Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma
تحریر : حافظ محمد ارسلان بھٹی ہم سارہ دن اے سی والے کمرے میں بیٹھے آرام فرماتے ہیں، لوڈشیڈنگ کا ایک گھنٹہ اتنا طویل اور کٹھن محسوس ہوتا ہے گویا کہ جہنم قہر برسا رہی ہو۔کڑی دھوپ میں باہر نکلنا محال ہے ۔ہم دھوپ اور گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں دن میں کئی مرتبہ ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہیں۔ الغرض ہمیں دنیا کی تمام تر سہولیات میسر ہیں۔ہم تو عیش و عشرت سے جی رہے ہیں، کیا ہم نے کبھی ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں بھی سوچا جنہیں معلوم ہی نہیں کہ خوشی نامی چیز کیا ہوتی ہے ،جو ہوا کے ایک جھونکے کو ترستے ہیں ، جن پر قیامت بپا ہے ، جن کے لیے نہانا تو کجا ،ٹھنڈا پانی پینے تک کے لیے میسر نہیں۔ جو بدھ مت فوج کے ہاتھوں جلسائے جا رہے ہیں۔میں ان برمی مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں جن پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔
برما کی اکثریت بدھ مت مذہب سے تعلق رکھتی،پوری دنیا میں اس مذہب کے تقریباً 34 کروڑ پیروکار ہیں،جو ایشیں ممالک میں رہتے ہیں۔ برما کی آبادی تقریباً ساڑے پانچ کروڑ ہے جن میں صرف 4 فیصد مسلمان ہیں۔اس کے صوبہ اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ یہ سب سے مظلوم قوم ہیں۔ان کے پاس کسی ملک کی شہریت نہیں،ایک طرف تو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہاں کی دہشت گرد فوج کے مظالم کا کا نشانا بنے ہوئے ہیں۔
برمی مسلمانوں کو تو شروع دن سے ہی ظلم وجبر کا نشانہ بنایا جاتا رہا،اور 1962 کے بعد جب فوج نے اقتدار سنبھالا تو ظلم وستم کی یہ داستاں طول پکڑ گئی۔برمی مسلمانوں کے ساتھ جانوروں جیسا برتا کیا جاتا۔اور پابندیوں کی دلدل میں ایسا دھکیلا کے سانس تک لینا دشوار ہوگیا۔انہیں پختہ ،مکان بنانیں کی اجازت نہیں،یہ موبائل فون اور دیگر مواسلاتی ذرائع استعمال نہیں کر سکتے ۔یہاں تک کہ پروٹین اور وٹامن والی غذائیں کھانے پر بھی پابندی ہے ۔جانور ذبحہ کرنے پر پابندی ہے ۔2013 میں برمی مسلمانوں پر یہ پابندی لگا دی گئی کے وہ ایک سے زیادہ بچہ پیدا نہیں کر سکتے۔
ALLAH
ہمارے پاں تلے اگر ایک چیونٹی بھی مسلی جائے تو کئی ایام پریشانی و اضطراب میں گزر جاتیں ہیں کہ اس خلق اللہ کو اس دوران کتنی تکلیف ہوئی ہوگی لیکن آج مسلمان اس چیونٹی سے بھی کم تر جانے جارہے ہیں۔بدھ مت ایک امن پسند مذھب کہلوانے والاظلم وستم کی تمام حدود عبور کر چکا ہے ۔اس اپنی کل آبادی کے 4 فیصد مسلمان کیوں چبتے ہیں۔3 جون کو رنگون میں 11 مسلمانوں کو بس سے اتار کر شہید کر دیا گیا۔ 3 جون سے اب تک 20 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا، اور 500 بستیاں جلا کر راکھ کر دیں۔
مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والو! کیا تم مجھے ایسا اسلامی ملک بتا سکتے ہو جہاں اقلیتوں کی حق تلفی ہو رہی ہو ،مگر ایسے ممالک سے تو عالم کفر بھرا پڑا ہے جہاں مسلمانوں کا قتل باعث ثواب سمجھا جاتا ہے ،کشمیر ہو یا فلسطین، چینچیا ہو یا برما مسلمانوں کو جانور سے بھی کمتر جانا جاتا ہے ۔تم قتل بھی کردو تو اس میں حکمت اور اگر مسلمان ظلم سے روکے تو یہ دہشت گردی، تمہارے اصولوں کو تو ہم بخوبی جانتے ہیں،جو تمہارے غلیظ مقاصد میں تمہارا ساتھ دے وہ نوبل پرائز ونر اور جو تمہارے ناپاک عزائم کی جڑیں کاٹے وہ دہشت گرد، اگر تم ظلم کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو دہشت گرد کہتے ہو تو ہم سب دہشت گرد ہیں، کیونکہ تمہارے کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کسی کوبلند کرنا یا پست کرنا صرف رب العلمین کے ہاتھ میں ہے۔
تاریخ کا انسانیت سوز واقعہ تب پیش آیا جب 1782 میں برمی بادشاہ “بودھا پایہ” نے پورے علاقے کے علماءکو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا،جنہوں نے انکار کیا انہیں قتل کر دیا گیا۔اس واقع کے بعد برما میں سات دن تک سورج طلوع نہ ہوا۔جس پر برمی بادشاہ نے اپنی کوتاہی کا اقرار کیا اور معافی مانگی۔مگر بدھ مت جن میں عقل و مت نامی کوئی شے ہے ہی نہیں، اپنے ظالم پن میں بڑھتے گئے اور 1938 میں انگریزوں سے لڑی جانے والی جنگ میں گولیوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کیا گیا۔اور 16 مارچ 1997 میں مسلمانوں کا بے جا کا خون بہایا گیا اور مساجد کو شہید کر دیا گیا۔
Muslim Killing in Burma
ظلم و ستم کی چکی میں پستے ان مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کر نے والا کوئی نہیں۔کچھ لٹیروں نے برمی مسلمانو ںکو وہاں سے نکالنے کی غرض سے ان کی جمع پونجی ہتھیا کر انہیں کھلے سمندر میں ۔ناچھوڑ دیتے ہیں جہاں یہ ہڈیوں کے ڈھانچے سمندری جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔جب ظلم بڑھتا گیا اور زمین تنگ پڑ گئی تو شریعت کے مطابق انہوں نے ہجرت کرنے کا سوچا۔ انہیں نام نہاد اسلامی ملک بنگلادیش سب سے نزدیک دکھا تو وہاں کا رخ کیا، جب وہاں پہنچے تو ان کا استقبال گولیوں سے کیا گیا۔ بھارت نواز حکمرانوں نے انہیں وہاں سے فوراً نکل جانے کا حکم دیا۔یہ مظلوم مسلمان جنہیں کوئی بھی ملک پناہ نہیں دینا چاہتا تھا، اپنی کمزور کشتیاں لے کر سمندر میں اتر گئے ،شائد کوئی ایسا جزیرہ مل جائے جہاں زندگی کے دو دن سکھ سے گزار لیے جائیں۔ چھوٹے بچوں،اور ماں بہنوں کی سسکیاں سن کر مجال ہے کہ کسی بنگلادیشی کی غیرت جاگی اور اس کا دل موم ہوا ہو۔کمزور کشتیوں کے باعث کچھ تو سمندر میں غرق ہوگئے اور کچھ بھوک کی شدت سے ہلاک ہو گئے۔
لیکن دو دوست، ایسے دوست جو ہر مسلمان بھائی کے درد کواپنا درد سمجھنے والے ،اتحاد و یگانگت اور محبت و پیار کا درس دینے والے یہ دو مخلص دوست،نیکی کی راہوں میں ایک دوسرے کے ہم سفر(سعویہ عرب اور پاکستان) نے ان مظلوم مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کی،سعودیہ عرب نے 4 لاکھ اور پاکستان نے 2 لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنے ملک کی شہریت بھی دی۔ لیکن جو مسلمان ابھی بھی برمی مظالم سہہ رہے ہیں وہ ان دو مخلص دوستوں کو حسرت و امید کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کاش ان میں سے کوئی محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی اور سلطان ٹیپو جیسے بہادرمجاہد پیدا ہوں، جو ظلم کو شکست دیں اور ہماری زندگی سکون و راحت سے بھر دیں۔
Islam
پر انہیں کیا معلوم کہ محمد بن قاسم کی سی صلاحیت رکھنے والے نوجوانان اسلام آن لائن چیٹنگ اور فلم گانوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں،ان کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے کام آئیں،آخر فیس بک اور ٹویٹر سٹیٹس بھی تو شئیر کرنا ہوتا ہے ،دوستوں کے ساتھ گپ شپ ،اور 24 گھنٹے تو یونہی گزر جاتے ہیں۔وہ 17 سالہ محمد بن قاسم ہی تھا جس نے اہنے کھیل کود اور عیش کے ایام کی پروا کیے بغیر،ایک عورت کی پکار پر پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا،اور وہاں اسلام کا پرچم بلند کیا۔ اور آج کشمیر و فلسطین اور برما و چینچیا کی مسلمان ماں،بہنوں کی سکسکیاں اور آہیں اس قوم کے محمد بن قاسم کے کانوں میں کیوں نہیں پڑھ رہی۔اگر غفلت کی نیند سوئے ان جذبات کو بیدار نہ کیا گیا تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ: غیرت بیچ کرخریدلیے لیپ ٹاپ ہم نے عزتیں لٹتیں گئیں اور ہم سٹیٹس شیئر کرتے رہے
تحریر : حافظ محمد ارسلان بھٹی hafizmabhatti@gmail.com 03411848354