تحریر : انجم صحرائی تو ایسے حالات میں تحریک انصاف کے قیام کا اعلان ہم جیسے نظریاتی کارکنوں کے لئے تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند تھا۔تحریک استقلال کے بینر تلے ہم نے ہمیشہ چہرے نہیں نظام کو بد لو کے نعرے لگا ئے تھے ہماری سیاسی جدو جہد جتنی بھی تھی اور جیسی بھی تھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف رہی تھی ہمارے لئے یہ ایک خوش آئیند خبر تھی کہ انٹی فیوڈل اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف اور تحریک انصاف نے بھی نظام بد لنے کا نعرہ لگایا تھا اور ایک نئے سیاسی اور سماجی پاکستان کی بات کی تھی۔
پیشہ ور سیا ستدا نوں کی جگہ عام آدمی کے اقتدار کی بات کی تھی ٹھریک انصاف کے ان ابتدائی دنون میں لیہ میں جو متحرک لوگ عمران خان کو ملے ان میں احسان اللہ خان لو دھی ، ضیاء اللہ خان ناصر ، سید غلام رضا شاہ رضوی۔ چوک اعظم سے غلام عباس زیدی جیسے عام سیاسی کارکن نمایاں تھے یہ سال1997کی بات ہے جب تحریک انصاف نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا انہی دنوں تحریک انصاف کی جانب سے ایک اخبار میں شا ئع ہو نے والے ایک چھوٹے سے اشتہار میں انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حا صل کر نے کے خواہشمند افراد سے در خواستیں طلب کی گئی تھیں در خواست کے ساتھ فیس تو شا ید زیادہ تھی لیکن میں نے ایک ہزار روپے کے ڈرافٹ کے سا تھ صوبا ئی حلقہ لیہ کے لئے اپنی درخواست تحریک انصاف پنجاب کو بھیج دی ۔کچھ دن ہی گذرے تھے کہ مجھے تحریک انصاف لا ہور سے ایک فون کال کے ذر یعہ انٹر ویو کے بلا وے کی اطلاع مو صول ہوئی۔
حسب پرو گرام جب میں وہاں پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ لیہ سے قو می اسمبلی کے لئے ظفر اقبال مغل ۔ اور صو با ئی اسمبلی کے لئے احسان لو دھی ، رضا رضوی اور چوک اعظم سے غلام عباس زیدی نے بھی درخواست دی ہو ئی ہے اور وہ بھی تحریک انصاف کی ٹکٹ حا صل کر نے کے خوا ہشمند ہیں ۔وہاں جا کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ فیاض بخاری ڈیرہ غا زیخان تحریک انصاف کے آ ر گنا ئزر ہیں اور احسن رشید پا رلیما نی بورڈ کے سر براہ ، ہمارے ایک دوست نواب صاحب فیاض بخاری اور ہمارے مشرکہ دوست تھے اور یوں فیاض بخاری سے کہہ لیں کہ ہماری قدرے شنا شا ئی تھی جب کہ احسن رشید ہمارے تحریک استقلال کے پرا نے دو ستوں میں سے تھے سو ہم خا صے پر امید تھے کہ اب سیاست میں سیا سی کار کنوں کی بات چلے گی اور ہمیں زعم تھا کہ بحیثیت سیاسی کارکن ہمارا میرٹ واضع ہے لیکن ایک بات جو ہمیں ما یوس کئے جا رہی تھی کہ سسٹم اور نظام تبد یل کر نے کی داعی جماعت کے کرتا دھرتائوں میں تمام مر کزی کردار تقریبا وہی تھے جن کے آ با ئو اجداد ہمیشہ اقتدار کی غلام گر دشوں کے اسیر رہے ۔میں نے وہاں جنو بی پنجاب ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر اعلی کے بیٹے کو بھی دیکھا جو غالبا پارٹی کے پا رلیمانی بورڈ کے ممبر تھے ۔انٹر ویو ز کا سلسلہ شروع ہوا۔
Ahsan Rasheed
احسن رشید نے میرا انٹر ویو لیا دوران انٹر ویو وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ تحریک استقلال کے کارکن نئی پارٹی تحریک انصاف کو سنجید گی سے لے رہے ہیں ۔ان کی رائے تھی کہ ہو نے والے الیکشن میں تحریک انصاف کو ئی بڑی نیوز تو شا ید نہ دے سکے لیکن اگر ہم منا سب سیاسی امیدوار سامنے لا نے میں کا میاب ہو گئے تو تحریک کا پیغام گھر گھر پہنچا نے میں کا فی مدد مل سکے گی انٹر ویو کے کئی گھنٹوں کے صبر آزما زنتظار کے بعد خبر ملی کہ پارلیما نی بورڈ کو تو مجھے امیدوار بنا نے پر تیار ہے لیکن لیہ سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے خواہشمند واحد امیدوار ظفر اقبال مغل کی ہمدردیاں میرے بجا ئے احسان لو دھی کے ساتھ ہیں اور یوں ظفر اقبال مغل قو می اور احساناللہ خان لو دھی تحریک انصاف کے صوبائی حلقہ لیہ سے ٹکٹ ہو لڈر بن گئے ۔ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوا تو ہم بھی حسب روائت امیدواروں کی قطار میں تھے اور ہم نے بھی حلقہ پی پی 216 کے لئے آ زاد امیدوار کی حیثیت سے کا غذات نا مزدگی جمع کرائے ۔ ہمارے کا غذات تو منظو کر لئے گئے لیکن مشروط ، مسئلہ یہ بنا کہ ہم محکمہ ٹیلیفون کے ایک عر صہ سے مبلغ نو ہزار کے نا دہندہ تھے جو ہم ایک عر صے سے بھو لے ہو ئے تو نہیں تھے بلکہاپنے مخصو ص معاشی حالات کے سبب ادا ہی نہیں کر سکے تھے جب ہم کا غذات نامزدگی جمع کرانے ریٹرننگ آ فیسر کے دفتر پہنچے تو اپنی اس نا دہند گی کا علم ہوا ۔آ ر او صاحب نے بکمال شفقت ہمیں یہ مہلت دی کہ ہم کاغذات کی جانچ پڑتال کے دن تک محکمہ ٹیلیفون کی ادا ئیگی کر دیں تو ہمارے کا غذات منظور تصور ہوں گے وگر نہ رجیکٹ ۔ اور یوں یہ وعدہ کر نے پر ہمارے کا غذات مشروط منظور کر لئے گئے۔
اللہ بخشے ہمارے ایک صحا فی دوست ہوا کر تے تھے محمد شفیق میو ۔ مرحوم کسی زمانہ میں ہو ٹل کیا کرتے تھے اور ان کے ہو ٹل کی بنی کڑا ہی بڑی چسکے والی ہوا کرتی تھی اسی وجہ سے یار لو گوں نے انہیں شفیق چسکا کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ہماری ان سے بڑی پرا نی یاد اللہ تھی اس وقت سے جب ہم ا ان کے کیفے ارم میں التخلیق کے اجلاس منعقد کیا کرتے تھے اور آج کے نو جوان ادیب اور قلمکار مرزا مبشربیگ سمیت بہت سے ہو نہار ان اجلا سوں میں شر کت کر کے اپنی علمی و ادبی پیاس بجھا یا کرتے تھے ۔ نہ جا نے کیا انقلاب آیا کہ شفیق میو ہو ٹل چھوڑ صحا فی بن گئے ۔ خیر جس دن ہم نے کا غذات نا مزدگی جمع کرائے شفیق میو بھی ہمارے ہمراہ تھے ۔ ہماری نا دہند گی بارے جان کر انہوں نے ہمیں کہا کہ پر یشان نہ ہوں آپ کا مسئلہ میرے ذ مہ ۔ میں ملتان آ فس جا تا ہوں اور ان بقایا جات کی انسا لمنٹ کرا لا تا ہوں اور ساتھ ہی محکمہ سے این او سی بھی ۔ یہ این او سی ہم مقررہ تا ریخ کو ریٹرننگ آ فیسر کے دفتر میں جمع کرادیں گے تو پھر کو ئی مسئلہ نہیں ہو گا شفیق میو نے کہا انجم بھا ئی آپ پر یشان نہ ہوں یہ میرے ذمے رہا۔
اس طرح شفیق میو کی اس یقین دہا نی کے بعد ہم کاغذات نا مزدگی جمع کرانے کے بعد الیکشن مہم میں شروع ہو گئے ۔ میرے پرانے ساتھیوں میں سے شیر خان اس الیکشن میں میرے ساتھ بڑے متحرک تھے ۔ عوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میں ہم دوستوں نے بڑی سوچ و بچار کے بعد یہ طے کیا کہ اس الیکشن میں کچھ نیا کیا جا ئے ہمارے پاس اتنے وسائل تو نہیں تھے کہ ہم گاڑیوں کے لا ئو لشکر کے ساتھ بستی بستی قر یہ قریہ اپنی بات پہنچاتے سچی بات یہ تھی کہ ہم دوستوں کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ میں پی ٹی سی ایل کے بقایا جات مبلغ نو ہزار روپے یکمشت جمع کرا سکتا ایسے میں طے یہ پا یا کہ لیکشن مہم کے سلسلہ میں حلقہ انتخاب کے آ خری شہر پہاڑ پور سے لیہ تک مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن ، اقربا پروری جیسی برا ئیوں کے خلاف احتجاجی پیدل مارچ کے ذریعہ عوامی رابطہ مہم کا آ غاز کیا جا ئے ۔پروگرام کے مطا بق ہمارہ یہ تین روزہ احتجاجی پیدل مارچ کا آ غاز 6 جنوری کو صبح 10 بجے پہاڑ پور سے ایک کار نر میٹنگ سے ہوا پہاڑ پور میرا آ بائی علا قہ ہے وہاں ہمارے کئی دوستوں کی اڈے پر دکا نیں بھی ہیں لیکن مجھے یہ دیکھ کر انتہا ئی دکھ اور افسوس ہوا کہ جب ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا کسی ایک دوست نے بھی ہمارا ہم سفر بننا گوارہ نہ کیا میرے ساتھ اس احتجاجی پیدل مارچ میں شیر خان ،مبارک افغا نی ، مظفر فو جی اور چو ہدری اعظم شب و روز میرے ساتھ رہے یہ ایک تھکا دینے والی مگر ما لی طور پر آ سان عوامی رابطہ مہم تھی ہم نے اپنی اس عوامی رابطہ مہم کے پرو گرام بارے ہینڈ بل چھپواکر پہلے ہی تقسیم کر دئے تھے میں نے ان تین دنوں کے پیدل مارچ میں بیسیوں کارنر میٹنگ سے خطاب کیا۔
Protest March
ایک رات کوٹ سلطان میں ڈاکٹر اللہ بخش جو ما موں اشتیاق مرحوم کے داماد ہیں ہمارے میزبان بنے ( کوٹ سلطان کے ما موں اشتیاق مشفق اور محسن شخصیت جن کی میرے شب و روز زندگی میں بڑی اہمیت ہے ان کا ذکر انشا ء اللہ آ گے آ ئے گا ) اور دوسری رات جمن شاہ میںمنہاج القرآن کے نو جوان سا تھی برادرم مختیار حسین گجر کے گھر شب بسری کی ۔ اس تین روزہ پیدل مارچ کے دوران ہو نے والی کار نر میٹنگز میں میرا مو ضوع علاقائی سیاست میں صدیوں سے چھائے ہو ئے سدا بہار وہ کردار تھے جنہوں نے با اقتدار اور با اختیار ہو تے ہو ئے بھی اس دھرتی میں بسنے والے عام لو گوں کو ما یو سی کے علا وہ کچھ نہیں دیا تھا یہ ایک مشکل مو ضوع تھا جسے میرے یہ دوست بڑی مشکل سے ہضم کر پا رہے تھے لیکن ایک دن ان کا یہ پیمانہ صبر ٹوٹ ہی گیا ہوا یوں کہ جمن شاہ اڈے پر ہو نے والی ایک کار نر میٹنگ میں اس وقت صورت حال خراب ہو گئی جب ایک عام سا میرے جیسا مزدور بندہ علا قائی خانوں ، ملکوں اور مہروں پر ہو نے والی تنقید کا برا منا تے ہو ئے آ پے سے با ہر ہو گیا وہ میری اس بات پر مشتعل ہوا تھا کہ میں نے یہ کیوں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم استحصال کے مارے مو چی ، نا ئی ، پاولی اور غریب لوگ اپنے ہا تھوں میں پتھر اٹھا لیں اور صدیوں سے عوامی راج پر قابض ان ملکوں ، خانوں ، مہروں اور پیروں سے نجات حا صل کرلیں۔
یہ بات سنتے ہی اس نے میری تقریر کے دوران مجھے گا لیاں نکا لنا شروع کر دیں اس کی لن ترا نیاں سن کر میرے دوستوں کا رد عمل بھی شدید ہو نے لگا ہی تھا کہ وہاں مو جود مقامی تاجروں اور دیگر لو گوں نے صورت حال کو زیادہ بگڑنے نہیں دیا اور مزدور بندے کو سنبھال لیا ۔مارچ کا دوسرا دن تھا جب مجھے ایک بڑا مجمع خطاب کے لئے میسر آیا وہ اس طرح کہ اس دن بند جمن شاہ کے قریب بیلوں میں مقا بلہ کا ایک میلہ تھا اس میلہ میں بیلوں کو رہٹ میں جوت کر بھگا یا جا رہا تھا نشیب اور تھل کے علا قہ کی کئی بستیوں اور مواضعات کے بہت سے لوگ بیل دوڑنے کا یہ میلہ دیکھنے کے لئے وہاں مو جود تھے۔
ہمارا قا فلہ جب وہاں پہنچاتو میلہ ختم ہو نے کو تھا لو گوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو ہماری لا ئوڈ سپیکر لگی سو زو کی وین کے قریب آ کر جمع ہو گئی یہ بات تو میں شا ئد آپ کو بتا نا بھول ہی گیا کہ ہمارے چار کے ٹولے کے ساتھ ایک سوزو کی وین بھی ہماری ہم سفر تھی ہم نے اس سوزو کی وین پر ایک لا ئڈ سپیکر لگا یا ہواتھا ۔ جب کارنر میٹنگ ہو تی تو یہ لا ئوڈ سپیکر مقررین کی تقاریر کے لئے استعمال ہو تا اور عام اوقات میں اس سے قومی ترانے اور انقلابی گیت نشر کئے جا تے ۔ شیر خان اور میں نے وہاں دھواں دھار جذ با تی قسم کی تقا ریر کیں ایک بڑے مجمع نے ہماری باتوں کو بڑے غور سے سنا تالیاں بھی بجا ئیں اور نعرے بھی لگا ئے کا میاب کار نر میٹنگ کے بعد ہم تھوڑا ہی آ گے چلے تھے کہ سا منے سے آ نے والی ایک جیپ ہمارے ساتھ آ کر رک گئی جیپ میں ملک تھے ۔۔۔۔۔با قی اگلی قسط میں