تحریر : مجید احمد جائی آپ نے سائیکل اسٹینڈ کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ ہاں ہر روز نہیں تو کبھی کبھی یہ نام سننے کو ملتا ہے کہ فلاں پیر کے عرس پر سائیکل اسٹینڈ لگا ہوا ہے۔ لوگوں کی تفریح کے لئے دیہاتوں، میلوں ٹھیلوں پر ،لاری اڈوں کے ساتھ کھلے میدان میں سائیکل اسٹینڈ لگائے جاتے ہیں۔ کہیں بھی رنگ برنگی جھنڈیاں نظر آئیں تو خیال فورا سائیکل اسٹینڈ کی طرف چلا جاتا ہے۔یہاں خواجہ سرائ،روپ زنانہ میں کرتب دیکھا کر لوگوں کو لطف اندوز کرتے ہیں اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔
نذرانوں کی بات چل نکلی تو ذرا ہسپتالوں، کورٹ کہچریوں کی طرف چلتے ہیں۔یہاں جگہ جگہ آپ کو بورڈ نظر آئیں گے،جس پر یہ لفظ درج ہوں گے،سائیکل اسٹنیڈ اِس طرف ہے،کار اسٹینڈ اُس طرف ہے وغیرہ وغیرہ۔یہاں تک تو بات ٹھیک ہے مگر اسکولوں میں اسٹینڈ کا بورڈ لگا ہو،یا بورڈ کی جگہ کوئی شخص بورڈ کا روپ دھارے کھڑا ہو تو تعجب ہوتا ہے۔
اسکولوں میں یہاں طلبہ علم حاصل کرنے جاتے ہیں ،امتحان دینے جاتے ہیں اور ان سے سائیکل اسٹینڈ کی مد میں نوٹ وصول کیے جائے تو حیرت کا شدید جھٹکا تو ضرور لگے گا۔آج کل گرمیوں کی چھٹیاں ہیں ،مگر اسکولوں میں یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے امتحان جاری ہیں۔ایک طرف گرمی نے ناک میں دم کر رکھا ہے،پھر رحمتوں کا بابرکت مہنیہ بھی ہے۔دوسری طرف دیناوی امتحانات ،رہی سہی کسر مافیا نے نکال لی ہے۔اسکولوں میں سائیکل کھڑی کرنے کے کے بیس روپے اور اگر موبائل جمع کروایا جائے تو بیس روپے اور دینے پڑیں گے۔ہاں جی یہ صورت حال مسلم ہائی اسکول ملتان کی ہے،جس میں پھچلے دنوں اپنے دوست کے ساتھ پیپر دے رہے تھے۔کیا ان لوگوں کو حکومت نے حکم جاری کیا ہے؟من مانی کی حد ہوتی ہے؟
Corruption
تعلیم حاصل کرنا گویا گناہ ہی ہو گیا۔قانونی اداروں کی بغل میں بیٹھ کر یہ کام ہو رہے ہیں۔مافیا نے اسکولوں کو نہیں چھوڑا افسوس قانون بنانے والے جب لمبی طان کر سو جائیں،قانون والے جب قانون کی خلاف ورزیاں کرنے لگے تو معاشرے میں بگاڑ نہیں تو کیا امن کے چرچے ہوں گے۔آج ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے۔ہر کوئی دونوں ہاتھوں بلکہ پائوں سے بھی دولت اکٹھی کرنے میں لگا ہوا ہے۔انسانیت،احساس رہ ہی نہیں گیا۔کرپشن کا جن مستانہ ہوا جاتا ہے۔سرکاری اداروں کی دیکھا دیکھی میں پرائیوٹ اداروں نے رشوت لینا معمول بنایا لیا ہے۔عدالت میں چلے جائیں یا تھانے میں ذلیل و خوار ہو کر نکلے گے۔عدالتیں حکم جاری کرتی رہ جاتی ہیں عمل درآمد آج تل نہیں ہوا۔جس ملک میں وزیراعظم کو گیارہ سیکنڈ کی سزا دی جائے وہاں قانون کے ساتھ کھیلواڑ نہیں تو اور کیا ہے۔قانون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ادویات میں جعلی سازی عام ہو رہی ہے۔بازاروں میں خالص اشیاء کا مل جانا خوش بختی سمجھا جانے لگا ہے۔افراتفری کا عالم ہے۔جس کے ہاتھ میں جو لگے لے اڑوکا فارمولا لاگو ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے جعلی ڈگریاں تک دستیاب ہیں۔آپ انگوٹھا شاپ ہیں تو کیا ہوا۔گبھرایئے نہیں آپ بھی کسی نہ کسی وزارت پر حق رکھتے ہیں۔
افسوس صد افسوس یورپ والے ہمارا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے۔اورہم اہل مسلم ہو کر ،پاک وطن کے باسی ہو کر ناپاکی،حرام خوری، رشوت، حق تلفی کرتے ہیں۔غریبوں کو ،مسکینوں کو رونڈتے جاتے ہیں۔یتیموں کا حق کھائے جاتے ہیں۔دولت ،دولت ،دولت کی گردان کرتے جاتے ہیں۔دین اسلام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔میں حیران ہوں کوئی عئیسائی،یہودی ،دین اسلام کی گستاخی کرئے ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔مگر اپنے گریبنوں میں جھانکنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ہم تو اپنے ہی ہاتھوں دین اسلام کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔جھوٹ ہم بولتے ہیں،حرام ہم کماتے ہیں،حرام ہم کھاتے ہیں،بددیانتی ،لوٹ مار،سودی کاروبار ہم کرتے ہیں،ملاوٹ ہم کرتے ہیں ۔رسم و رواج ،ثقافت،رہن سہن کوئی ایک بھی دین اسلام جیسا نہیں ہے۔پھر کہاں کے مسلمان،کہاں کے دین اسلام کے الارم الاپنے والے۔دین اسلام بھائی چارے کا درس دیتا ہے اور ہم بھائی کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔خون کی ندیا ں بہا رہے ہیں۔عزتوں کے جنازے اٹھا رہے ہیں۔پھر ہم میں اور ان میں فرق ہی کیا ہے۔
ہم سارے الزام حکومت پر تھونپ کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔کیا حکومت نے کہا کہ نماز ترک کرتے جائو،حکومت نے کہا کہ رشوت لو ،اپنے فرض سے بددیانتی کرو۔اپنے رزق میں حرام شامل کرو،حکومت نے کہا کہ شراب نوشی کرو،جواء کھیلو،اپنی عورتوں کو بے آبرو کرتے جائو۔کرپشن کرو،خون بہاو،قتل کرو،امن تباہ کرو۔دہشت گردی پھیلائو۔کمال ہے۔سارے الزام حکومت پر اور ہم سرخرو،واہ بھائی واہ،پھر ہمیں بھی سائیکل اسٹینڈ پر جاکر کرتب ہی کرنے چایئے۔کیوں کہ ہم سے بڑھ کر جوکر نہیں،جو اپنے دین کے ساتھ بھی مذاق کرتا ہے،اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔