ماردی ہے۔ اگرریحام خاںنے اپنے ہی صوبے کاہیلی کاپٹربھی استعمال نہیںکرنا توپھر اُنہیںکپتان صاحب سے شادی کرنے کی ضرورت ہی کیاتھی۔ریحام خاںکے ذکرپر توتحریکِ انصاف نے صرف تلملانے پراکتفا کیالیکن جونہی کپتان صاحب کانام ِنامی ، اسمِ گرامی طلال چودھری کے لبوںپر آیاساری اپوزیشن پھَٹ پڑی اور ”واک آؤٹ” کرگئی۔ پھرطلال چودھری نے سپیکرصاحب کو ”دَھر”لیا۔ وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 122 پربات کرناچاہتے تھے۔ سپیکرصاحب نے اُنہیںلاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ ”پپویار ،تنگ نہ کر ،یہ میراحلقہ ہے جس پرمیری موجودگی میںبات کرنا مناسب نہیں”لیکن چودھری توچودھری ہوتاہے اوروہ چودھری ہی کیاجو مان جائے اِس لیے مجبوراََ ایازصادق کوبھی ”واک آؤٹ” کرناپڑا۔ شایدطلال چودھری یہ سوچ کرپارلیمنٹ میںآئے تھے کہ ”گلیاں ہو جان سونجیاں، وِچ مرزایار پھرے”۔
کہاجا سکتاہے کہ طلال چودھری پارلیمنٹ کے اِس اجلاس میںتحریکِ انصاف پربہت ”بھاری”پڑے۔ ویسے توجسٹس (ر) وجیہ الدین بھی آجکل تحریکِ انصاف پربہت بھاری پڑرہے ہیں۔ سبھی جانتے ہیںکہ کپتان صاحب کو ”تحقیقاتی کمیشن”بنانے کاشوق ہی بہت ہے۔ جب اُنہوںنے دیکھاکہ مسلم لیگ نون تحقیقاتی کمیشن بنانے میںلیت ولعل سے کام لے رہی ہے تواپنا شوق پوراکرنے کے لیے اپنی ہی پارٹی میںتحقیقاتی کمیشن بنادیا۔ کام اِس کا ”انٹراپارٹی الیکشن” میںبَدعنوانیوں کی تحقیقات کرنااور سربراہی جسٹس وجیہ الدین کے ذمہ۔ جسٹس صاحب نے تحقیقات شروع کی توابتداء ہی میںکپتان صاحب کواحساس ہوگیا کہ وہ غلطی کربیٹھے ہیںاِس لیے اُنہوںنے تحقیقاتی کمیشن توڑدیا لیکن جسٹس صاحب نے فرمایا”حتمی فیصلہ آنے تک کمیشن نہیںٹوٹا کرتے”۔ اب اُن کافیصلہ آیاجس میںاور کئی لوگوںکے علاوہ جہانگیرترین کی بنیادی رکنیت بھی ختم کردی گئی اورساتھ ہی یہ حکم نامہ بھی کہ اب وہ کبھی بھی تحریکِ انصاف کے رکن نہیں بن سکتے۔
Imran Khan
ادھر کپتان صاحب کایہ عالم کہ جہانگیر ترین کے ذاتی طیارے کے بغیرزندگی گزارنے کاتصور بھی ناممکن۔ پتہ نہیںلوگ ریحام خاںکے ہیلی کاپٹراورعمران خاںکے پرائیویٹ جہازمیں سفرپر اتنے چیںبہ چیںکیوں ہوتے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں یہ نعرہ بہت مقبول ہے کہ ”ایک زرداری ،سب پہ بھاری”۔لیکن وقت نے ثابت کیاکہ زرداری صاحب صرف اپنی پارٹی پرہی ”بھاری” ہیںاور یہ بھی اُن کی ”کرشماتی” شخصیت کا ”کرشمہ”ہے کہ اُن کے دَورمیں پیپلزپارٹی سُکڑسمٹ کرسندھ تک محدودہوگئی اب شایداُن کی ”پلاننگ”ہے کہ پیپلزپارٹی کا”خاتمہ بالخیر”ہی کردیا جائے۔ اُنہوںنے ”مَتھا”بھی لگایاتو کِس سے؟۔۔۔ فوج سے۔جب زرداری صاحب نے کہا”ہم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے” توہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔دو دوست جنگل میںجا رہے تھے ۔ایک نے دوسرے سے کہا”اگر سامنے سے شیر آجائے تو تم کیاکروگے؟”۔دوسرے نے جواب دیا”میںنے کیاکرنا ہے ،جو کچھ کرے گاشیر ہی کرے گا”۔
بڑھکیں لگانے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ زرداری صاحب نے کیاکرنا ہے جو کچھ کرے گی فوج ہی کرے گی۔ویسے بھی جنرل راحیل شریف شایدواحد چیف آف آرمی سٹاف ہیںجن سے پوری قوم والہانہ محبت کرتی ہے ،وجہ صرف یہ کہ وہ ملک سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ زرداری صاحب اپنی افطارپارٹی کواے پی سی کارنگ دیناچاہتے تھے لیکن ناکام رہنے پرکہہ دیاکہ یہ اتحادی جماعتوںکی افطاری ہے۔ اُنہوںنے افطاری میںمٹن پکوڑا ،چکن پکوڑا ،فِش پکاڑا ، چکن سموسے ،دہی بھلے ،فروٹ چاٹ ،چنا چاٹ اور ڈنرمیں ،مٹن قورمہ ،وائٹ مٹن ،چانپ ،چکن شاشلک،سندھی بریانی بنوائی اورپھرچراغِ رُخِ زیبالے کر”اتحادی سربراہوں”کے انتظارمیں بیٹھ رہے لیکن ہوایہ کہ اسفندیارولی بیمار”پَڑ” گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن کو اچانک مہمان ” پَڑ”گئے ، الطاف بھائی توہوتے ہی لندن میں ہیں البتہ چودھری شجاعت ضرورآئے لیکن زرداری صاحب کویہ سمجھانے کے لیے کہ ”مِٹی پاؤ ، مِٹی پاؤ”۔ افطاری سے پہلے اچھّے بھلے سمجھ دارزرداری صاحب کویہ توسوچ لیناچاہیے تھاکہ بھلاشیر کے مُنہ میںہاتھ ڈالنے کوکون تیارہوگا؟۔ اب پیپلزپارٹی کہہ رہی ہے کہ زرداری صاحب نے توجو کچھ کہا ،سابقہ آمروںکے لیے کہا۔ سوال مگریہ کہ مانے گاکون؟۔جب زرداری صاحب کہتے ہیں”آپ کوتین سال رہنااور چلے جاناہے ،پھر ہم نے ہی رہناہے” توکیا وہ ایوب ،یحییٰ اور ضیاء کی روحوںسے مخاطب تھے یا ”بمار شمار”پرویز مشرف سے؟۔ اگر زرداری صاحب نے اپنی روش نہ بدلی تو وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ آنے والے دن ان پر بہت بھاری پڑنے والے ہیں۔