تحریر : ابو الہاشم ربانی انڈیا کی ریاست گجرات میں2002ء میں مذہبی فسادات اور قتل عام اس وقت شروع ہوا جب گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں آگ لگنے سے59انتہا پسند ہندو ہلاک ہوئے۔گجرات میں ریاستی حکومت نریندر مودی کی تھی۔الزام مسلمانوں پر لگایا گیا انسانی سماجی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت اور سرپرستی میں منظم منصوبہ بندی سے فسادات کروائے گئے۔ جن میں 2500مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم عورتوں کی عصمت دری اس قدر کی گئی کہ پانچ سال کی معصوم بچی سے لے کر 70سال کی بوڑھی عورت تک کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔پولیس تماشائی بنی رہی اور کوئی کردار ادا نہ کیا۔بلکہ حقیقت یہ ہے گجرات کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے قتل وغارت کی خود سرپرستی کی۔وفاق میں بھی بی جے پی کی حکومت تھی فسادات اور قتل عام کو کنٹرول کرنے کی کوئی سرے سے کوشش ہی نہیں کی گئی۔
نریندر مودی نے 8سال کی عمر میں راشٹرایہ سویم سیوک سنگھ کے رضا کار کی حیثیت سے خود کو رجسٹر کرایا۔نریندر مودی نے ملک کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا عزم رکھنے والی آرایس ایس میں اپنی پوزیشن بہت محنت اور انتہائی تعصب سے مستحکم کی۔پارٹی کے بارے میں ان کے مصمم عزائم اور پختہ یقین یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ مسلمانوں کے بارے میں سب سے زیادہ زہریلا ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم اور نہ ہی ان کی نیچی ذات آڑے آئی۔آرایس ایس انہیں بلند ترین منصب پر لے گئی۔2001ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے انھیں گجرات کا چارج تو دیا وہ ریاستی انتخابات میں بھی بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔نریندر مودی نے خود کو قومی سطح پر ”قوم پرست”کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔وہ سول سرونٹس کو جو بھی ہدایات دیتے ہیں وہ اس پر خوشی سے عمل کرتے ہیں۔ نریند مودی کو گجرات کے ریاستی فسادات کا ذمہ دار قرار دے کر امریکا نے 2005ء میںانہیں امریکی ویزہ دینے سے انکار کیا تھا۔
3جون2015ء دنیا کا مقبول ترین انٹرنیٹ سرچ انجن “Google”پر بھارت کے 10سب سے بڑے مجرموں کی تلاش پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر سرفہرست ہے۔ فسادات کے وقت بی جے پی کے لیڈر بھی نریندر مودی کو برطرف کرنا چاہتے تھے۔نریندر مودی نے بحیثیت وزیراعلیٰ جس کی حکومت میں2500 سے زائد مسلمان زندہ جلائے گئے، مسلمانوں کے 18ہزار مکانات تباہ ہوئے، 2لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے۔ بھارت کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور کئی انسانی و سماجی حقوق کی تنظیموں نے گجرات حکومت کو فسادات روکنے میں ناکام قرار دیاتھا۔ نریندر مودی نے مسلم کش فسادات کے حوالے سے کچھ نہیں کیا پریشانی کا باعث نہیں جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ ذہنوں میں بہت شکوک شبہات پیدا کرتے ہیں۔ مایا کوڈیانی جو صوبائی کابینہ کارکن تھاا حمد آباد میں شر پسندوں کے ساتھ ملکر فسادات کرتا رہا اور ایف آئی آر میں نامزد ملزم تھا۔2009ء میں گرفتاری تک مودی کی صوبائی کابینہ کا رکن رہا۔
Supreme Court
سپریم کورٹ اور اہم اداروں کی طرف سے انہیں”نیرو”کے مشابہ قرار دینے کی پرواہ بھی نہیں کی۔نیرو رومن شہنشاہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تب نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مودی نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ اس امر سے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ راشٹریا سیوک سنگھ میں مودی کی مقبولیت مسلم دشمنی ہی ہے۔سورت جیسے شہر میں فسادات اس سے زیادہ شدت اختیارکرتے ہوئے نظر آتے تھے۔پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے پھیلنے سے روک دیا مگر گجرات کے مسلم اکثریت علاقوں ضلع انند،شیخ محلہ،سردار پورہ،گلبرگ سوسائٹی،نروڈا گائوں،نہرودا پاٹیا اور کالو پور میں منظم طور پر مسلمانوں کی نسل کُشی ہوئی۔گلبرگ سوسائٹی اور نیرودا پاٹیا کے مکین 13سال گزرنے کے باوجود بھی آج تک واپس اپنے علاقوں کو نہیں لوٹ پائے۔گجرات میں لگاتار اقلیتی عورتوں پر ظلم تشدد کے اثرات کا معائنہ کرنے کے لیے دہلی، بنگلور، احمدآباد، تامل ناڈو سے6 افراد پر مبنی ایک وفد5 دن کے لیے 27فروری تا3مارچ2002ء کو بھیجا گیاتاکہ علاقے میں ظلم تشدد کی جو وارداتیں ہوئیں ان کی پڑتال کی جائے۔
6رکنی وفد نے اپنے آنکھوں دیکھے حالات ومشاہدات کو ایک کتابی شکل میں قلم بند کیا بعنوان ”گجرات جن کی جان بچی ان کے آنکھوں دیکھے بیانات”۔ اس کتاب سے گجرات کا تشدد، قتل عام اور عصمت تار تار۔۔۔ کی کہانی ظاہر کی گئی ہے۔ ان حادثات کو جن عورتوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ویڈیو سے ریکارڈ کردہ مناظر کو بھی ہمیں دیکھایا ۔ جلائے ہوئے گھروں پر تحریریں تھیں”مسلمانو!ہندوستان چھوڑ کر باہر آباد ہوجائو۔۔۔۔۔۔ ورنہ تمہاری مائوں کو۔۔۔۔۔۔ جیسے وحشت ناک اورغیر مہذب نعرے لکھے ہوئے تھے۔ایسی ہی دل خراش داستان ایک لڑکی کی زبانی سنیے ۔ کہتی ہے ‘ ‘گنگودری کی رہائش گاہوں سے ہمیں باہر نکالنے کے بعد جلتے ہوئے ٹائروں کو ہاتھو ں میں لئے ہجوم کی شکل میں لوگوں نے ہمیں بگانا شروع کردیا۔ اس وقت بستی سے کمسن بچیوں کی انہوں نے عزت لوٹی، ہم نے ایسے آٹھ دس واقعات کو دیکھا۔ سولہ سالہ مہرالنساء کے کپڑے اتارے گئے وہ لوگ بھی اپنے آپ کو ننگا کررہے تھے اور عورتوں کی طرف بھیڑیوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔
جگہ جگہ گلیوں میں عورتوں سے انہوں نے بدفعلی کی۔ میں نے دیکھا ایک کمسن بچی کی شرم گاہ کو کاٹ کر پھاڑ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان تمام عورتوں کو زندہ جلا دیا گیا۔کوئی بھی ثبوت نہ چھوڑا گیا”۔ (کتاب نارودا پاٹیا احمد آباد28فروری2002ئ، صفحہ 5)۔ اگر ہمت ساتھ دے تو دل پر ہاتھ رکھے ایک اور منظر دیکھ لیجیے ” کٹو اور سارا کو میں نے فرزانہ کی عزت لوٹتے ہوئے دیکھا۔ فرزانہ کی عمر تقریبا13سال ہوگی وہ حسین نگر کی رہنے والی تھی۔ فرزانہ کے پیٹ میں انہوں نے ایک لوہے کی سلاخ گھسیڑ دی ۔ بارہ سالہ نور جہاں کی عزت بھی لوٹی گئی۔ اس کی عزت لوٹنے والے بھی کٹو، نریش،ہریااور سارا تھے۔ سرکاری بس چلانے بھوانی سنگھ وغیرہ کو میں نے پانچ مرد اور ایک بچے کا خون کرتے ہوئے دیکھا۔( شاہ عالم کیس 28 فروری 2002ئ) کبیر گائوں کاآیا ہجوم شام کے قریب5بجے جو بھی ان کی نظر میں آیا پکڑ کر جلانا شروع کردیا۔ میری 23سالہ بیٹی سمیت علاقے کی تمام عورتوں کی عزت لوٹی۔ میری بیوی دو بیٹے اور بیٹیاں سب کے سب زندہ جلا دیئے گئے(کتاب گجرات صفحہ2)۔ بچوں کے مدرسے مذہبی تعلیم کے مراکز ہوتے ہیں ان بچیوں اور معلمات کی مدرسوں میں عزتیں لوٹی گئیں اور زندہ جلا دی گئیں۔ احمد آباد میں گانگریس سے تعلق رکھنے والا سابق رکن پارلیمان احسان جعفری گلبرگ سوسائٹی میں ان کی رہائش گاہ پر69 افراد سمیت ان کو قتل کردیا گیااور گھر کوجلا دیا گیا۔ 2ہزار افراد نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ وہ بے شمار ٹیلی فون کال مقامی انتظامیہ کو کرتے رہے لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ 520مساجد، مدارس، در گاہیں اور قبرستان تباہ و برباد کر دیئے گئے۔
India
یہ سب سوچھی سمجھی سازشیں نہیں تو کیا ہیں؟ ہندوستان کی تاریخ میں اتنی بڑ ی مذہبی تباہی وبربادی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔احمد آباد میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی ۔ پولیس کہتی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ٹائمز آف انڈیا جیسے صحافت کے نام نہاد علمبردار نے بھی کہا ایسا کوئی بھی واقعے کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔ سندوش اخبار جھوٹ کے بنڈل کھول رہا تھا ۔ دی ٹائمز آف انڈیا نے بھی اپنے اخبار میں صرف ایک عصمت دری کے واقعے کے متعلق لکھا ہم لوگ وہاں موجود تھے ہم ان رپورٹرز اور صحافیوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے تو سوال پر انہوں نے جواب دیا ”ایسی خبریں پھیلانے سے فسادات مزید پھیلتے ہیں”۔ ریاستی عدالتوں کی کاروائی مشکوک ٹھہری تو سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ احسان جعفری کی بیوہ کی درخواست پر تفتیشی ٹیم تشکیل دے گئی اور 2008ء میں ایک کمیشن بھی بنایا گیا۔تفتیشی ٹیم اور کمیشن نے تو نریندر مودی سمیت بہت سے مجرموںکو کلین چٹ دینا تھی جو بڑی صفائی کے ساتھ دے دی گئی۔
بے گھر ، لٹے افراد کو ریاستی حکومت نے پچاس ہزار روپے کے معاوضہ کا اعلان کیا تھالیکن یہ رقم ان تک نہیں پہنچی ۔ مرکزی حکومت نے فی کس سات لاکھ روپے کی امداد دے دی تھی جسے ریاستی حکومت نے کچھ خرچ کرنے کے بعد یہ کہہ کر واپس کر دی کہ اس کی ضرورت نہیں۔ ”سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس” نامی تنظیم نے اس سلسلہ میں گجرات ہائی کورٹ میں مقدمہ کر رکھا ہے کہ یہ امداد حقوق انسانی کی تنظیموں کے ذریعے متاثرین میں تقسیم کی جائے۔ اس سے پہلے جتنے فسادات ہوئے ان سب سے بڑھ کر اس فساد میںگجرات کی عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی حفاظت کا ذمہ پولیس کا تھا لیکن انہوں نے بھی ان فسادیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر پرزور حملہ کیا ہے۔ حملہ آوروں کی پولیس والے نہ صرف مدد کرتے بلکہ قیادت کرتے ہوئے انہیں اُکساتے اور حملے کے لیے نشاندہی بھی کرتے۔ میونسپل کیمٹی کے ملازمین لسٹوں کے ساتھ مسلمانوں کے علاقوں، گھروں اور افراد کی نشاندہی کرتے تھے۔
مسلمان جب پولیس کو مدد کے لیے پکارتے تو حملہ آور نعرے لگاتے کہ ”پولیس ہمارے ساتھ ہے” ۔ اگر پولیس والوں سے سوال ہوتا کہ مسلمانوں کی مدد کرو تو وہ صاف کہتے کہ ہمارے اعلیٰ افسران کا حکم ہے کہ ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے ۔ فسادیوں پر گولی چلانے کے بجائے مسلمانوں کو گولیاں ماری جاتیں ۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ بھی پولیس کی دہشت گردی کو حق بجانب کہتے ہیں(گجرات پولیس کا کردار: صفحہ 24-25)۔ احمد آباد میں اسمبلی میں بی جے پی کے ایم ایل اے مایا گوت سے ہمارے وفد کی ملاقات ہوئی ۔ نروداپاٹیا کے فسادات میں خود حصہ لینے والے ہیں۔ایک ایف آر میں ان کا نام بھی درج ہے (کتاب گجرات: دوسراباب صفحہ 21)۔ صبر کندا ضلع لکشمی پور گائوں کے پنچایت پرسیڈنٹ ناتی بن سے وفد کی ملاقات۔ کہتے ہیں لکشمی پور گائوں میں ایک ہزار مسلمان رہتے تھے۔ اب وہ گائوں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب وہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا ۔ (کتاب گجرات : صفحہ82) ۔ گودھرا ریل کے جلانے کے مقدمہ کی چارج شیٹ میں تبدیلی (بشکریہ وڈیل و للی اگست 2002ء ) 1۔ 28 فروری 2002ء کو گودھرا میں ایک ریل گاڑی کا ڈبہ جلایا گیا تھا۔ لیکن مسلمانوں پر تہمت ڈا ل کر ایک قتل عام کر دیا ان فاشسٹوںنے۔ 2۔ فسادات، عصمت دری اور قتل عام کیا ہندو حملہ آوروں نے لیکن حکومت کے دستاویزوں میں ملزموں کے خانوں میں مسلمانوں کے نام درج کر رکھے ہیں۔ 3۔ پہلے کہا گیا اس مقدمہ میں ”بلال ” ہی اصل ملزم ہے اسی بنیاد پر کئی ظلم ڈھائے گئے مگر بعد میں بلال کو اہم ملزم کی فہرست سے نکال کر معمولی ملزم قرار دیا گیا۔ 4۔ چھ ماہ بعد ایک نیا ملزم دھونڈنکالا ۔۔۔۔۔ ان کا نام ہے رزاق کُر کُر تھا۔ اس کو ملزم بنانے کے لیے دو گواہ بھی لائے گئے لیکن ان کا اب تک کہیں بھی اتہ پتہ نہیں۔ 5۔ ایک گواہ دلیپ سنگھ کہتا ہے کہ حاجی بلال کی صدارت میں مسلمانوں کو سابرمتی ایکسپریس کو جلاتے ہوئے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
Muslims
حاجی بلال ایک بیوپاری تھا لیکن حاجی بلال ایک بیوپاری نہیں بلکہ ایک ٹیچر ہے۔ تو ثابت ہوا جس دن گودھرا کا حادثہ ہوا وہ گودھرا میں موجود ہی نہیں تھا۔ حاجی بلال گودھرا سے 25 کلو میٹر دور ”نبرد” گائوں کے اسکول میں بطور ٹیچر کام کر رہا تھا۔ حکومت کی شرمناک چالیں ہی تھیں کہ عدالتوں میں اپنی جانب سے سرکاری وکیل کے طور پر ایسے وکلا کو نامزد کیا ہے جو پہلے فساد کے ملزمان کے وکیل رہ چکے ہیں۔ ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں ونود ڈی گجر کو بحیثیت وکیل نامزد کیا ہے۔ جو گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے30ملزمان کے وکیل ہیں۔ پولیس گواہان کو پریشان کر رہی ہے، ان کے تحفظ کا کوئی انتظام نہیں۔
دسمبر2002ء میں اجتماعی قبر کا انکشاف بھی ہوا تھا ۔سی جے پی کے رابطہ کار رئیس خان کی موجودگی میں اس قبر سے21لاشوں کو نکالا گیا تو پتا چلا ان لوگوں کو اجتماعی طور پر قتل کرکے تمام لاشوں کو ایک ساتھ دفن کردیا گیا۔ گودھراریل حادثہ سے ملی اشیاء کی جانچ پڑتال کرنے والے ماہرین کی رپورٹ سچائی پیش کرتی ہے۔1۔ ڈاکٹر ایم ڈاکیا سیپشلسٹ ہیں۔گودھرا ریلوے اسٹیشن پر جلنے والے ڈبے جس سے آگ لگائی گئی۔اس کے بارے میں رپورٹ دی گئی ہے کہ وہ ڈبہ اس علاقے کا نہیں بلکہ وہ آگ لگانے والا ڈبہ ریل کے اندر سے مسافر ہی سیٹ نمبر72کے نیچے رکھ کر لائے ہیں۔ 2۔ریل کے پورے ڈبے کو جلانے کے لیے کم از کم60لیٹر ایندھن کی ضرورت ہے۔
60لیٹر ایندھن کو کوئی باہر سے یکدم اندر پھینک نہیں سکتا ۔ لہٰذا یہ60لیٹر ایندھن بھی اندر ہی سے مہیا کیا گیا۔3۔ماہرین کے مطابق گودھرا ریل اسٹیشن سے جیسے ہی ریل نکلی تھوڑے ہی عرصہ میں خطرہ کی زنجیر کھینچ کرر یل رکوادی گئی ۔ اند رسے بس والوں نے فوراََکھڑکیوں کو بند بھی کردیا ۔ تو بھلا بند کھڑکیوں سے باہر سے اندر چیز کیسے پھینکی جاسکتی ہے؟ اس سے جیتا جاگتا ثبوت یہ کہ جوریل کا ڈبہ زیادہ جلاتھا وہ اندرسے زیادہ جلاہوا پایا گیا۔ شہادت پیش ہوئی تھی کہ سلمان نامی ایک شخص نیچے سے آگ لگا رہا تھا تو ڈبہ نیچے زیادہ جلا ہوا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ مشہور قاتل مودی کی حکومت میں حصہ لینے والے ان کے وزیر داخلہ گوردان بائی جڈابیا دھڑا دھڑ بیان دے رہے تھے ۔یہ سارے بیانات وشو ا ہندو پریشد اور بجرنگ دل والوں کے بیانوں کی ہو بہو عکاسی کررہے تھے۔ وہ بنیاد پرست مسلمانوں اور پاکستانی محکمہ آئی ایس آئی پہ الزام لگارہے تھے ۔ جب یہ سب حقیقت سامنے آ گئی تو اب معلوم یہ ہوا کہ تمام جھوٹ تھا ]گجرات صفحہ 92-95[۔یہ کالے کرتوت انڈین وزیر اعظم ٹاپ 10 نریندر مودی کے۔۔۔۔۔ بقول شاعر تم ہی قاتل تم ہی منصف معلوم تھا کہ قصور ہمارا نکلے گا۔