تحریر: شہزادئہ غوث الوریٰ علامہ سید سعید الحسن گیلانی یقینا ابو طالب اپنے ایمان ِکامل سے متزلزل نہ ہوئے اور اعدا کی بے بنیاد یا وہ گوئی کو قوی دلائل اور محکم برا ہین سے رد کیا تاریخ عالم مظلومین سے بھرپور ہے۔ ہر دور کے سفاک سافلین نے ظلم و تعدی کابازار گرم کیے رکھا جس میں دم گھٹتی انسانیت کی سسکیاں آج بھی قرطاس ِتاریخ کونمناک کیے ہیں۔ بے بنیاد وگمراہ کن نظریات وخیالات کے فروغ سے مقدس شخصیات کی کردار کشی اِنَّ الْاِنْسٰنَ لَیَطْغَیٰ کے مصداق سرکش بشریت کے خبائث ِطبع میں نمایاں ہے ۔ انبیاو مرسلین، ائمہ طاہرین ، اصحاب ِکبار ، تابعین ِذی وقار اور اولیاء اللہ کی شان ِاقدس سے منافی کلمات ہر دور میں ان کے سامنے ،پس پشت اور بعد ازاں تقریروتحریراور ہجوکی صورت میں نمایاں ہیں ۔ احکام ِالٰہی ،تعلیمات ِنبوی ، ادیان ِعالم کی بقااور انسانیت کی سربلندی کی خاطرریگزار ِکرب وبلا پہ بہہ جانے والاخون اسی محسن ِاعظم کاہے جسے تاریخ ِعالم کامظلوم ِاکبر کہا جاتا ہے۔
ان کی رفعت ان کے جد عبد مناف کے مراتب میں بلندی کاباعث ہے اور ان کا فضل وشرف عزتیں بانٹتاہے۔ یقیناآپ نے سرچشمۂ کمالات بنی ہاشم کے مجدوافتخار کوچارچاندلگادیے۔سیدنا ابوطالب عبد ِمناف ( اَنَافْ بمعنی سربلندی ،مناف بلندی والاخداتعالیٰ کی طرف اشارہ ہے ،عبد ِمناف بلندیوںوالے کا عبادت گزار یاحق ِعبدیت ادا کرنے والا) کااسم گرامی جہاں ادیان ِعالم کے محسنین میں سرفہرست ہے وہیں مظلومین ِجہاں میں تمام بلندیوں سے نکلتا دکھائی دیتا ہے کہ جن کی خدمات اورجائے پناہ کو رب العزت نے اپنی آغوش اورمحکم حصار قرار دیا اسی عبد ِخدا کے متعلق ہرز ہ سرائی اور نازیبا بیا ن مجھے بتا توسہی اور کافر ی کیا ہے کے عین مطابق ہے ۔ ایمانِ ابوطالب سے متعلق شکوک وشبہات، بے بنیادوواہیات غلیظ پراپیگینڈے اور کفریہ عقائدکی بنیادتاریخ ِعالم میںاَزْنَی الْنَّاسْ سے ملقب ایک ایسے شخص نے رکھی جس کی بدکرداری ، ام جمیل اورایک ہزارسے متجاوزطوائفوںسے منسلک ناگفتہ بہ واقعات کتب ِتاریخ میںجابجا بکھرے ہیںکہ٥٠ھ میں جس کی موت کے بعد اہل ِقریہ کادباکرندائے غیب سننا؛ اَمَنْ رَسْمَ قَبْر لِلْمُغَیْرَةَ یُعْرَفْ، عَلَیْہِ زَوَانِیَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ تُعْزَفْ لَعُمْرِیْ لَقَدْ لاَقَیْتَ فِرْعَوْنَ بَعْدَنَا، وَھَامَانَ فَاعْلَمْ اَنَّ ذَا الْعَرَشَ مُنْصَفْ قبر مغیرة(منسوب بہ شعبہ)پہ یہ رسم ہے کہ یہاںجن وانس میں سے بدکرداروزناکار فاحشائیںگیت گاتے رقص کناںہیں۔یہاں سے جا کر یقینایہ فرعون وہامان سے ملحق ہوگیا ہے اور جان لیجئے کہ صاحب ِعرش انصاف فرمانے والاہے ،حقائق واضح کیے دیتا ہے۔
اِبْنِ اَبِیْ الْحَدِیْد اَلْشَّافَعِیْ یُصَرِّحْ بِاَنَّ الْمُغَیْرَةُ ابْنُ شَعْبَةْ کَانَ زَانِیاً،اَلْشَّرْح لاِبْنِ اَبِیْ الَحَدِیْدج١٢ص٢٣٧، اَلْطَّبْرِیْ فِیْ تَارِیْخِہِ الْکَبِیْر ج٤ص٢٠٧، اَلْاَغَانِیْ اَبُوْالَفَرَجْ اِصْفِہَانِیْ ج١٦ص٧٧تا١٠٠، ذَکَرَالْقِصَّةَ جَمْعَ کَثِیْر مِّنْ عُلَمَائِ اَھْلِ الْسُّنَّةَ عَلَیْہِمُ الْرَّحْمَةْ وَقدْ ذَکَرَنَا الْقصَّةَ بِرِوَایَةَ عَلِیْ اَلْمُتَّقِیْ اَلْحَنَفِیْ، وَاِبْنَ الْاَثِیْر وَاِبْنَ الْکَثِیْر وَاَبِیْ الْفِدَاء وَاِبْنَ اَثِیْر اَلْجَزَرِیْ فِیْ تَارِیْخِ الْکَامِلْ وَاِبْنَ جَرِیْر اَلْطَّبَرِیْ فِیْ تَارِیْخِہِ الْکَبِیْر، اَغْلَبُ الْمُوَرَّخِیْنَ وَالْمُحَدَّثِیْنَ ذَکَرُوْا الْقِصَّةَ بِعُنْوَانِ الْوَقَائِعْ فِیْ سَنَةْ ١٧وَقَدْ خَرَجَ اِبْنُ اَبِیْ الْحَدِیْد اَلْشَّافَعِیْ اَلْمُتَوَفّٰی سَنَةْ ٦٥٥اَلْقِصَّةَ فِیْ ج ١٢ ص ٢٣٧طبع الثانی، فَاِنَّ زِنَائَ الْمُغَیْرَةْ اَمْر مَعْرُوْف مَشْہُوْر یُعْرِفُہُ اَھْلَ کُلِّ مَکَانٍ حَتّٰی اَعْرَابِ الْبَوَادِیْ، وَقَدْ صَرَحَ بِکُوْنِہ اَزْنَی الْنَّاسُ اَھْلَ الْمَعْرِفَةِ بِالْتَّارِیْخ وَغَیْرُہْ،بالتحقیق مغیرہ کی زناکاریاں مشہور ومعروف ہیں کہ جن سے چاردانگ ِعالم حتی کہ عرب کے دوردرازکے بادیہ نشین بھی بخوبی آگاہ تھے اور تاریخ سے آگاہی رکھنے والے اسے اَزْنَی الْنَّاسْ ،روئے زمین پہ سب سے بڑازانی قراردیتے ہیں۔
Allama Iqbal Poetry
اسرار ِغوثیہ سادات ِگیلانیہ کے عقائد جو حضور غوث الوریٰ کی بارگاہ سے صادر ہوئے ہیں کے مطابق فَھٰذِہِ الْاَخْبَارُ الْمُخْتَصَّةْ بِذِکْرِ الْضَّحْضَاحُ مِنَ الْنَّارِ وَمَا شَاکِلَھَامِنْ مُتَخَرِّصَاتِ ذَوِیْ الْفِتَنِ وَرِوَایَاتِ اَھْلِ الْضَّلاَلِ وَمَوْضُوْعَاتِ بَنِیْ اُمَیَّةَ وَاَشْیَاعَھُمْ الْنَّاصِبِیْنَ الْعَدَاوَةَ لاَِھْلِ الْبَیْتِ الْنَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہْ، وَھِیَ فِیْ نَفْسِھَا تَدَلُّ عَلیٰ اِنَّ مُفْتَعْلِھَا وَالْمُجْتَرِیْ عَلَی اللّٰہِ بِتَخَرَّصِھَا مُتَحَامِل غَمَرَ جَاھِل، قَلِیْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْلُّغَةِ الْعَرَبِیَّةَ الَّتِیْ خَاطَبَ اللّٰہُ بِھَا عِبَادِہْ وَاَنْزَلَ بِھَا کِتَابِہْ ،لاَِنَّ الْضَّحْضَاحُ لاَ یُعْرَفُ فِیْ الْلُّغَةِ اِلاَّ لِقَلِیْلُ الْمَائِ فَحَیْثَ عَدَلَ بِہ اِلیَ الْنَّارِ ظَھَرَتْ فَضِیْحَتُہُ وَاسْتَبَانَ جَھْلُہْ وَتَحَامِلُہْ ،یہ من گھڑت روایات جن میں آگ سے بھڑکنے والے بلبلوں کا ذکر ہے فتنہ بازوگم کردگان ِراہ ِہدایت، اہل ِبیت ِنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھنے والے نواصب بنی امیہ کے وضع کردہ مفروضات پر مبنی ہیں جوبذات ِخود اپنے بطلان پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کامخترع خبث ِجہالت میںلتھڑاکس دریدہ دہنی وڈھٹائی سے اللہ رب العزت پرمفتری ہے ۔عربی زبان کہ جس میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہے اور جس میں اُس نے اپنی کتاب نازل فرمائی کی معمولی سدھ بدھ رکھنے والا بھی بخوبی جانتا ہے کہ لغت ِعرب میں ضَحْضَاحْ پانی سے اٹھنے والابلبلہ ہے جو بھڑکتی آگ سے کیسے نکل سکتا ہے جواس روایت کے کذب اور گھڑنے والے کی جہالت ،بدباطنی ،بدطینتی وبد فطرتی بے نقاب کرتا ہے ۔ اِنَّ الْاَحَادِیْثِ الْمُتَضَمِّنَةْ اَنَّ اَبَاطَالِبٍ فِیْ ضَحْضَاحُ مِنَ الْنَّارِ مُخْتَلِفَة وَاَصْلُھَا وَاحِد وَ رَاوِیْھَا مُنْفَرِد بِہَا،لاَِنَّھَاجَمِیْعَھَا تَسْتَنِدْ اِلیٰ الْمُغَیْرَةِ بْنِ شَعْبَةْ اَلْثَّقَفِیْ، لاَ یَرْوِیْ اَحَد مِّنْھَا شَیْئاً سِوَاہْ، وَھُوَ رَجُل ظَنِیْنَ فِیْ حَقِّ بَنِیْ ہَاشِمٍ مُتْھِمُ فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْھُمْ لاَِنَّہُ مَعْرُوْف بِعَدَاوَتِھِمْ، مَشْہُوْر بِبُغْضِہ لَھُمْ وَالْاِنْحِرَافُ عَنْہُمْ، وَقَدْ رُوِیَ عَنْہُ فِیْ حَقِّ بَنِیْ ہَاشِمٍ اَلْفَاظ تَدَلَّ عَلیٰ شِدَّةِ عَدَائِہ لَھُمْ وَالْمُغَیْرَةُ ھٰذَا لَہُ اَعْمَال وَاَفْعَال قَبِیْحَةٍ تَعْرَفْ بِالْنَّظَرِ اِلیٰ تَارِیْخِ حَیَاتِہ وَمَا صَدَرَ مِنْہُ فِیْ زَمَانِ الْخُلَفَائِ، وَھُوَ رَجُل فَاسِق مَعْرُوْف بِالْفَسَقِ وَقَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ جَمْعُ کَثِیْر مِّنْ عُلَمَائِ اَہْلِ الْسُّنَّةِ مؤرَّخِیْھِمْ وَمُحَدِّثِیْھِمْ وَمُفَسَّرِیْھِمْ۔ابوطالب کو حباب ِآتش (آگ کے بلبلوں)میں بیان کرنے والی احادیث مختلف الفاظ میں ایک ہی بنیاد اور ایک ہی شخص سے مروی ہیں جو سب کی سب مغیرة بن شعبہ ثقفی سے سند لیتی ہیں ،اُس کے علاوہ کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کہا۔یہ وہ شخص ہے جوبنی ہاشم سے عداوت اور الزام تراشی میں معروف ، اُن سے بغض وکینہ میں مشہور اور اُن کی تعلیمات سے روگرداں رہا۔اولاد ِہاشم کے متعلق اُس سے روایت کیے جانے والے الفاظ اُ س کی دشمنی کے دلائل ہیں۔
فسق و فجور میں شہرت رکھنے والا مغیرة کہ جس کے لیے اُس کی سوانح اور خلفاء کے زمانے کی سرگذشت قبیح اعمال وافعال کے باعث معروف ہے جسے اجل علمائے اہل ِسنت میں تاریخ نگاروں ،محدثوں اور مفسرین ِقرآن کی ایک بڑی جماعت نے بیان کیاہے ۔مِنْ طَالِعِ تَارِیْخِ حَیَاةَ الْمُغَیْرَةْ بِنْ شَعْبَةْ عَرَفُ اُمُوْراً کَثِیْرَةً عَجِیْبَةٍ مِنْ اَحْوَالِھَا مِنْھَا وَاَصْغَرِھَا زِنَاہُ، وَاِنَّ مِنْ اَعْظَمِھَا عَلیٰ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَعَلیٰ الْاَئِمَّةِ الْمَیَامِیْنَ ھُوَ مَا کَانَ عَلَیْہِ الْمُغَیْرَةَ حَتیّٰ مَاتَ مُوَافِقِہْ لِاَمِیْرِ الْشَّامِ وَھُوَ سَبَّ سَیِّدِ الْمُؤمِنِیْنَ وَسَیِّدِ الْمُتَّقِیْنَ وَسَیِّدِ الْاَوْصِیَائِ اَمِیْرِ الْمُؤمِنِیْنَ عَلِیْ اِبْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْہِمَا الْسَّلاَمِ عَلَی الْمَنَابِرِ فِیْ الْکُوْفَةْ،کَانَ مِنْ اَعْدَائِ الْہَاشَمِیْنَ وَکَانَ یَرْوِیْ الْاَحَادِیْثِ الْمَوْضُوْعَةِ فِیْ حَقِّھِمْ وَقَدْ ذَکَرَ ذٰلِکَ جَمَاعَةً مِّنْ عُلَمَائِ اَھْلِ الْسُّنّةْ فِیْ کُتُبِھِمُ الْمُعْتَبِرَةْ۔تاریخ ِعالم کے طالع ِبرگشتہ میںحیات ِمغیرة بن شعبہ کی روسیاہی بے سروپاواقعات سے اٹی ہے جن میں سب سے بے وقعت اُس کی زناکاریاں ہیں ۔وہ اہل ِاسلام ،سید المرسلین اور ائمہ میامین سے عداوت میں پیش پیش ،تادم ِمرگ امیر شام کاہمنوااور مومنوں کے سردار ،متقیوں کے پیشوا اور سید الائوصیا امیر المومنین علی ابن ِابی طالب علیہما السلام پر کوفہ کے منبروں سے سب وشتم کرتا تھا ۔وہ دشمنان ِبنی ہاشم میں سے تھا اور اُن کے متعلق من گھڑت روایات پھیلاتاتھاجسے علمائے اہل ِ ِسنت کی جماعت نے اپنی معتبر کتب میں بیان کیاہے۔ وَھُوَ مَنْ اَعَادِْعَلِیْ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَدَاوَتِہ لَہُ وَلاَِوْلاَدِہ کَالْشَّمْسُ فِیْ رَابِعَةِ الْنَّہَارْ، اَنَّہُ شَارِبَ الْخَمْرِ وَأنَّ ھٰذَا الْشَّقِْھُوَ الْمُوْجِبُ لِِتَحْرِیْضِ اُمُّ الْمُؤمِنِیْن عَائِشَةْ ،وہ علی ابن ِابی طالب اور ان کی اولاد کے دشمنوں میں سے تھا اور اُن کے ساتھ اُس کی عداوت اظہرمن الشمس ہے ،شراب خور اور ایسا شقی تھا جو ام المومنین عائشہ کے لیے بھی اکسایاکرتاتھا۔
Al Ithaaf bi Hubbil Ahraf
اَلْاَنْوَارُ الْاَزْھَرِیَة شہیر اہل ِسنت جمال الدین ابومحمد عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی الازہری (١٠٩٢تا١١٧٢ء )اپنی شہرئہ آفاق کتاب اَلْاَتْحَافْ بِحُبَّ الْاَشْرَافْ میں لکھتے ہیں، ”وَلَمَّا اَسْلَمَ اَبُوْقَحَافَةْ قَالَ الْصِّدِّیْقُ لِلْنَّبِیْ: وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لاِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبٍ کَانَ اَقَرّ لِعَیْنِیْ مِنْ اِسْلاَمِہ، وَذٰلِکَ اَنَّ اِسْلاَمَ اَبِیْ طَالِبٍ کَانَ اَقَرُّ لِعَیْنِکَ”،(فتح ِمکہ کے دن ) جب ابوقَحَافَةْ(م١٤ھ)نے اسلام قبول کیا تو حضرت ابوبکر صدیق نے نبی ِاکرم کی بارگاہ میں عرض کی ،اس ذات کی قسم !جس نے آپ کو مبعوث ِحق کیامجھے ان کے اسلام سے زیادہ ابوطالب کے اسلام کی خوشی ہے کیونکہ اُن کے اسلام لانے سے آپ شاداں تھے ۔””اَرَدْتُ یَا رَسُوْلِِ اللّٰہِ اَنْ یَأجِرْنِیَ اللّٰہُ، اَمّا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ نَبِیّاً لاَنَاکُنْتَ اَشَدُّ فَرْحاً بِاِسْلاَمِ عَمِّکَ اَبِیْ طَالِبٍٍ مِنِّی بِاِسْلاَمِ اَبِیْ، اَلْتَمِسْ بِذٰلِکَ قُرَّةَ عَیْنِکْ، فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَدَقَتْ ”۔باقرالعلوم سیدناامام محمد باقر فرماتے ہیں،”مَاتَ اَبُوْطَالِبْ بِنْ عَبْدُالْمُطَّلِبْ مُسْلِماً مُؤمِناً، وَشِعْرُہُ فِیْ دِیْوَانِہ یَدُلُّ عَلیٰ اِیْمَانِہ ثُمَّ مُحَبَّتِہ وَتَرْبِیَتِہ وَنُصْرَتِہ وَمَعَادَاةُ اَعْدَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ وَمَوَالاَةُ اَوْلِیَائِہْ، وَتَصْدِیْقُہُ اِیَّاہُ فِیْمَا جَائَ بِہ مِنْ رَبِّہْ، وَاَمْرُہُ لِوَلَدَیْہِ عَلِیْ وَجَعْفَرْ عَلَیْھِمَا الْسَّلاَمْ بِاَنْ یَّسْلِماً وَیُؤمِناً بِمَا یَدْعُوْ اِلَیْہِ، وَاَنَّہُ خَیْرَالْخَلْقِ، وَاَنَّہُ یَدْعُوْ اِلَی الْحَقِّ وَالْمِنْھَاجِ الْمُسْتَقِیْم، وَأنَّہُ رَسُوْلِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، فَثَبَتَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِھِمَا، فَحَیْنَ دَعَاھُمَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ أجَابَاہِ فِیْ الْحَالْ، وَمَا تَلَبَّثَا لِما قَدْ قَرَّرَہُ اَبُوْھُمَا عِنْدَھُمَا مِنْ أمْرِہ فَکَانَ یَتَأمِلاَنِ اَفْعَالُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَآلِہ فَیَجِدَانِھَا کُلِّھَا حَسْنَةً تَدْعُوْ اِلیٰ سِدَادِ وَرِشَادٍ” ابوطالب بن عبدالمطلب مسلم ومئومن فوت ہوئے اور اُن کے دِیوان میں منظوم اشعار اُن کے ایمان ، محبت ،تربیت ، نصرت، رسول اللہ ۖکے دشمنوں سے عداوت اور آپ کے خیر خواہوںکی چاہت، رب تعالیٰ کی جانب سے نازل ہونے والے احکام کی تصدیق واتباع اور اپنے بیٹوں علی و جعفر علیہما السلام کو رسول اللہ پر ایمان وتسلیم کے احکام کے مبینہ دلائل ہیں۔وہ تمام مخلوق ِخدا میں سے بہترین ،راہ ِحق اورصراط ِمستقیم کے داعی تھے ۔انہوں نے علی وجعفر کے دلوں میں احکام ِرسول اللہ کا کامل اتباع راسخ کیا کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں طلب فرمایا،بہرصورت من وعن تسلیم کیا۔
اُن دونوں نے اپنے والد کے فرامین سے ذرہ برابر بھی روگردانی نہیں کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ِمطہرہ کے سنہرے نقوش اپناتے حق وصداقت کی راہ دکھلائی ۔”اِنَّ اِیْمَانَ اَبِیْ طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِیْ کَفِّةْ مِیْزَانٍ وَاِیْمَانَ ہٰذَا الْخَلْقِ فِیْ کَفَّةٍ لَرَجَحَ اِیْمَانَ اَبِیْ طَالِبٍ عَلیٰ اِیْمَانِھِمْ،کَانَ وَاللّٰہِ اَمِیْرالْمُومِنِیْنَ یَامَرُ اَنْ یَّحَجَّ عَنْ اَبِیْ الْنَّبِیْ وَاّمِّہْ وَعَنْ اَبِیْ طَالِبٍ حَیَاتِہ، وَلَقَدْ اَوْصیٰ فِیْ وَصِیَّتِہِ بِالْحَجِّ عَنْھُمْ بَعْدَ مَمَاتِہْ ” اگرابوطالب کے ایمان ِکامل کومیزان ِعدل کے ایک جانب رکھاجائے اور دیگرجملہ مخلوق کاایمان دوسری جانب توابوطالب کا محکم یقین اُن پر گرانبار ہوگا۔ بخداامیرالمومنین علی ابن ِابی طالب اپنی حیات ِ مبارکہ میں نبی کریم کے آبائے طاہرین اور اُن کی والدہ معظمہ اور ابوطالب کے لیے حج بجالانے کا حکم دیتے تھے اوراپنے بعدبھی اِن ہستیوں کے لیے حج کی وصیت فرمائی ۔امام ابوحنیفہ کے استاد ِگرامی سیدی امام جعفر صادق فرماتے ہیں ؛”اِنَّ اَبَاطَالِبٍ مِنْ رُفَقَائِ الْنَّبِیِّیْنَ وَالْصِّدِّیْقِیْنَ وَالْشُّہَدائِ وَالْصَّالِحِیْنَ وَحُسْنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقاً”،یقیناابوطالب انبیاء وصدیقین اورشہداء وصالحین کے بہترین ساتھی ہیں۔وَخَرَجَ جَلاَلُ الْدِّیْن الْسُّیُوْطِیْ اَلْشَّافَعِیْ فِیْ الْخَصَائِصْ ج١ ص٨٧ اَنَّ اَبَا طَالِبٍ عَلَیْہِ الْسَّلاَمْ کَانَ مُؤمِناًبِالْوَاحِدِ الْاَحَدْ وَبِالْرَّسُوْلِ الْاَمْجَدْ اِبنُ اَخِیْہِ مُحَمَّدۖ ،جلال الدین سیوطی خصائص جلد١صفحہ ٨٧ پرتخریج فرما ہیں کہ یقیناابوطالب واحد واَحد اور اپنے بھتیجے محمد رسول اللہ پرایمان ِکامل رکھتے تھے ۔ أنَّ اَبَا طَالِبٍ اَسْنَدِ الْمُحَدِّثُوْنَ عَنْہُ حَدِیْثاً یَنْتَھِیْ اِلیٰ اَبِیْ رَافِعْ مَوْلیٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہْ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَاطَالِبٍ یَقُوْلُ بِمَکَّةْ: حَدَّثْنِ مُحَمَّدْْ اِبْنِ اَخِیْ أنْ رَبَّہُ بَعَثَہُ بِصِلَةِ الْاَرْحَامِ وَاَنْ یَّعْبُدُہُ وَحْدَہُ لاَیُعْبَدْ مَعَہُ غَیْرُہْ، وَمُحَمَّدُ عِنْدِْ الْصَّادِقِ الْاَمِیْن ،ابوطالب تمام محدثین میں قوی سند رکھنے والے محدث ِاعظم تھے کہ اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے غلام ابی رافع روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطالب کو مکہ میں فرماتے سنا کہ مجھ سے میرے بھتیجے محمد نے بیان کیا کہ اُن کے رب نے انہیں صلہ رحمی اورفقط وحدہ لاشریک ہی کی عبادت کے لیے مبعوث کیا اور محمد میرے نزدیک صادق وامین ہیں ۔ وَقَدْ ذَکَرَ الْاِمَامْ اَحْمَدْ اِبْنَ الْحُسَیْن اَلْمُوْصَلِیْ اَلْحَنَفِْ: اَلْمَشْہُوْر بِاِبْنِ وَحْشِْ فِیْ شَرْحِہْ لِلْکِتَابْ الْمُسَمّٰی (بِشِہَابِ الْاَخْبَار) لِلْعَلاَمَةْ مُحَمَّدْ بِِنْ سَلاَمَةْ اَلْقُضَّاعِ اَلْمُتَوَفّٰی سنة ٤٥٤، اَنَّ بُغْضَ اَبِیْ طَالِبٍ کُفْر، وَنَصَّ عَلیٰ ذٰلِکَ اَیْضاً مِّنْ اَئِمَّةِ الْمَالَکِیَّةْ اَلْعَلاَمَةْ عَلِیْ اَلْاَجْھوْرِْفِیْ فَتَاوَیْہِ، وَالْتِّلْمِسَانِْ: فِیْ حَاشِیَتِہِ عَلَی الْشِّفَا(لِلْقَاضِْ عَیَاضْ)فَقَالَ عِنْدَ ذِکْرَ اَبِْ طَالِبٍ: لاَ یَنْبَغِْ اَنْ یُّذْکِرَ اِلاَّبِحِمَایَةِ الْنَّبِْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ: لاَِنَّہُ حَمَّاہُ وَنَصَرُہُ بِقَوْلِہ وَفِعْلِہ وَفِْ ذِکْرِہُ بِمَکَرُوْہِ اَذِیَّةِ الْنَّبِْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، وَمُؤذِ الْنَّبِْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ کَافِرْ، وَالْکافِرُ یُقْتَلْ، وَقَالَ اَبُوْالْطَّاہِرْ: مَنْ اَبْغَضَ اَباطَالِبٍ فَھُوَکَافِرْامام احمد ابن ِ حسین موصلی حنفی جو ابن ِوحشی کی کنیت سے معروف ہیں علامہ محمد بن سلامة قضاعی متوفی ٤٥٤ھ کی کتاب شہاب الاخبارکے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ابوطالب سے بغض کفر ہے اور اس پر ائمہ مالکیہ میں سے علامہ علی الاجہوری کے فتاویٰ میںنص موجود ہے اور تلمسانی (قاضی عیاض کی ) شفا کے حاشیہ پر رقم طراز ہیں کہ ہم تک ابوطالب کا ذکر سوائے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی ہونے کے نہیں پہنچاکہ انہوں نے اپنے قول وفعل سے آپ کی حمایت کی۔ پس آپ کا غیر مناسب انداز میں ذکر ایذائے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باعث ہے اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے والا کافر ہے اور کافر واجب القتل ہے ۔ ابا طاہر کہتے ہیں کہ ابو طالب سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔
اَبُوْطَالِبٍ حََامِیَ الْحَقِیْقَةِ سَیَّدٍ، تَزَانَ بِہ الْبَطْحَائُ فِیْ الْبِرِّ وَالْبَحْر اَبُوْطَالِبٍ وَالْخَیْلِ وَالْلَّیْلِ وَالْلِّوَا، لَہُ شَہِدَتْ فِیْ مُلْتَقِیْ الْحَرْبِ بِالْنَّصْر اَبُوْالْاَوْصَیائِ الْغُرِّ عَمِّ مُُحَمَّدٍ، تَضَوَّعْ بِہ الْاِحْسَابِ عَنْ طَیِّبِ الْنَّجْر وَآمَنَ بِاللّٰہِ الْمُہَیْمِنِ وَالْوَریٰ، لَھُمْ وَثَبَاتُ مَنْ یَعُوْقَ اِلیٰ نَسْر وَأنِّیْ یُحِیْطاً لِّوَصْفِ غُرَّ خِصَالِہ، وَقَدْ عَجِزْتُ عَنْ سَرْدِھَا صَاغَةِ الْشِّعْر فَلَوْلاَہُ لَمْ تُنَجِّحْ لِطَاھَا دَعَایَةٍ، وَلاَکَانَ لاِسْلاَمِ مُسْتَوْسِقُ الْاَمْر کَفیٰ مَفْخِراً شَیْخُ الْاَبَاطِحْ اَنَّہُ، اَبُوْحَیْدَرْ اَلْمَنْدُوْبِ فِ شِدَّةِ الْضَّرْ وَصَلِّیْ عَلَیْہِ اللّٰہُ مَا ھَبَّتِ الْصَّبَا، بَرِیّاً ثََنَا شَیْخُ الْاَبَاطِحْ فِیْ الْدَّھْر ابوطالب! حقائق کی حمایت کرنے والے سردار! جوبطحاکے خشک وترکاناز،زیب وزینت ہیںکہ وہ ،اُن کے رہواروپرچم اور شب وروزکی تگ ودوکارزار ِزندگانی میں اُن کی بے مثل نصرت کی گواہ ہے ۔محمد مصطفٰی کے تایااور اُن کے جلیل القدر اوصیاء کے والد کہ جن کی عظمت وطہارت سے جہاں معطر ہے۔نگہبان ِجہاں اللہ رب العزت پر ایمان ِکامل اور یعوق و نصر (نامی بتوں)کے پیروکاروں کے خلاف ثبات ِ عزم کے حامل تھے۔ میرے درماندہ اشعار آپ کے خصائل ِحسنہ کے دمکتے انوارکے بیان سے عاجز ہیں ۔یقینااگر وہ نہ ہوتے تو طٰہَ(ختمی مرتبت )دعوت ِدین میں کامیاب نہ ہوسکتے اور اسلام کبھی نہ پھیلتا۔ شیخ الاباطح (ابوطالب )کے فخرومجد کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ شدت ِکارزار کے فاتح حیدر کے والدہیں۔ شیخ الاباطح زمانے کی ثنا سے مبرا ہیں جبکہ اللہ رب العزت خوداُن پر صلوٰة وسلام بھیجتا ہے۔
بارگاہ ِابوطالب میں پیش کردہ کتب بغض احمد ِمختارۖ ،حیدر ِکرارواہل ِبیت ِاطہار میں صرف ایک بدکردار کے سفیانیت زدہ نجس شیطانی افکار سے انسانیت ووقار ِآدمیت کادامن ِعصمت وطہارت داغدار کردینے والے سب و شتم کے جواب میں قرون ِاولیٰ سے لے کر عہد ِحاضر تک کے شب بیدار وصائم النہار ،تہجدگزارخردمندان انسانیت کے قائد ِاعظم، بقول ِقرآن آغوش ِاحدیت کی بارگاہ میں اپنے نظریات و احساسات کے گلہائے سپاس پیش کرتے رہے ہیں جونہ صر ف معارف ِدین وتاریخی حقائق کا سرچشمہ ہیں بلکہ عربی زبان وادب کا بھی گنج ِبے بہاوکوہِ نارسا ہیں۔حضرت ابوطالب ،خلوص ِنیت اور اخلاص ِعمل سے سرانجام دیے گئے اعمال وافعال کے شاہد ہیں اور آپ کے حوالے سے کیاجانے والاکام آپ کی خدمت میں پیش ہوتا ہے جسے آپ ملاحظہ فرماتے ہیں۔
ابی ھفّان عبداللہ بن احمداَلْمِھْزَمِیْ م٢٥٧ھ کے مرتب کردہ ”دیوان ِابی طالب” کے حاشیہ میں مرقوم ہے کہ شیخ ابوالحسن علی بن ابی مجد واسطی نے رمضان المبارک کی مقدس راتوں میں حضرت ابو طالب کے کلام مقدس کو مرتب کیا اورآپ کا شعربِکَفِّ الَّذِیْ قَامَ فِیْ جَنْبِہْ، اِلیَ الْصَّابِرَ الْصَّادِقَ الْمُتَّقِیْ لکھ کرسوگئے ۔رات خواب میں سرکار ِدوعالم کی زیارت سے مشرف ہوئے کہ آپ مسند ِانوار پہ جلوہ افروز ہیں اور آ پ کے ساتھ ایک مقدس وباوقار نورانی بزرگ تشریف فرماہیں کہ جن کے نور کی تجلیات نے قلب ونظر کوخیرہ کردیا۔شیخ ابوالحسن نے حضور کی بارگاہ میں سلام پیش کیا تو آنحضرتۖ نے سلام کاجواب دے کربدست ِاقدس اشارہ کرتے فرمایا،”میرے تایاجان کو بھی سلام کرو۔”عرض کی کون سے تایاسرکار؟فرمایاتایاابوطالب اور دست ِاقدس سے اشارہ بھی فرمایا۔میں ان کے قریب ہو کرعرض گذار ہوا،”یَا عَمِّ رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنِّیْ اَرْویٰ اَبْیَاتِکَ ھٰذِہِ الْقَافِیَةِ وَاَحَبُّ اَنْ تُسْمِعْھُمَا مِنِّیْ”،”عم رسول اللہ !میں نے آپ کے اشعار ترتیب دیے ہیں،چاہتا ہوں کہ آپ کے گوش گذار کیے جائیں ”فرمایا،”ھٰاتِہَا”،سنائو۔میںنے حسب ِنقل اِلیَ الْصَّائِنِ الْصَّادِقَ الْمُتَّقِیْکہہ کرشعر سنایاتوآپ نے فرمایامیں نے جو شعر کہاتھا اُس میں لفظ صابر(صبرکرنے والا)تھانہ کہ صائن (نگہبان)۔ فَقَالَ: اِنَّمَا قُلْتُ اَنَا: ”اِلیَ الْصَّابِرِ الْصَّادِقِ الْمّتَّقِیْ ”بِالْرَّاء وَلَمْ اَقُلْ بِالْنُّوْنْ ”بارگاہ ِابوطالب میں پیش کردہ نذرانۂ عقیدت میں سے چند نام نذر ِقارئین ہیں۔
١۔ اَلْیَاقُوْتَةُ الْحَمْرَاء فِیْ اِیْمَانِ سَیِّدُالْبَطْحَاء علامہ طالب حسینی آل ِعلی المدنی ٢۔ بُغْیَةُ الْطَّالِبْ لِایْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ وَحُسْنُ خَاتِمَتِہ علامہ جلال الدین سیوطی شافعی م ٩١١ھ ٣۔ نسب ِابی طالب ہِشام بن محمد بن صائب بن بشر کلبی م ٢٠٦ھ ٤۔ مَوَاھِبُ الْوَاھِبْ فِیْ فَضَائِلِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ شیخ جعفرنقدی تستری ٥۔ مُنْیَةُ الْطَّالِبْ فِیْ حَیَاةِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ حسن بن علی قبانجی ٦۔ مُنْیَةُ الْرَّاغِبْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ حجة الاسلام شیخ محمدرضا طبسی ٧۔ مُنْیَةُ الْطَّالِبْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ واعظ حسین طباطبائی یزدی الحائری ٨۔ مُنِیَ الْطَّالِبْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ شیخ ابی سعید محمد بن احمد خزاعی نیشاپوری (شیخ ابوالفتوح رازی صاحب ِتفسیر کے مورث ِاعلیٰ) ٩۔ اِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبْ عبد الرحمان بن احمد بن حسین المفیدخزاعی نیشاپوری م٤٤٥ھ صاحب ِ مُنِیَ الْطَّالِبْ شیخ ابی سعیدمحمد اور عبدالرحمان بن احمد بھائی ہیں۔ ١٠۔ مَقْصَدِ الْطَّالِبْ فِیْ اِیْمَانِ آبَائِ الْنَّبِیِّ وَعَمِّہ اَبِیْ طَالِبْ میرزامحمد حسین ربانی جرجانی ١١۔ اَلْقَوْلِ الْوَاجِبْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ شیخ محمد علی بن میرزاجعفر علی فصیح ہندی ١٢۔ فَیْضُ الْوَاھِبْ فِیْ نَجَاةِ اََبِیْ طَالِبْ شیخ احمد فیضی الجورومی حنفی ١٣۔ فَضْلُ اَبِیْ طَالِبْ وَعَبْدَالْمُطَّلِبْ وَعَبْدُاللّٰہْ اَبِیْ الْنَّبِیْ شیخ ابی القاسم سعد بن عبداللہ بن ابی خلف اشعری ١٤۔ فَصَاحَةُ اَبِیْ طَالِبْ ابی محمد اما م الناصر حسن بن علی بن حسن بن عمر الاطروش ١٥۔ شَیْخِ بَنِیْ ھٰاشِمْ اَبُوْطَالِبْ عبدالعزیزسیدالاھل ١٦۔ شَیْخُ الْاَبْطَحْ علامہ محمد علی بن عبدالحسین آل ِشرف الدین ١٧۔ اَلْشِّہَابِ الْثَّاقِبْ لِرَجَمِ مُکَفَّرِ اَبِیْ طَالِبْ شیخ میرزا نجم الدین طہرانی ١٨۔ شِعْرُ اَبِیْ طَالِبْ بِنْ عَبْدَالْمُطَّلِبْ وَاَخْبَارِہْ ابی ھفان عبداللہ بن احمد مھزمی م ٢٥٧ھ ١٩۔ اَلْرَّغَائِبْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ مہدی بن علی غریفی بحرینی ٢٠۔ اَلْرِّسَالَةُ فِیْ اِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبْ میرزاابی القاسم امین الدین محمد زنجانی م ١٢٩٢ھ ٢١۔ رُتْبَةُ اَبِیْ طَالِبْ وَقُرَیشْ وَمَرَاتِبِ وُلْدَہُ فِیْ بَنِیْ ھٰاشِمْ ابی الحسن نسابہ ،مئولفہ ٣١٠ھ ٢٢۔ اَلْحُجَّةُ عَلَی الْذَّاھِبْ اِلیٰ تَکْفِیْرِ اَبِیْ طَالِبْ شمس الدین ابوعلی فخار بن معد م ٦٣٠ھ ٢٣۔ تَرْجُمَةُ شَیْخُ الْاَبْطَحْ علامہ محمد علی شرف الدین ،مترجم ظفر مہدی ٢٤۔ اَلْبَیَانْ عَنْ خَیَرَةَ الْرَّحْمٰنْ فِیْ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبٍ وَآبائِ الْنَّبِیْ ابی الحسن علی بن بلال بن ابی معاویة مہلبی ازدی ٢٥۔ بُغْیَةُ الْطَّالِبُ لِایْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ محمد بن عبدالرسول برزنجی شافعی شہرزوری مدنی م ١١٠٣ھ ٢٦۔ بُغْیَةُ الْطَّالِبُ فِیْ بَیَانِ اَحْوَالِ اَبِیْ طَالِبْ وَاَثْبَاتِ اِیْمَانِہ وَحُسْنُ عَقِیْدَتِہ محمد بن حیدر بن نور الدین علی العاملی ٢٧۔ بُغْیَةُ الْطَّالِبْ فِیْ اِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ سید محمد عباس بن سید علی اکبر تستری لکھنوی ٢٨۔ اِیْمَانُ اَبِیْ طَالِبْ وَاَحْوَالِہ وَاَشْعَارِہ میرزامحسن بن میرزا محمد مجتہدقرة داغی تبریزی ٢٩۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ مفتی حسین مجتہدعاملی الکرکی م ١٠٠١ھ ٣٠۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ شیخ ابی عبداللہ محمد بن محمد بن نعمان المفید م ٤١٣ھ ٣١۔ دِیْوَانِ اَبِیْ طَالِبْ وَذِکْرُ اِسْلاَمِہْ ابونعیم علی بن حمزہ تمیمی بصری م ٣٧٥ھ ، اس کتاب کے چند ابواب حافظ ابن ِحجر عسقلانی نے اَلاِْصَابَةْ فِیْ تَمِییْزِالْصَّحَابَةْ میںنقل کیے ہیںجس کے ساتھ اَلْاِسْتِیْعَابْ فِیْ مَعْرِفَةِ الْاَصْحَابْ اور اُسْدُالْغَابَةْ فِیْ مَعْرِفَةِ الْصَّحَابَةْ سے ضروری ترامیم کے ساتھ مستند معلومات یکجا کر دی ہیں۔
٣٢۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ محدث دیباجی شیخ ابی محمد سھل بن احمد بن عبداللہ بن احمد بن سھل بغدادی ٣٨٠ھ ٣٣۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ فقیہ ِمتکلم جمال الدین احمد بن موسیٰ بن جعفر بن طائوس حسنی حلّی م ٦٧٣ھ ٣٤۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِب ابو علی احمد بن محمد بن عمار کوفی ٣٥۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِب شیخ ابوالحسین احمد بن محمد بن احمد بن طرحان جرجرائی ٣٦۔ اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِب احمد بن قاسم ٣٧۔اِیْمَانِ اَبِیْ طَالِب قاضی نعمان بن محمد مصری م ٣٦٣ھ ٣٨۔اَسْنیٰ الْمَطَالِبْ فِیْ نَجَاةِ اَبِیْ طَالِبْ قاضی احمد زینی دحلان مکی اردوترجمہ مولوی حکیم مقبول احمد دہلوی طبع ِدہلی ١٣١٣ھ بُغْیَةُالْطَّالِبْ لاِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْ علامہ محمد بن رسول برزنجی اردو ترجمہ شیخ محمد ابراہیم صائم چشتی مطبوعہ چشتیہ کتب خانہ فیصل آباد اَسْنیٰ الْمَطَالِبْ فِیْ نَجَاةِ اَبِیْ طَالِبْ اوربُغْیَةُ الْطَّالِبْ لاِیْمَانِ اَبِیْ طَالِبْیکجامطبوعہ ہیں۔ ٣٩۔نَبُوَّةِ اَبِیْ طَالِبْ ثِقَةُالْاِسْلاَمْ مزمل حسین میثمی اَلْغَدِیْرِیْ،مطبوعہ قم المقدسہ ٤٠۔ اِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبْ حسن بن ابراہیم شبر حسینی ٤١۔ اَخْبَارُ اَبِیْ طَالِبْ وَوُلْدِہْ حافظ ابی الحسن علی بن محمد بن عبداللہ بن ابی سیف مدائنی م ٢٢٥ھ ٤٢۔ اَخْبَارُ اَبِیْ طَالِبْ وَعَبْدُالْمُطَّلِبْ وَعَبْدُاللّٰہْ وَآمنَةْ بِنْتَ الْوَہَبْ شیخ محمد بن علی بابویہ معروف بہ شیخ الصدوق م ٣٨١ھ ٤٣۔ اَثْبَاتُ اِسْلاَمِ اَبِیْ طَالِبْ مولانا محمد معین بن محمد امین بن طالب حنفی ہندی سندھ ٤٤۔ اَبُوْطَالِبْ وَبَنُوْہُ سید محمد علی سیدعلی خان ٤٥۔ اَبُوْطَالِبْ مومِنِ قُرَیشْ شہیدعبد اللہ بن علی اَلْخُنَیْزِیْ سعودی عرب ٤٦۔ اَبُوْطَالِبْ حَامِیَ الْرَّسُوْلِ وَنَاصِرُہْ نجم الدین عسکری م ١٣٩٠ھ مطبوعہ عراق ٤٧۔ اَبُوْطَالِبْ عَمِّ الْرَّسُوْل محمد کامل حسن اَلْمَحَلَّمِییْ مطبوعہ بیروت ٤٨۔ اِیْمَانِ اَبُوْطَالِبْ شیخ محمد ابراہیم صائم چشتی ٤٩۔ نَاصِرِ رَسُوْلۖ علامہ یعقوب شاہ حیدری کاظمی جہلم ٥٠۔ نِکَاحْ خوَانِ رسَالَتْ کرنل محمد انور مدنی لاہور ٥١۔ نَقِیْبِ مُصْطفیٰ ڈاکٹر مخدوم پیر سید علی عباس شاہ منڈی بہاء الدین ٥٢۔ ماہنامہ حکیم الامت ابوطالب نمبر بانی پروفیسر اکبر حیدری کشمیری، مدیرڈاکٹرظفر حیدری سری نگر کشمیررمضان ١٤٣٥ھ قرون ِاولیٰ کے خطی نسخوں سے لے کر عہد ِحاضر تک کی جدیدمطبوعات ،تحقیقی مقالات ومسودہ جات علی الاعلان وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَٰطِلُجاِنَّ الْبَٰطِلَ کَانَ زَھُوْقاًة17:81 کے مژدہ ہائے جانفزاہیں۔ جَزَی اللّٰہُ الْمُرَوّجُ کُلَّ خَیْرٍ، لِنُصْرَةِ عَمِّ خَیْرِ الْاَنْبِیَائ کِتَاب لِّلْھُدیٰ اَقْویٰ دَلِیْل، بِہ اَسْوَدْتَ وُجُوْہُ الْاَدْعِیَائ
Shah Saeed ul Hasan Gillani
تحریر: شہزادئہ غوث الوریٰ علامہ سید سعید الحسن گیلانی مئولف کتاب”خزینۂ سادات ورزم ِحق”،پیر آف پوٹھوہار،پاکستان