تحریر : پیر سید الہی شاہ بادشاہ اِنَّ رَجُلاً یَأتِیْکُمْ مِنَ الْیَمَنْ، یُقَالُ لَہُ: اُوَیْسٍ، لاَ یَدْعُ بِالْیَمَنِ غَیْرَ اُمٍّ لَہُ قَدْ کَانَ بِہ بِیَاض، فَدَعَا اللّٰہُ فَذَھَبَہُ عَنْہُ اِلاّ مَوْضِعَ الْدِّیْنَارَ أوْ الْدَّرْھَمْ فَمَنْ لَقَیْہِ مِنْکُمْ فَلْیَسْتَغْفِرْ لَکُمْیقینا تمہارے پاس یمن سے اویس نام کابلندمرتبہ شخص آئے گا ۔یمن میں وہ صرف اپنی والدہ کے باعث مقیم ہے۔اس نے اللہ عزوجل سے دعا مانگی پس اللہ عزوجل نے اس سے مرض کودور فرما دیا ، صرف ایک دینار یا درہم کی جگہ باقی رہ گئی ۔تم میں سے جس کی ملاقات اس سے ہو جا ئے تو ان سے دعائے مغفرت کی درخواست کرے ۔ صحیح مسلم کتاب ٤٤،باب ٥٥ حدیث ٢٢٣/٢٥٤٢، اِنَّ خَیْرَ الْتّابِعِیْنَ یُقَالُ لَہُ: اُوَیْسٍ تابعین میں بہترین شخص اویس ہے ۔مستدرک حاکم حدیث ٥٧٢٠،صحیح مسلم کتاب ٤٤،باب ٥٥ حدیث ٢٢٤/٢٥٤٣، وَلَہُ وَالِدَةٍ ھُوَ بَھَایِزْ، لَوْ اُقْسِمْ عَلَی اللّٰہِ لَأبَرَّةُ وَکَانَ بِہ بَیَاض فَمَرُوْہُ فَلْیَسْتَغْفِرْلَکُمْ وہ اپنی والدہ کے ساتھ احسن سلوک کرتا ہے ۔اگر وہ کسی بات پر اللہ عزوجل کی قسم کھائے تو اللہ عزوجل اس کی قسم پوری فرماتا ہے ۔اس کے بدن پر ایک سفید داغ ہے تو تم اُن سے استدعا کرو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ مستدرک حاکم حدیث ٥٧١٩،صحیح مسلم کتاب ٤٤،باب ٥٥ حدیث ٢٢٥/٢٥٤٤، خَلِیْلِْ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ أوَیْسُ الْقَرَنِْ اس امت میں میرا دوست اویس ِقرنی ہے ۔ طبقات ابن ِ سعد ٦/١٦٣ ، سَیَکُوْنَ فِْ اُمَّتِْ رَجَل یُقَالُ لَہُ اُوَیسُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْقَرَنِْ وَأنْ شَفَاعَتُہُ فِْ اُمَّتِْ مَثَلُ رَبِیْعَةَ وَمَضَرٍ میری امت میں ایک شخص ہوگا جنہیں اویس بن عبداللہ قرنی کہا جائے گا ۔ان کی شفاعت سے میری امت میںسے ربیعہ ومضر (قبائل) کے آدمیوں کے برابر لوگوں کو اللہ عزوجل بخش دے گا ۔کامل ابن ِعدی ٧/٧٠
خَیْرُ الْتّابَعِیْن اَلاَحَیَّیْتَ عِنَایَا مَدِیْنا، أوَیْسُ ذُوالْشِّفَاعَةِ کَانَ مِنّا فَیَوْمَ الْبَعْثَ نَحْنُ الْشَّافِعُوْنَا، وَکَانَ أوَیْسُ مِنْ خَیَارِ الْتّابَعِیْناً دِعْبَلِ خُزّاعِْ فرامین ِنبوی کے آئینے میں تابعین کے سرتاج ،صوفیا کے سرخیل سیدنا ابوعمروْاویس بن عامر عبداللہ مرادی قرنی دس ہجری میں امیرالمومنین علی ابن ِابی طالب کے ہاتھوں چالیس سال کی عمر میںمشرف بہ اسلام ہوئے اوراپنے قبیلے بنی مذحج کے ساتھ آپ کے دست ِاقدس پہ بیعت فرمائی ۔آپ کے فضائل ومناقب میں آپ کی سیرت ِمطہرة کا یہ پہلو قابل ِغور ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کا سن کربغیر مشاہدہ ومعجزات کے انہوں نے اپنے سینے کو عشق ِ مصطفٰی سے معمور کر لیا ۔قربت رکھنے والے قُوْمُوْا عَنِّْ کا مصداق ہوئے تو تمام عمر شرف ِزیارت سے محروم رہ کر بھی حبیب ِخدا کے اس فرمان سے شرفیاب ہوئے ، اِنّْ لأجِدُ نَفْسُ الْرَّحْمٰنَ مِنْ قِبَلِ یَمَنْ ،میں یمن کی طرف سے جنت کی خوشبو پاتاہوں۔اویس ِقرنی!میں آپ کو دیکھنے کا مشتاق ہوں ۔ جو بھی اُن سے ملاقات کرے میرا سلام اُن تک پہنچائے ۔ (أثْبَاتِ الْھُدَاةْ بِالْنَّصُوْصِ وَالْمُعْجِزَاتْ شیخ حر عاملی ج ٣ ص٤٦، اَلْفَضَائِلْ شیخ ابوالفضل شاذان ص١٠٧،بِحَارُالْأنْوَارْج٤٢ص١٥٥) سالک ِدِل یافتہ نکہت ِروح القدس چوں نبی ٔ یثربی بوی اویس ِقرن خواجو کرمانی حضرت أوَیْسِ قَرَنِْبِنْ عَامِرْعَبْدُاللّٰہْ بِنْ جَزْئَ بِنْ مَالِکْ بِنْ عَمْروْ بِنْ سَعَدْ بِنْ عِصْوَانْ بِنْ قَرَنْ بِنْ رُدْمَانْ بِنْ نَاحِیَةْ بِنْ مُرَادْ بِنْ مَالِکْ بِنْ اُدَدْ بِنْ مَذْحَجْ کے چھٹے داداقرن نام کے تھے جس باعث آپ بنی قرن یا قرنی ،نانویں داد امراد کی نسبت سے مرادی اور بارہویں داد امذحج کے باعث بنی مذحج یا مَذْحَجِْ معروف ہوئے ۔بنی مذحج اوئل ِاسلام ہی سے جانثار وسرفروش مجاہدین ِحق کا قبیلہ ہے جس میں مالک ِاشتر نخعی مرادی اور کمیل بن زیاد نخعی مرادی تاریخ ِ اسلام میں نمایاں ہیں بنی مذحج بیشتر مقامات پہ تحفظ ِاسلام کا ہراول دستہ رہے اور پیغمبر وآل ِپیغمبر نے ان نفوس ِقدسیہ کی تحسین فرمائی۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ بنی مذحج جنت میں بلند مقامات رکھتے ہیں ۔بنی مذحج کے آٹھ سو جوان صفین کی جنگ کے دوران مالک ِاشتر کی زیر کمان تھے جن میں ایک سو اسی شجاعت وشہامت کے جوہر دکھلاکر دشمنوں کی صفیں زیر وزبر کرتے جام ِشہادت سے سیراب ہوئے جن پہ مباہات کرتے جانشین ِپیغمبر علی ابن ِابی طالب نے فرمایا،”وَعَنْ یَمِیْنِْ مَذْحَجُ الْقَمَاقِمْ، وَعَنْ یَسَارِْ وَائِلِ الْحَضَارِمِ ” میرے دائیںطرف مذحج کے شہسوار ہیں اور میرے بائیں وائل کے رئوساء ہیں۔ وَقَدْ صَبَرَتْ عَکّ وَّلَخْم وَحِمْیَر، لِمَذْحَجٍ حَتّٰی أوْرَثُوْھَا تَنَدُّمَا وَنَادَتْ جُذَام بِالْمَذْحَجٍ وَیَحْکُمْ، جَزَی اللّٰہُ شَرّاً اَیَّنَا کَانَ اَظْلَماً عک ،لخم اور حمیر (قبائل )نے بنی مذحج کے مقابلے میں صبر کیا یہاں تک کہ مذحج نے انہیں پریشان کردیا۔جذام نے مذحج کو پکارا کہ افسوس تم پر اور خدا ہم میں سے ظالم کو برا بدلہ دے ۔ سیدنا مسلم ابن ِعقیل نے آخری سانسوں میں بنی مذحج کے شہسواروں کو یاد کیا ،”فَاقْسِمْ لَوْ لاَ جَئِیْکُمْ آلَ مَذْحَجٍ وَفِرْسَانِھَا وَالْحَرُّ فِیْھَا الْمَقَدَّماً ”سرخیل ِتصوف، صاحب ِخرقۂ نبوی بہ صدق ِلہجہء بوذر ،بہ حق ِآہ ِاویس بہ سالکان ِطریقت ،بہ رہروان ِصفا بہ عارفان ِحقیقت گزین غم پرور کہ نیست شان ِزغم حق بہ خویشتن پروا اہل ِتصوف میں آپ ”زُہّادِثَمَانِیَةْ” (آٹھ تابعین جنہوں نے اصحاب ِکبار سے احادیث ِنبوی کی سماعت واشاعت کی۔
Owais e Qarni Zareeh
أبُوْیَزِیْد رَبِیعْ بِنْ خَثِیْم ثَوْرِْ اَلْکُوْفِْ ، ہَرِمْ بِنْ حَیَانْ الأبْدِْبَصْرِْ، أوَیْسِ قَرَنِْ، أبُوْعَمْروْعَامِرْ بِنْ عَبْدِ قَیْس تَمِیْمِْ اَلْعَنْبَرِْ بَصْرِْ، أبُوْمُسْلِمْ عَبْدُاللّٰہْ بِنْ ثَوْبْ الْدَّرانِْ خُوْلاَنِیْ، أبُوْعَائِشَةْ مَسْرُوقْ بِنْ اَلْأجْدَعْ اَلْوَادَعِْ اَلْھَمَدَانِْ، حَسَنْ بِنْ أبِیْ حَسَنْ بَصْرِْ، سُوَیْد بِنْ یَزِیْد مفصل حالات وتفاصیل کے لیے شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی دمشقی٦٧٣ تا ٧٤٨ھ ،١٢٧٤تا١٣٤٨ء کی نابغہ ٔ روزگار سِیَرْأعْلاَمِ الْنُّبَلاَء و اَلْمُعِیْن فِْ طَبْقَاتِ الْمُحَدِّثِینْ ملاحظہ فرمایئے ۔)میں سے ہیں اور صوفیا وسالکین ِخداکی ایک بڑی تعداد خود کو سلسلہ أوَیْسِیَہْ سے منسوب کرتی ہے ۔تصوف کی معتبر کتاب تذکرة الائولیاء کے مئولف ابوحمید بن ابراہیم (١١٤٥تا١٢٢١ء ) فرید الدین عطا رِنیشاپوری سیدنا امام جعفر صادق کے بعد دوسرے نمبر پر قبلۂ تابعین ،قدوئہ اربعین ،آفتاب ِپنہاں ،نفس ِرحمان ،سہیل ِیمنی اویس ِقرنی کے ضمن میں آپ کا تذکرہ کرتے لکھتے ہیںکہ سرکار ِدوعالم ۖنے آپ کے بارے میں آگاہ کرتے فرمایا،”ان کی شناخت یہ ہے کہ بدن پر بال ہیں اور ہتھیلی کے بائیں پہلو پرایک درہم کے برابر سفیدرنگ کا داغ ہے لیکن وہ برص کا داغ نہیں، جب اُن سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہنچانے کے بعد میری امت کے لیے دعا کرنے کا بھی پیغام دینا ۔پھر جب صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کے خرقہ کا حقدار کون ہے تو فرمایا: اویس ِقرنی ” در عشق ِتو دندان شکست است بہ الفت توجامہ رسانیداویس ِقرنی راقرنی راقرنی را ہر کس کہ لب ِترادیدہ بہ دِل گفت حقا کہ چہ خوش کندہ عقیق ِیمنی رایمنی رایمنی را مولاناعبدالرحمان جامی صدقہ لینے نور کا آیا ہے
تارانور کا گر بہ یثرب اتفاق افتدکہ روزے بگذرید نالہ وآہ ِاویس اندر قرن یادآورید خواجو کرمانی سیدنا اویس ِقرنی عشق ِرسالت سے معمور تھے لیکن ضعیف نابیناوالدہ جنابہ ”بَرّائِْ” (طائر ِخوش الحان)کی خدمت کے باعث زیارت سے شرفیاب نہ ہوسکے ۔ایک دن عشق نے جوش دکھلایا تو والدہ سے فقط نصف روزقیام کی اجازت لے کرقرن یمن (بحیرئہ احمر کے کنارے ،موجودہ یمن جمہوریہ کے شہراَلْحُدَیْدَةْکے گائوںزابد)سے عازم ِمدینہ ہوئے ۔مدینہ پہنچے تو حبیب ِکبریاکسی مصروفیت کے باعث شہر سے باہر تھے ۔بادل ِنخواستہ دہلیز پہ بوسہ دے کر واپس آگئے ۔ سرکارِ دوعالم واپس آئے تو اہل ِخانہ سے پوچھا کہ میرے گھر میں یہ کیسا نور ہے ؟عرض کیا گیا کہ حضور یمن سے آپ کی زیارت کی خواہش لیے اویس نام کا شتربان آیا تھا جو غیرموجودگی میں دہلیز پہ سجدہ ریز رہا اور سلام عرض کر کے چلا گیا۔ سرور ِاصفیا نے فرمایا کہ یہ اُسی کا نور ہے جو میرے گھر کو منور کیے ہے ؛”رُوَِ عَنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ أنَّہُ قَالَ: تَفْوَحُ رَوَائِحَ الْجَنَّةَ مِنْ قِبَلِ قَرَنٍ، وَا شَوْقَاہُ اِلَیْکَ یا أوَیْسَ الْقَرَنِْ! اَلا وَمَنْ لَقَیْہ فَلْیَقْرَاہُ مِنِّْ الْسَّلاَمْ، فَقِیْلَ: یا رَسُوْلَ اللّٰہ! وَمَنْ أوَیْسِ الْقَرَنِْ؟ فَقَالَ: اِنْ غَابَ عَنْکُمْ لَمْ تَفْتَقِدُوْہُ وَاِنْ ظَہَرَ لَکُمْ لَمْ تَکْتَرِثُوْا بِہْ، یُدْخِلُ الْجَنَّةَ فِْ شَفَاعَتِہ مَثَلُ رِبِیْعَةَ وَمَضَرٍ، یُؤمِنُ بِْ وَلاَ یَرَانِْ، وَیُقْتَلُ بَیْنَ یَدِْ خَلِیْفَتِْ أمِیْرِ الْمُؤمِنِیْنَ عَلِْ اِبْنِ أبِْ طَالِبٍ فِْ صِفِّیْنٍ” اَلْرّوْضَةْ فِْ فَضَائِلِ أمِیْرِ الْمُؤمِنِیْن، شَاذَانْ بِنْ جِبْرَائِیْل اَلْقُمِّْ، أثْبَاتِ الْھُدَاةْ لِلْشِّیْخ حُرِّ الْعَامَلِْ ١/٢٧٦ صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نورکا تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا سر جھکاتے ہیں ”الٰہی !بول بالانور کا” شمع دِل، مشکوٰة تن ،سینہ زجاجہ نور کا تیری صورت کے لیے آیا ہے سورة نور کا تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا نور نے پایا تیرے سجدے سے سیما نور کا حضرت اویس ِقرنی کی والد ہ سے پوچھا گیا کہ آپ کے فرزند نے یہ مقام ومرتبہ کیسے پایا کہ رسول ِخدا نے انہیں سلام بھجوایااور مناقب عیاں کیے تو انہوں نے کہا کہ وہ اوائل ِحیات ہی سے تفکر وگہرے مشاہدے میں مستغرق رہتے اورنصائح قبول کرتے تھے ۔سرکار ِدوعالم ۖنے حضرت اویس ِقرنی کا سراپا بیان کرتے فرمایا ،”سیاہی مائل نیلگوں آنکھیں،سانولی رنگت ،معتدل قامت ،قرآن کی تلاوت کے وقت گریہ کناں ،سادہ لباس ،زمین پہ گمنام لیکن آسمان پہ معروف ہے ۔”آپ ۖحضرت اویس کو سید التابعین ،شفاعت گر ِوالا مقام ،محبوب ِرسول ِخدا ،نفس ِرحمان (صاحب نفس ِملکوتی وقدسی صفات )کے القاب سے یاد فرماتے تھے ۔بقول ِرومی ؛ کہ محمد گفت بردست ِصبا،از یمن می آیدم بوئے خدا بوئے رامین می رسد از جان ویس ،بوئے یزداں می رسد ھم از اویس ازاویس وازقرن بوئے عجب ،مرنبی رامست کردوپرطرب چوں اویس ازخویش فانی گشتہ بود،آں زمینی آسمانی گشتہ بود ہمسایہ ٔ جبریل ِامیں بندئہ خاکی ابن ِعساکر تاریخ ِدمشق ٩/٤٤٤میں خواجہ ربیع بن خثیم تمیمی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے کوفہ میں اویس کو تلاش کیا اور بہ دقت ِبسیارانہیں ایک کنویں کے کنارے بحالت ِنماز دیکھا۔
خواہش تھی کہ آپ سے گفتگو کی جائے ۔ نماز ِظہر میں مشغول دیکھ کر انتظار میں رہا کہ نماز سے فارغ ہو جائیں تو سلام عرض کروں ۔ آپ نماز ِظہر سے فارغ ہو کر دست بہ دعا ہوئے اور خداوند ِمتعال کی بارگاہ میں مناجات فرمانے لگے تاوقتیکہ عصر کا وقت ہو گیا ۔نماز ِعصر ادا فرماکر آپ نے مناجات شروع کیں کہ مغرب کاوقت آن پہنچا ۔ نمازِ ِمغرب وعشا سے فارغ ہوئے تو نوافل ادا کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ِتہجد کا وقت آن پہنچا ۔ آپ کبھی رکوع کرتے تھے تو کبھی سربسجود ہوجاتے ۔”گہے بر خاک می غلطم ،گہے بر خار می رقصم ”کے مصداق گریہ زاری کرتے تو کبھی تعقیبات پڑھنے لگتے ۔ نمازِشب سے فارغ ہوئے تو فجر ادا فرمانے لگے ۔فجر کی نماز کے بعد رقت آمیز دعا کرتے سورج بلند ہو گیا ۔ اسی اثنا میں میں نے دیکھا کہ چشم ِکم خواب سے محو ِدعا تھے ؛”خداوند!تو جانتا ہے کہ میری آنکھوںمیں نیند کی دِقت اور شکم میںغذا کی قلت ہے ۔بندئہ پرتقصیر کی مغفرت فرما۔بخش دے میرے مالک تو غفار ہے ۔”اسی اثنا میں میں آپ کے قریب ہوا اور موقع پا کر عرض کی ،”حضرت !یہ انداز ِبندگی ”تو میری طرف دیکھ کر فرمایا،”عرش پہ ملائک اس طرح معبو د کے سامنے سربسجود رہتے ہیں چنانچہ یوںہی میں بھی زمین پر رکوع وسجود میں انہماک رکھتا ہوں۔ ” ہزار جان ِگرامی فدائے نام ِعلی فرات کے کنارے شام کے علاقے اَلْرَقَّةْمیں٦٥٧ء کے ماہ ِمئی تا جولائی لڑی جانے والی جنگ ِصفین میں آپ خلیفہ ٔ رسول حضرت علی ابن ِابی طالب کی معیت و نصرت میں حزب ِاسلامی میں شامل تھے۔
Owais e Qarni Turbat
صاحب ِطَرَائِقُ الْحَقَائِقْ جلد دوئم صفحہ چھیالیس پر تاریخ حَبِیْبُ الْسِّیَرْفِْ أخْبَارِ أفْرَادِ الْبَشَرْ(ازصاحب ِ رَوْضَةِ الْصَّفَا فِْسِیْرَةِ الْأنْبِیَائِ وَالْمَلُوْکِ وَالْخُلَفَاء غیاث الدین محمد بن برہان الدین خاوند شاہ بخارائی معروف بہ خواندمیر٨٨٠تا٩٤٢ھ) کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ایک روز اویس ِقرنی دریائے فرات کے کنارے وضو کر رہے تھے کہ طبل کی آواز سنائی دی ۔رہگیر سے پوچھا کہ یہ کیسی صدا ہے تو بتلایا گیا کہخَلِیْفَةُالْمُسْلِمِیْن علی ابن ِابی طالب کالشکر مُعَاوِیَةْ بن ابوسفیان کی بغاوت سے نبرد آزمائی کے لیے شام کو جا رہا ہے ۔سنتے ہی فرمایا،”میرے نزدیک کوئی بھی عبادت علی ابن ِابی طالب کی متابعت سے بڑھ کر نہیں۔ ”یہ فرماتے ہی مولائے متقیان کے خیمے کی جانب روانہ ہو گئے۔ اُدھر امیر المومنین نے ”ذِْ قَارْ ”کے مقام پر لشکر کو رکنے کا حکم دیا اور اصحاب سے فرمایا کہ کوفہ سے ایک ہزار مجاہدروانہ ہو چکے ہیں۔ایک کم نہ ایک زیادہ ،اُن کا انتظارکرو۔ کچھ دیر میں نئے آنے والے لوگوں نے آنحضرت کی بیعت شروع کر دی۔
حضرت عبداللہ ابن ِعباس کہتے ہیں کہ میں نے شمار کیا تو رفتہ رفتہ تعداد نوسوننانوے تک پہنچ گئی۔ کچھ دیر تک یہی تعداد رہی تو میںنے اِنّالِلّٰہِ وَاِنّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہہ کرگمان کیا کہ حضرت نے ایک ہزار کی تعداد کیسے فرمادی ؟ابھی اسی اندیشے میں تھا کہ ناگاہ ایک نووارد کو دیکھا جو صوفیانہ لباس میں ملبوس شمشیر وسناں کاندھے پر،ہاتھوں میں ڈھال لیے چلا آتا ہے ۔وہ امیر المومنین کے قریب ہو کر عرض گذار ہوا کہ ہاتھ بڑھایئے کہ آپ کے دست ِاقدس پہ بیعت کروں امیر المومنین نے پوچھا کہ کس چیز پر بیعت کرو گے تو اس نے کہا کہ آپ کی بے چون وچراں اطاعت واتباع ،آپ کے حضور جہاد فی سبیل اللہ یہاں تک کہ شہادت سے سرخرو ہو کر بارگہ ِخداوندی میں حاضری دوں ۔امیر المومنین نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے ؟عرض کی، اویس ! حضرت نے پوچھا کہ آپ اویس ِقرنی ہیں ؟عرض کی جی ہاں ۔ امیر المومنین نے یہ سن کر فرمایا؛”اللہ اکبر !میرے عزیزو!رسول اللہ نے مجھے بتلایا تھا کہ اُن کی امت میں سے ایک شخص اویس ِقرنی نام کا میری اعانت کو آئے گا ۔ وہ خدا ورسول ِخدا کے لشکر میں سے ہو گا ۔ شہادت سے سرفراز ہو گا اورربیعة ومضر قبائل کے برابر (عاصیوں کی )شفاعت کرے گا۔”تاعمر جہاد ِاکبر کرنے والے اویس ِقرنی کارزارِجہاد ِاصغر میں منافقین کو تہ تیغ کرتے فرماتے تھے ؛ ”لوگو! کام تمام ہوا۔ہر چیز درست انداز میں انجام کو پہنچی ۔میں فردوس ِبریں دیکھ رہا ہوں ۔”روح میں موجزن عشق کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا تو ہاتھوں سے نَاکِثِیْن، قَاسِطِیْنومَارِقِیْن کی گردنیں اڑاتے محو ِدعا تھے ؛ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِْشَہَادَةً تَوَجَبُ لِْالْجَنَّةَ وَالْرِّزْق۔
داتاگنج بخش سید علی ہجویری کَشْفُ الْمَحْجُوْب میں فرماتے ہیں کہ حضرت اویس ِقرنی عمر کے آخری ایام میں حضرت علی سے ملے ،کچھ دن آپ کی خدمت میں رہے پھر جنگ ِصفین میں شریک ہوئے اور حضرت علی کی زیر قیادت شہادت کے مرتبہ کو پہنچے۔احباب نے قبر تیار کی مگر ایک پتھر حائل ہواجسے کاٹنا مشکل تھا مگر غیب سے پتھر میں شگاف پڑ گیا اور آپ کے لیے لحد بن گئی ۔کفن کے لیے کپڑے کی تلاش ہوئی ۔آپ کے صندوقچے کو کھولاگیاتو کفن کا کپڑا پایا گیا جسے کسی انسانی ہاتھ نے نہیں بنا تھا ۔اسی کفن میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ اے دِل غلام ِشاہ ِجہاں باش وشاہ باش پیوستہ در حمایت ِلطف ِالٰہ باش اِمروز زندہ ام بولائے یا علی فردا بہ روح ِپاک ِاماماں گواہ باش شمس الدین حافظ شیرازی سیدنا امام موسیٰ کاظم فرماتے ہیں کہ بروز ِمحشر ندا آئے گی پیغمبر اسلام کے اصحاب کہاں ہیں ؟جو اپنے عہد پہ باقی رہے تو سلمان وابوذراور مقداد دمکتے چہرے کے ساتھ اپنا تعارف کروائیں گے ۔پھر نداآئے گی کہ حضرت علی کے اصحاب کہاں ہیں ؟جس پہ عمروْبن حمق خزاع، محمد بن ابو بکر ،میثم بن یحییٰ تمار،ا وراویس ِقرنی اپنا تعارف کروائیں گے ۔ قَامُوْسُ الْرِّجَالْ لِلْشّیْخ مُحَمَّدْ تَقِْ تُسْتُرِْ٢/٢١٩-٢١٨، مُعَجِّمُ الْرَّجَالْ آیَةُ اللّٰہِ خُوْئِ ٣/٢٤٧