تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 17 جون کو ہمیں بیک وقت دو تقاریب میں شرکت کرناتھی ۔انتہائی محترم الطاف حسن قریشی صاحب نے PC میںپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(PINA )کے زیرِ انتظام سیمینارمیں شرکت کاحکم دے رکھاتھا جبکہ فلیٹیزہوٹل میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے پروگرام میںجانا بھی ضروری تھاکیونکہ اِس ٹرسٹ کے کارنامے محیرالعقول اورٹرسٹ کے اربابِ اختیارکی تعلیم وتعلم کے لیے کاوشیںلائقِ تحسین۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ سے میراقلبی لگاؤ اِس لیے بھی ہے کہ عمرِعزیز کاغالب حصّہ پڑھتے ، پڑھاتے گزرا۔ اِس لیے اپنی تمامتر مصروفیات کے باوجودٹرسٹ کے پراگراموںمیں شرکت کرتی رہتی ہوں۔ویسے بھی یہ ایک فیملی پروگرام تھاجس میںانورمسعود کی شاعری سے لطف اندوزہونے کاموقع مل رہاتھا ۔الطاف حسن قریشی صاحب کاحکم اورغزالی ٹرسٹ کی کشش، دونوںتقاریب میںشرکت ضروری لیکن ”اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے رہے”کا خطرہ بھی موجود۔ میرے میاںپروفیسر مظہرصاحب نے بھائی رؤف طاہرسے مشورہ کیاتو اُنہوںنے چٹکیوںمیں مسلٔہ حل کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے محترم الطاف حسن قریشی صاحب کے سیمینارمیں شرکت کرتے ہیںاورپھرفلیٹیزہوٹل چلے جائیںگے کیونکہ سیمینار چھ بجے شروع ہوگااور فلیٹیز کاپروگرام آٹھ بجے۔
ہم طے شدہ پروگرام کے تحت چھ بجے PC پہنچ گئے ۔سیمینارکی اچھی بات یہ تھی کہ قریشی صاحب نے اہلِ فکرودانش کوتو بلارکھا تھالیکن سیاستدانوںسے گریزہی کیا ۔اگراہلِ سیاست بھی آجاتے تویقیناََ یہ سیمینار ”سیاسی دھوم دھڑکے”میں تبدیل ہوجاتا۔صدرِمجلس سابق سیکرٹری جنرل امورِخارجہ محترم اکرم ذکی اورنظامت کے فرائض معروف تجزیہ نگارمحترم سجادمیر کے ذمے۔دیگراحباب میںپروفیسر سجادنصیر ،سینئرتجزیہ نگارجناب رؤف طاہر ،سابق سفیر جاویدحسین ،میجرجنرل (ر) جاویدحسین ،پروفیسرڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹرسلیم مظہر ، ڈاکٹرعمرانہ مشتاق ،ڈاکٹرصغریٰ صدف اورصوفیہ بیدارکے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عقیل وفہیم احباب شامل تھے ۔سیمینارکا موضوع “A comprehensiv strategy to meet Indian challenge” تھا ۔اہلِ دانش کی اِس گفتگوکا لبِ لباب یہ تھاکہ بھارتی گیدڑبھبکیوں سے مرعوب یامشتعل ہونے کی بجائے ہمیںاپنے آپ کوسیاسی ، اقتصادی اورفوجی اعتبارسے مضبوط کرناچاہیے اورہمارا قومی ہدف یہ ہوناچاہیے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کوپایۂ تکمیل تک پہنچایاجائے کیونکہ اِس کی تکمیل سے عالمی منظرنامہ تبدیل ہوسکتاہے ۔بھارت اشتعال دلاکر ہمیںاپنے اصل ہدف سے ہٹاناچاہتا ہے۔ اب یہ ہمارے سیاسی تدبر کاامتحان ہے کہ ہم مشتعل ہوئے بغیرکیسے اِس مکروہ بھارتی سازش کوناکام بناتے ہیں۔
کوئی دوگھنٹے بعد ،وقفے کے دوران ہم وہاںسے کھسک لیے لیکن بھائی رؤف طاہرنے ہمیںعین موقع پر بالکل اسی طرح دھوکہ دیاجس طرح میاںنواز شریف صاحب نے طے شدہ ملاقات کے باوجود جناب آصف زرداری سے ملنے سے انکارکر دیا۔یہ نون لیگیئے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ فلیٹیزپہنچنے پرپتہ چلاکہ محفل توابھی جمی ہی نہیں ۔ہمیںتھوڑادُکھ ہوا کہ اگرکچھ دیر اور سیمینار میںٹھہر جاتے تواحباب کی پُرمغزگفتگوسے مزیدلطف اندوزہو لیتے ۔نوجوان نورالھدیٰ نے ایک ظلم یہ کیاکہ ہمیںسب سے آگے والی نشستوںمیں لابٹھایا جہاںسے کھسکنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا۔ خُدا خُدا کرکے پروگرام کاآغاز ہواتوغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر سیّد عامرمحمود صاحب نے انکشاف کیاکہ ابھی بہت سے لوگ راستے میںہیںلیکن وقت کی کمی کے پیشِ نظر پروگرام شروع کیاجا رہاہے۔ پتہ نہیںہم پاکستانیوںکی ہمیشہ دیرسے آنے کی عادت کب ختم ہوگی ۔ٹرسٹ کایہ پروگرام رات گیارہ بجے تک جاری رہالیکن پروگرام اِس خوبصورت اندازمیں ترتیب دیاگیاتھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ ویسے بھی جہاںمحترم انورمسعود ہوں وہاںصرف قہقہوںکی بہارہوتی ہے تیزی سے گزرتے وقت کی پکارنہیں۔
Ghazali Education Trust
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی تقاریب میںمیری شرکت کا یہ تیسراموقع تھایقین جانیے کہ مجھے ٹرسٹ کی اتنی تیزرفتارترقی پرہمیشہ حیرت ہوتی ہے۔ یوںتو ٹرسٹ کے اربابِ اختیارخود بھی جوان ہیںلیکن اُن کاعزم جواںتَر۔ یہ اُن کی بیس سالہ جہدِمسلسل کا ثمرہے کہ اُنہوںنے دیہی پاکستان کاسب سے بڑاایسا تعلیمی نیٹ ورک قائم کیاجس کی تعریف عالمی فلاحی ادارے بھی کرچکے ہیں۔ تعلیم وتعلم سے والہانہ عشق کرنے والے اِن لوگوںکافوکس دیہاتوںمیں بسنے والے ایسے مجبورومقہور اورراندۂ درگاہ بچے ہیں جن کے والدین اپنی عسرت کے سبب چاہتے ہوئے بھی اُنہیںعلم کے نورسے منورنہیں کرسکتے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت ٹرسٹ کے 634 سکول ہیںجہاں70 ہزارسے زائد کم وسیلہ خاندانوںکے طلباء وطالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اِن 70 ہزار میںسے 42 ہزارطلباء وطالبات کی مکمل تعلیمی سرپرستی ٹرسٹ کی جانب سے کی جارہی ہے ۔سیّد عامرمحمود نے بتایاکہ ٹرسٹ نے ضلع مظفرگڑھ کے چھوٹے دیہاتوںمیں حال ہی میں240 سکول قائم کیے ہیںجہاں ماہِ جون تک ایسے 12 ہزار بچے رجسٹرڈ ہوکر تعلیمی سفرکا آغازکر چکے ہیںجو اِس سے پہلے کسی بھی حکومتی یانجی سکول میںنہیں جارہے تھے۔
ٹرسٹ نے سپیشل بچوںکی بحالی کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام بھی ترتیب دیاہے جس میںبچوںکو کتابوں ،کاپیوںاور یونیفارم کے علاوہ موسم کی مناسبت سے کپڑے ،عیدین پرتحائف اورماہِ رمضان میںخصوصی فوڈپیکیج بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ٹرسٹ نے ایک قدم اورآگے بڑھتے ہوئے اقلیتوں، خصوصاََہندوؤں کے بچوںکی تعلیمی ضروریات کومحسوس کرتے ہوئے جنوبی پنجاب سے ہندوبچوں کے لیے الگ سکولوںکا آغازبھی کردیاہے جسے مرحلہ وار دیگراضلاع تک پھیلایاجائے گا۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے اربابِ اختیارصنعت کارہیں نہ زمیںدار۔ اُن کاتعلق سیاستدانوںسے ہے نہ لینڈمافیاسے گویااُن کادامن عزم بالجزم سے تومعمور ہے لیکن جیب خالی۔وہ توہم جیسے ہی ہیں،ایک عام پاکستانی ، دردِدل رکھنے والے شہری البتہ اُن کاپاکستانیوںکو علم کے نورسے منورکرنے کاجذبہ لائقِ تحسین ۔ وہ کام جوحکومت کوکرنا چاہیے ،اُس کابیڑا اِن بے لَوث نوجوانوںنے اُٹھارکھا ہے ۔وہ تو ڈھیروںڈھیر نیکیاں کماہی رہے ہیںلیکن کیاہمیںبھی اِن نیکیوںمیں حصّہ نہیںڈالنا چاہیے؟۔
ہمارے دین کاتقاضہ ہے کہ جہاںتک ممکن ہوسکے ، علم کی روشنی پھیلائی جائے ۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے ”رَبّ کوجاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں” اور آقاۖ نے بھی فرمایا”ایک عالم ہزار عابدوںسے وقیع ہے”۔ ہم سمجھتے ہیںکہ اِس ماہِ مقدس میںاگر زکواة وعطیات کااگر کوئی سب سے زیادہ حقدارہے تووہی جووطنِ عزیزکو نورِ علم سے منورکر نے کی تگ ودَو میںہے ۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کااکاؤنٹ نمبر 0007-0081-047153-01-4 بینک الحبیب نیوگارڈن ٹاؤن لاہور ہے جواہلِ ثروت کا منتظرہے۔