تحریر : زاہد محمود تم صرف تین سال کے لئے آتے ہو جبکہ ہم نے یہیں رہنا ہے یہ الفاظ تھے اس شخصیت کے جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان رہے اور پاک افواج کے سپریم کمانڈر رہے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان کوئی بھی ان سے توقع نہیں کر رہا تھا اور خاص طور پر اس وقت جب ہماری افواج ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس میں ہمیں اپنے دشمن کی پہچان نہیں بعد میں بہت ساری وضاحتیں انکی جماعت کی جانب سے جاری کی گئیں لیکن اس بیا ن کی کوئی بھی وجہ سمجھ میں نہیں آتی خاص طور پر اپنے پارٹی کے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے ایسی باتیں کرنا اسکی جس حد تک مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
باقی رہا سوال کسی کے تین سال کے لئے آنے اور کسی کے ہمیشہ رہنے کا تو ان کے اور انکے کارکنان کی خدمت میں صرف اتنا گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ جن پر آپ تنقید کر رہے ہیں وہ ایک ادارہ ہے اور اداروں کو کسی کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کوشش کی جاتی ہے کہ میرٹ پر تعیناتیاں کی جائیں کوئی رشتہ داری یا تعلق نہیں نبھایا جاتا کسی احسان کے بدلے نوازا نہیں جاتا جبکہ یہاں معاملہ الٹ ہے یہاں پر آپکا سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپکے آباؤ اجداد سیاست میں ہوں ڈھیر سارا پیسہ اور اثر و رسوخ ہو ، کسی مشہور شخصیت کے بیٹے ، بھانجے ، بھتیجے ، داماد ، خاوند وغیرہ ہوں تو آپ لیڈر بن سکتے ہیں وگرنہ آپ کارکن تھے ہیں اور رہیں گے ۔ جمہوری معاشروں کی سیاسی جماعتوں کی طرح یہاں پر جماعتی انتخابات کا کوئی مؤثر نظام نظر نہیں آتا ماسوائے ایک نئی جماعت اور ایک پرانی جماعت کے تو آپ کو یہ کہتے ہوئے فخر نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔ آنی چاہئے۔
اب بات کرتے ہیں ان وجوہات کی جن پر یہ اور انکے چاہنے والے اپنے لیڈر کے مؤقف کی وضاحتیں کر رہے ہیں اور پھر میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی کہ جس نے اس بیان کو تو دکھا دیا لیکن ان تمام باتوں کو نہیں دکھایا جو وہ کہنا چاہ رہے تھے یا جو خدشات انکے ذہن میں پنپ رہے ہیں ۔ کراچی میں جاری آپریشن کلین اپ تھوڑے سے اختلافات کے باوجود بھی اپنی بھرپور قوت سے جاری ہے اور اس آپریشن کی جتنی بھی حمایت کی جائے کم ہے لیکن یہاں پر ایک بات جو کہ قابل ذکر ہے کہ ہر ادارہ چاہے وہ کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو اپنی حدود میں رہنا چاہئے اور اپنے حصے کا کام ہی اسکو کرنا چاہئے نہ کسی دوسرے ادارے کے کام میں اسکو مداخلت کرنی چاہئے باوجود ان تما م خدشات کے جو ماضی میں اس طرح کے آپریشنز کے بعد ان اداروں میں پائے جاتے ہیں انصاف کا تقاضایہی ہے کہ ہر ادارے کو اسکی آئینی حدود کا پابند بنایا جائے اور کسی بھی سیاسی جماعت کا نام انکو میڈیا میں دے کر اپنے مقصد کے حصو ل میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہئیں اس سے وہ تمام مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں کو سخت ٹھیس پہنچے گی جو جو لوگ ملوث ہیں انکو ذاتی حیثیت میں میڈیا عوام اور عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔
Pakistan Media
انصاف کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام الزامات کی تفتیش کی جائے اور پھر ان تمام الزامات کو عدالت میں ثابت کیا جائے اور کسی قسم کی سفارش، بد عنوانی اور دھمکی کو رستے میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے بد قسمتی سے ہمارے ہاں کچھ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جو ماورائے عدالت قتل ، کردار کشی اور غیر آئینی اقدامات پر مبنی ہیں جس سے وہ تمام بد عنوان عناصر اور غیر قانونی طور پر دولت کے انبار حاصل کرنے والا مافیا ہمارے نظام قانو ن میں موجود سقم دیکھ کر ان سے فائدہ حاصل کر لیتا ہے اور کسی بھی ایسی کاوش کو جو ملک و قوم کے مستقبل کے لئے اہم ہوتی ہے کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے ۔ میرا مقصد یہاں پر کسی بھی ادارے یا شخصیت کا دفاع و کر دار کشی نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے سیاستدان اس بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ ” ادارے ” اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دوسرے اداروں کے معاملات میں اپنی حدود سے تجاوز کرکے مداخلت کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی تقرریاںکی جاتی ہیں جو انکے ذاتی مفادات سے نہ متصادم نہ ہوں جوانکے ذاتی مفادات کو فلاح عامہ کے مفادات پر ترجیح دیتے ہوں جو انکو سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہوں جو فلاح عامہ کے لئے اٹھائے گئے کسی بھی قدم کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہوں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وصیت میں ایک سابق جرنیل کو اپنے ممکنہ قاتلوں میں شمار کیا تھا لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اسکے ساتھ ساتھ اس وصیت میں کچھ اور لوگ بھی شامل تھے جنکے ساتھ ملکر انکی جماعت وفاق میں حکومت کرتی رہی اور انہی لوگوں کو اپنی سیاسی افطار ی میں بھی دعوت دی گئی ؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محترم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اسی جماعت کے ایک بہت بڑے عہد ے پر موجود شخصیت کو دنیا ” مسٹر ٹین پرسنٹ ” کے نام سے جانتی ہے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انکے دور حکومت میں چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی عدالتی احکامات آئے لیکن کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ انکے ایک بہت بڑے عہدیدار کے گھر سے سیلاب متاثرین کے لئے دیا گیا ترک خاتون اول کا ہار ملا جسکو وہ ایف آئی اے کو واپس کرنے پر تیار بھی ہوگئے ؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے کچھ جرنیلوں نے غیر آئینی اقدامات کیے اور حکومت پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں کہ سیاسی جماعتیں دھاندلی سے اقتدار میں آتی رہیں اور محترم آصف علی زرداری صاحب جنکے دور صدارت میں انتخابات ہوئے وہ یہ فرماتے پائے گئے کہ یہ انتخابات آر اوز کے انتخابات تھے اور ان انتخابات کو انھوں نے تسلیم بھی کر لیا ؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مسلح افواج کے سربراہ کو کسی صورت بھی غیر ملکی سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے نہیں ملنا چاہئے اور ایسا کر کے وہ اپنے اختیارات سے کسی حد تک تجاوز کر رہے ہیں لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں کہ اپنی تاریخ کے نازک ترین لمحات میں ہمارے خارجہ معاملات ” پارٹ ٹائمرز ” کے سپرد ہیں؟
تمام حقیقتیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن ہم اگر یہ توقع کرتے ہیں کہ کوئی ادراہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے تو ہمیں اپنا احتساب خود کرنا ہوگا یا اپنے بنائے گئے احتساب کے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی ہوگی ۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فوج کا کام صرف اور صرف سرحدوں کا دفاع ہے تو ہمیں سرحدوں کے اندر کی حفاظت اور بہتر نظم و نسق کے لئے بہترین ادارے قائم کرنے ہونگے اور تمام غیر ضروری ترقیاتی کام جو کہ انتخابات جیتنے کے لئے کروائے جاتے ہیں کے بجائے اداروں کے قیام اور بہتری پر اپنے وسائل صرف کرنے ہونگے نہیں تو آپ اس بات کا رونا روتے رہیں گے کہ ” ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا” ” ہمارے معاملات میں مداخلت ہورہی ہے ” ” ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں ” میڈیا کے حوالے سے اتنا ہی کہ
اب شاہ سے وہ لکھنے کی لیتے ہیں اجازت ہائے ! یہ صحافت کبھی ہوتی تھی عبادت