تحریر : چوہدری ناصر گجر ایک دن جنگل میں شیر کو کوئی شکار نہ ملا تو اُس نے ایک گیدڑ کو پکڑ لیا گیدڑ نے اپنی جان بچانے کی خاطر شیر کو کہا کہ جنگل کے بادشاہ میری جان بخش دو میں آپ کو ایک شکار لا کر دیتا ہوں اس بات پر شیر راضی ہو گیا گیدڑ جنگل میں شکار کی تلاش میں نکل پڑا آخر کار اُسے ایک گدھا نظر آیا گیدڑ نے گدھے کو کہا کہ آپ کا جاہ و جلال کسی بادشاہ سے کم نہیں حقیقت میں آپکو جنگل کا بادشاہ ہونا چاہیے۔
آئو مل کر شیر کے پاس چلتے ہیں اور آپ کو شیر کے تخت پر بٹھا کر شیر کو بھگا دیتے ہیں گدھا گیدڑ کی باتوں میں آگیا اور اُس کے ساتھ چل پڑا آخر جیسے ہی شیر کے پاس پہنچا تو شیر نے گدھے پر حملہ کر دیا اور اُسے کھا گیا جب شیر گدھے کا دماغ کھانے لگا تو وہاں دماغ موجود ہی نہ تھا شیر نے گیدڑ سے پوچھا کہ اس میں تو دماغ ہی نہیں تب گیدڑ نے کہا کہ اگر دماغ ہوتا تو جنگل کا بادشاہ بننے کی کبھی نہ سوچتا۔اسی طرح کا حال عوام کے ساتھ روزگار اسکیم نے کیا غریب اور پڑھے لکھے بے روزگار جوانوں کو سبز باغ دکھائے گئے کہ اُن کا اپنا روزگار ہو گا اور یہ عوامی حکومت ہے۔
آپ لوگوں کے دُکھ کو سمجھتے ہوئے کئی سہولیات دے رہی ہے عوام اُن کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی اور روزگار کی لالچ میں آکر حکومت کی طرف سے عائد کیے گئے قوانین کے مطابق دھڑا دھڑ درخواستیں جمع کرانے لگ گئی درخواستوں کے حصول میں ہی حکومت پنجاب نے شرط عائد کی کہ دو ہزار روپے ناقابل واپسی ہیں شروعات ہی میں عوام سے اس مد میں حکومت نے کروڑوں روپے کمائے اُس کے بعد ٹریننگ کے نام پر فی آدمی پندرہ سو روپے وصول کیے گاڑی ملنے کے عمل کے دوران کئی چکر عوام کوبینک اور دیگر اداروں کے لگانے پڑے اور انتہائی بد سلوکی اور بد تمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔بینک ملازمین اوردیگر سرکاری ملازمین اس طرح کا سلوک کرتے کہ یوں گمان ہوتا جیسے مفت میں حکومت اُنہیں یہ گاڑیاں دے رہی ہے آخر کار دھکے کھانے کے بعد چند افراد کو اللہ اللہ کر کے سبز رنگ کی گاڑیاں ملیں تب اُن گاڑی مالکان کے لیے ایک نیا عذاب مزید شروع ہو گیاوہ جہاں سے گزریں وہیں ٹریفک پولیس اور وارڈنز اُن کی تاک میں کھڑے ہوتے اور بغیر کسی قانون کی خلاف ورزی کے پہلے ہی چالان بُک پر نمبر لکھ کر پرچی ہاتھ میں تھما دیتے تاکہ یہ بات واضح رہے کہ یہ گاڑی حکومت نے دی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع پر بھی حکومت کا ہی حق ہے۔
آپ لوگ تو مفت کے ملازم ہو محنت کر کے پیسے کمائو اور چالان کروا کر وہی پیسہ واپس حکومت تک پہنچائو۔اسی طرح کے ایک خوش نصیب ڈرائیور کو میں بھی جانتا ہوںجسے وزیر اعلیٰ پنجاب کی روزگار اسکیم میں سے ایک گاڑی ملی جس کی خوشی میں اُس نے اپنے رشتہ داروں اور حلقہ احباب میں خوب مٹھائیاں تقسیم کیںگاڑی ملنے کے چار دن بعد وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ میری گاڑی کا چالان ہو گیا ہے کیوں کہ میرے پاس روٹ پرمٹ نہیں آپ مہربانی کر کے میرے ساتھ چلیں اور مجھے روٹ پرمٹ بنوا دیںمیں اُس کے ساتھ روٹ پرمٹ بنوانے گیا تو وہاں موجود اہلکار نے کہا کہ تین سال کے پرمٹ کی فیس پینسٹھ سو روپے ہے اپنے کاغذات کی نقل اور پیسے دے جائودو دن بعد پرمٹ مل جائے گا میں نے عرض کی کہ جناب سرکاری فیس تو پچپن سو روپے ہے جس پر اُس اہلکار نے کہا کہ پرمٹ بنوانا ہے تو یہی فیس لگے گی میں اُس سے بحث کرنے لگا تو میرے ساتھ والے شخص نے مجھے روک دیا کہ میں نے اپنا روزگار کمانا ہے یہ فیس بھر کر تو مجھے کوئی تنگ نہیں کرے گاآخر کار پندرہ دن کے بعد وہ پرمٹ ملا ایک دن مجھے اُسی شخص کی گاڑی میں جھنگ سے لاہور جانا پڑا موٹر وے پر ایک جگہ موٹر وے پولیس نے روکا اور کاغذات چیک کر کے جانے دیا۔
Punjab Government
لاہور میں داخل ہونے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ سبز گاڑی چلانا کسی بڑے جرم سے کم نہیںشیرا کوٹ سے نکلتے ہی ایک اصغر نامی وارڈن نے رکنے کا اشارہ کیا اور گاڑی کے رکتے ہی گاڑی نمبر چالان رسید پر لکھنے لگامیں اور گاڑی ڈرائیور فوری اُترے اور چالان کی وجہ پوچھی ہماری بات کا جواب دینے کی بجائے وارڈن نے شناختی کارڈ، لائسنس،رجسٹریشن کاپی اور روٹ پرمٹ کا مطالبہ کر دیاجب تمام چیزیں دکھا دیں توچالان پر پانچ سو روپے لکھ کر رسید ہاتھ میں پکڑا کر شناختی کارڈ رکھ لیا میں نے استفسار کیا کہ کس وجہ سے چالان کیا تو جواب ملا کہ سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی میں نے کہا کہ جناب اس طرح ظلم نہ کرو غریب آدمی پر۔سیٹ بیلٹ اُس نے گاڑی روک کر آپ سے ملنے کے لیے کھولی تھی اور ویسے بھی یہاں جتنی گاڑیاں گزر رہی ہیں سب نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی اُنہیں تو آپ نہیں روک رہے اور اِس غریب آدمی کا بلا وجہ نا جائز چالان کر دیا لیکن اُس وارڈن نے ایک نہ سُنی اور کہا کہ چالان جمع کروائیں بحث نہ کریں چالان جمع کروانے کے بعد روانہ ہوئے تو کچھ دور جانے کے بعد پھر وارڈن نے روک لیا اسی طرح باری باری ہر چوک پر اسی گاڑی کی تاک میں کھڑے وارڈنز نظر آئے اور تو اور ستم ظریفی یہ کہ ریسکیو 15کے پولیس اہلکاران بھی روک کر لائسنس کا مطالبہ کر ڈالا ۔مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس گاڑی میں سفر کرنا ایک گناہ کبیرہ ہے۔
شاید تمام قوانین اسی پر لاگو ہوتے ہیںواپسی پر جب جھنگ پہنچے تو وہاں ٹریفک اہلکار نے روک کر چالان کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ لائسنس کار کا ہے اپنا لائسنس تبدیل کروائو اُسے کہا کہ اسی لائسنس کی بناء پر گاڑی ملی ہے تو یہ غلط کیسے ہو سکتا ہے لیکن جواب ندارد۔یہ صورتحال دیکھ کر مجھے اُس ڈرائیور کی حالت پرانتہائی دُکھ ہو رہا تھا جب کہ وہ بیچارہ بُجھا ہوا بیٹھا تھا شاید وہ یہ سوچ رہا تھا کہ ایسی روزی کا کیا فائدہ جس میں صرف گھاٹا ہی گھاٹا ہو سارا دن کے محنت کے بعد گھر چالان کی رسیدیں لے کر جا رہا ہوںیہ رسیدیں میرے بچوں اور بوڑھے ماں باپ کے کیا کام آئیں گی ان رسیدوں کو دے کر مجھے ایک وقت کی روٹی بھی نہیں میسر ہو گی وہ یہ سوچ رہا ہو گا کہ ایسے روزگار سے تو بہتر ہے کہ پتھر توڑنے کی مزدوری کر لی جائے تاکہ شام کو کھانے کے لیے چند روٹیاں تو میسر آ سکیں۔دل ہی دل میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی شاید کچھ ایسی دعائیں دے رہا ہو گا جن سے اللہ کا قہر جوش میں آئے میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ ڈرائیور نے مجھے کہا کہ آپ میرا ایک کام کر دیں۔
میری یہ گاڑی کہیں بکوا دیں تاکہ جو پیسے میں نے ادھر اُدھر سے ادھار لے کر یہ گاڑی لی وہ واپس کر سکوں اور کوئی باعزت روزگار تلاش کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوںورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ایسے حالات کی وجہ سے خود کشی کر کے اس دار فانی سے کوچ کر جائوں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے ایسے ظالم حکمرانوں اور کرپٹ سرکاری اہلکاروں سے نجات مل جائے۔میں اُس کی یہ بات سُن کر دم بخود رہ گیا اور انسانیت کے ناطے میں نے اسے پیسے دینا چاہے تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا کہ مجھے بھیک نہیں چاہیے۔میری محنت کی کمائی چھین کر اگر حکومت کا بھلا ہوتا ہے تو ایسے ہی سہی میں بھی قیامت کے دن اللہ رب العزت کے ہاں دہائی دوں گا یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔قارئین آپ نے بھی اکثر یہ دیکھا ہو گا کہ سرکاری اہلکار روزگار اسکیم کی گاڑیوں کو روکتے اور اُن کے بلاوجہ چالان کررہے ہوتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کی یہ روزگار اسکیم غریبوں کے لیے نہیں بلکہ اُن کی محنت کی کمائی چھین کر خزانہ بھرنے کے لیے ہے بہت خوبصورتی سے عوام کو بے وقوف بنا کر انہیں نوچ نوچ کر کھایا جا رہا ہے آخر شیر کی حکومت ہے ناں۔