تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال اقدس دس رمضان البارک کو پچیس سال کا عرصہ رسالت آب ۖ کے ساتھ گزارنے کے بعد ہجرت کے تین برس قبل 65 سال کی عمر میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ حضور اکرم ۖ نے اپنے دست شفقت سے خود بہ نفس نفیس قبر مبارک ( جنت المعلیٰ) میں اتارا۔ اُمالمومنین حضرت خدیجةالکبریٰ کے وصال کے وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے آپکا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔
اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی اُمت محمدیہ ۖ کی بیٹیوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ امت محمدیہ ۖ کی بیٹیاں اماں حضرت خدیجة الکبریٰ کی زندگی کا ایک ایک پہلو کو اگر سمجھ کر اپنی زندگی کا اُوڑھنا بچھونا یعنی مقصد حیات بنا لیںاور اس پر عمل شروع کر دیں تو دنیا اور آخرت کی کامیابی اُمت محمدیہ ۖ کی بیٹیوں کے نام ہو جائے گی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی سے لیکر اس دنیا فانی سے کوچ کرنے تک پچیس سال رسالت مآب حضرت محمد ۖ کے ساتھ گزارے ۔ ہمیشہ مخلصانہ فکر مندی، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال،ہمیشہ خوش گوار استقبال، پرشانیوں اور دکھوں کے لمحوں میں بوجھ بڑھانے کی بجائے ، مضبوطی کے ساتھ حوصلہ بڑھانا اور ساتھ دینا اور امید دلانا کہ شوہر کے مشن کو اپنا مشن تصور کرنا، اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شوہر کی جذباتی و نفسیاتی ضرورتوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھنا حالانکہ عمر کے فرق کے باوجود آپ ۖ اور اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان ایک بھی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔
تاریخ گواہ ہے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا دولت و ثروت میں بھی اعلیٰ مقام رکھتی تھی اور حسن صورت اور حسین سیرت میں بھی آپ کا مقام و درجہ اعلیٰ و بالا تھا۔زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کو طاہرہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جو بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے تاجر نامور سرداروں نے آپ سے نکاح کے پیغام دیئے مگر آپ نے سب کے سب رد کر دیئے۔ زمانہ جاہلییت میں کسی خاتون کامکہ کے عرب میں طاہرہ کے لقب سے مشہور ہونا ۔ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اسلام سے قبل بھی پاک دامن اور طاہرہ و صدیقہ تھی۔آپ کی عمر مبارک چالیس سال تھیں جبکہ حضور اکرم ۖ کی عمر مبارکہ پچیس سال تھی جس وقت آپ نبی مہربان ۖ کے عقد نکاح میں آئیں ۔حضرت ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور پانچ سو درم کے برابر سونا حق مہر مقرر ہوا۔اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لازم تکریم و لائق تعظیم خاتون تھیں۔آپ کی زندگی حضور نبی غفور ۖکے نور سے سب سے پہلے منور ہوئی۔ آپ نے خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ کو حضور کریم ۖ کے ساتھ سب سے پہلے خواتین میں نماز وضو سیکھنے کی فضیلت حاصل ہوئی۔
Muhammad PBUH
اسلام کے ابتدائی دور میں جب ہر طرف دشمنی کا طوفان کھڑا ہوا، ہر کوئی تاجدار مدینہ سرور سینہ نبیۖ سے بغض حسد کینہ اور مخالفت برائے مخالفت ہو رہی تھی ایک آپ اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھی جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں مونس حیات بن کر آپ کا ساتھ بھی دیا۔ حوصلہ بھی دیا ۔ آپ نے ایسے خوفناک اور خطرناک حالات میں استقلال اور استقامت کے ساتھ آپ ۖ کے شانہ بشانہ کھڑی رہ کر اپنا تن ، اپنا من ، اپنا دھن ، سب کچھ دربار رسالت ۖ میں قربان کر کے اہل کفار کا مقابلہ کیا ایک بار اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دریافت کرنے پر آقا دوجہاں ۖ نے ارشاد فرمایا۔۔ اللہ کی قسم خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی،جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا آپ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں،اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ اُس وقت اُنہوں نے میری تصدیق کیاور جب لوگ مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہیں تھے ، اُس وقت حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا سارا مال مجھے پیش کر دیا۔ اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی جن میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔
اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حیات مقدسہ کا اگر بخوبیاندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ شروع سے ہی رسالت مآب و کی مزاج شناس تھیں، جب حضور اکرم ۖ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ ۖ غار حرا سے واپس لوٹنے کے بعد سارا واقئہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو من و عن سنایا تو آپ نے آپ ۖ کو تسلی دیتے ہویء فرمایا ، آپ سچ فرماتے ہیں۔غریبوں کی دستگیری کرتے ہیں،مہمان نواز ہیں،صلہ رحمی کرتے ہیں ، امانت گزار ہیں،دکھیوں کے خبر گیر ہیں،اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اُم المومنین حضرت خدیجةالکبریٰ کا مقام اور اللہ کے نبیۖ میںآپ کی حب کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرم ۖ نے اُم المومنین حضرت خدیجةالکبریٰ کو دنا میں جنت کا انگور کھلایا تھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روات ہے کہ حضور نبی آخر الزماںۖ اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دنیا فانی سے بچھڑنے کے بعد جب آپ گھر سے باہر جاتے تو کافی دیر تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تعریف کرتے رہتے اسی طرح جب گھر واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے اور کافی دیر تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تعریف کرتے۔
آپ ۖ کی اُم المومنین حضرت خدیجہ ضی اللہ عنہا سے ببے ح محبت تھی۔اُم المومنین کی فات کے بعد جب بھی قربانی کرتے توقربانی کا گوشت سب سے پہلے حضرت خدیجہ کے رشتے داروں اور سہلیوں کے گھر بھیجتے ۔ آپکے مقام کو اللہ اور اللہ تعالی کا رسول ۖ ہی بہتر جانتے ہیں ایک بخاری شریف کا حوالہ دیکر آپ سے اجازت چاہونگا۔ االلہ ایسے انعام یافتہ ہیں لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے آمین بخاری شریف ایک بار حضرت جبرائیل امین علیہ اسلام نے حضرت محمد ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کھانے کا ایک برتن لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہی ہیں۔ جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو آپ ان سے ان کے رب کا اور میرا سلام فرمائیں۔ اور ان کو جنت میں موتی کے ایک عالیشان محل کی خوشخبری سنادیں۔جس میں نہ کوئی شور ہوگا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔