تحریر: محمد عتیق الرحمٰن حقوق وفرائض کی ادائیگی اور باہمی تعاون کوفروغ دینا اسلامی معاشرے کا ایک بنیادی اصول ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ آج کے مادیت، حرص اور دنیاپرستی کے دور نے حضرت انسان سے اس کا مقصد حیات ہی چھین لیا ہے ۔ایک ایک فرد کی آمدن ایشیاوافریقہ کے بعض ممالک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہے ۔آدمیت ایڑیاں رگڑ رہی ہے ،انسان فاقوں سے مررہاہے ،قحط ،وباؤں ،قدرتی آفات اور جنگوں کے باعث لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہوچکی ہے ۔دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ سمجھ نہیںآتی کہ دولت کو کہاں اور کیسے خرچ کریں جبکہ غریب ولاچار لوگوں کو زندگی بھر وہ خوراک دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوتی جو امیر لوگوں کے کتے کھاتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک بے شمار این جی اوزاورفلاحی ادارے پاکستان میں باہر سے آئے بھی اور خود پاکستانیوں نے بھی بنائے ۔جن میں کچھ تو محب وطن درددل رکھنے والے پاکستانیوں نے بنائے اور انہوں نے گرانقدر خدمات سرانجام بھی دیں اور کچھ غیرملکی ایجنڈے کولے کر آئے اور پاکستان میں فرقہ واریت ،لسانیت ،جرائم اور اسلام دشمنی کوفروغ دیا ۔انہی محب وطن اور درددل رکھنے والے لوگوں کی تنظیم بنام فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (پاکستان) بھی ہے جس کے چئیرمین حافظ عبدالروؤف اور وائس چئیرمین شاہد محمود ہیں ۔حافظ عبدالروؤف سے میری ملاقات فیصل آباد میں ایک تقریب کے دوران ہوئی تھی جو ان کی طرف سے ڈاکٹراور پیرامیڈیکل سٹاف کے لئے منعقد کی گئی تھی۔حافظ عبدالروؤف کے لیکچر کے الفاظ خدمت انسانیت کی بولتی تصویریں تھیں۔ دھیماسالہجہ اور خدمت انسانیت سے بھرپور یہ شخص مجھے ایک سچا مسلمان لگا اور میں وہاں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ہم تو صرف زبانی کلامی باتیں کرکے اپنے دل کو راضی کرتے ہیں یہ لوگ اللہ کے بندوں کی خدمت کرکے اللہ کو راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں میں تھر میں ان کے کام کو سنتے ہوئے اور فیصل آباد فیسکوہیڈ کوارٹر میں ہونے والی آتش زدگی میں ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے دل کیا کہ اس جماعت کے متعلق کچھ لکھوں گوکہ یہ ایک چھوٹا سا ہدیہ ہوگا ان عظیم لوگوں کے لئے جو خدمت انسانی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے بغیر کسی رنگ ونسل ،مذہب وبرادری کے دنیا کے ہرکونے میں خواہ وہ ان کے جانی دشمنوں کا ہی ملک کیوں نہ ہمہ وقت تیاررہتے ہیں ۔
Falah E Insaniat Foundation
2005ء کا زلزلہ شاید ہی کسی پاکستانی کو بھولا ہو اس میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کام دیگر تمام تنظیموں ،غیرملکی این جی اوز اور رفاہی اداروں نسبت تیز اور بہتر تھا۔ یہ لوگ بغیر کسی بھاری مشینری اور دوردراز علاقوں میں اس قدر تیزی سے پہنچے کہ غیرملکی تربیت یافتہ ادارے بھی ان کی اس کاوش کو سراہتے ہیں ۔جب ہرطرف لاشوں کے ڈھیر تھے اور زخمیوں کی بیشمار تعداد کسی غیبی مددکی منتظر تھی تو اس وقت میں اسی تنظیم کے لوگ ان علاقوں میں پہنچے اور گاڑیوں کی ہیڈلائٹس میں درختوں کی لکڑیوں سے ہڈیوں کو جوڑنے کی کوششیں اور صاف پانی وخوراک کی دستیابی انہی لوگوں کی مرہون منت تھیں ۔پھر بعد میں متاثرین کی بحالی کے لئے کام کو دیکھتے ہوئے ان کے کام کی مثالیں آج تک دنیا دیتی ہے ۔پاکستان میں ہرسال سیلاب آتاہے جس میں زیادہ ہاتھ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا ہوتا ہے۔
سیلاب کے موقع پر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کام دیکھنے کے لائق ہوتا ہے جہاں پر دوسری تنظیمیں ،رفاہی ادارے پہنچنے سے معذرت کرلیتے ہیں وہاں پر ان کے تربیت یافتہ باریش نوجوان پہنچ کر امداد اور ریسکیوکرتے ہیں ۔گہرے پانیوں میں راتوں کو اپنی جانیں خطروں میں ڈال کرلوگوں کو ریسکیوکرنا ان تک خوراک اور ادویات وغیرہ پہنچانا ان کو دیگر تنظیموں سے جدا کرتا ہے ۔بیرون ملک جماعۃالدعوہ نے کشمیر، فلسطین اور برما جہاں مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ہمیشہ سے ان کی امداد اور پاکستان میں دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کو ملک پاکستان میں مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس کی رفاہی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایسی خدمات ہیں جو کل کو پاکستان کی تاریخ لکھنے والا مؤرخ سنہری حروف سے لکھے گا۔ان لوگوں کی خدمت انسانی میں ایسی تربیت کی گئی ہے کہ بین الاقوامی ادارے بھی دوردراز علاقوں میں امداد پہنچانے کے لئے ان کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔جماعۃ الدعوۃ کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کاموں کودیکھتے ہوئے ہی امریکہ کے یو۔ایس۔ایڈ کے قونصلر ڈاکٹر راجیوشاہ نے وفدکے ہمراہ سندھ ہائی کورٹ بنچ کے بالمقابل سکول سکھرمیں جماعۃ الدعوۃ کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے مرکزی کیمپ کا دورہ کیا
اور ان کی رفاہی سرگرمیوں کوسراہا اور ورلڈفوڈ پروگرام کی جانب سے متاثرین میں تقسیم کے لئے 2ٹرک خوراک کے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کودئیے۔جب اوپر سے پریشر آیا تو قونصلر کے دورے کی بھرپور انداز میں تردید کی گئی ۔جماعۃ الدعوہ کے سیلاب متاثرین کی بحالی وامداد کے کاموں کو مغربی میڈیا میں بھرپور کوریج کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا میں اکثروبیشتر جگہ ملنے کے ساتھ ساتھ ان سچے محب وطن پاکستانیوں کے خلاف زہرافشانی بھی ہوتی رہتی ہے ۔جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار اسلام کوپسند کرنے والے اور اسلام کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کا جذبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر نافذ بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے رفاہی کاموں کو بھی بھارتی ومغربی دنیا اسلام کی جیت سمجھتے ہوئے ان کے خلاف پروپیگنڈہ ودیگر حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
Falah E Insaniat Foundation
پچھلے سال بھی فلاح انسانیت نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے 5 بڑے شہروں میں اپنے ہسپتالوں میں تقریباََ 4 لاکھ مریضوں کا علاج کیا۔ فلاح انسانیت کی دیہات اور پسماندہ علاقوں میں 168 کے قریب ڈسپنسریاں ہیں جن میں 14 لاکھ سے زیادہ لوگوں کاعلاج کیا گیا ہے ۔2014ء میں زلزلہ، سیلاب ،قدرتی آفات اور پسماندہ ترین علاقوں میں 1060 کے کیمپ لگائے گئے جن میں ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب پاکستانیوں کا مفت علاج کیا گیا۔اس کے علاوہ بلڈ بنک وبلڈڈونر سوسائٹیز ،ایمبولینس سروس، ویکسی نیشن پروگرام ، سیو آئی ویژن ،افطارالصائم،فراہمی لباس پروگرام اوربہبوداسیران جیسے کئی منصوبے صحت وتعلیم کے شعبے میں کارفرماہیں۔ کبھی وقت تھا کہ پاکستان میں غیرملکی این جی اوز امداد کے نام پر مجبور ولاچار لوگو ں کے عقیدے اور نظریہ پاکستان سے محبت کو خریدتے نظر آتے ہیں لیکن اب فلاح انسانیت جیسی تنظیموں کی بدولت اس طرح کی این جی اوز کاکام ختم ہوچکاہے ۔فلاح انسانیت جیسی تنظیمیں ہمارا قابل فخر اثاثہ ہیں یہ پاکستان کی اپنی تنظیم ہے کہ جس کا لوہا دشمن بھی مانتے ہیں۔تھرمیں آپ کہیں بھی چلے جائیں۔
آپ کو ان اللہ کے بندوں کی طرف سے کروایا گیا کام نظر آئے گا جو آپ کو مجبور کردے گا کہ آپ اگر انسانیت کی مددکرناچاہتے ہیں تو فلاح انسانیت جیسی تنظیموں کی خدمات حاصل کریں جو پاکستان کے علاوہ ،کشمیر،فلسطین،شاماور برمی مسلمانوں کی امداد میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء مبارک باد کےمستحق ہیں کہ انہوں نے ایسے پاکستانی نوجوانوں کی کھیپ تیار کردی ہے جو نماز،روزہ،حج اور دیگر مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کو اپنامذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کئی غیر مسلم ان کے رفاہی کاموں کودیکھتے ہوئے مسلمان ہوچکے ہیں اور کئی پاکستانی پھر سے پاکستان سے محبت کرنے لگ گئے ہیں ۔نبی مکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جوکوئی کسی کی پریشانی کو دورکرے گا اللہ قیامت کے دن کی اس کی پریشانی کودورکر ے گا۔اسلامی معاشرے میں سبھی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ امت مسلم امت واحد ہے۔