تحریر : اختر سردار چودھری چارلس رابٹ ڈارئون 1809 میں برطانیہ میں پیدا ہوا اپنا نظریہ ارتقا تقریبا یکم جولائی ْ1858 کو لندن میں ایک اجتماع میں پیش کیا جیسے بعد میں کتابی شکل دی گئی ۔برطانوی حکومت نے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان چارلس رابرٹ ڈارئون کے جائے پیدائش اور کام کرنے کی جگہ کو عالمی ورثہ قرار دیدیا ہے ۔چارلس ڈارئون نے 1882ء میں وفات پائی۔ ڈارئون ازم مکمل جھوٹا نظریہ یہ ثابت ہونے کے باوجود بھی اسے کیوں زندہ رکھا جا رہا ہے اس سے زیادہ اہم سوال یہ کہ اس نظریہ کو ہمارے نصاب سے اب تک خارج کیوں نہیں کیا گیا ۔پھر یہ کہ اگر پڑھایا جانا ضروری ہی ہے تو ساتھ اس کی خامیاں بھی پڑھائی جائیں ۔تاکہ ہماری نسل اس ملحدنظریہ پر یقین کرنے سے بچ سکے ۔جب کہ اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے ثبوت بھی دستیاب ہیں دلائل بھی ہیں ۔بے شک کہ کچھ سائنس دان اسے درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ان کے اپنے مفادات ہیں ۔سائنس سے زیادہ ان کو اپنے مفاد عزیز ہیں تو دوسری طرف سائنس دان ہی اس پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈارئون نظریہ کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے اور اسے دلائل سے رد کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس کا دفاع کیوں کیا جا رہا ہے ۔حالانکہ یہ ایک دھوکہ ہے فریب ہے جھوٹ ہے ۔یورپ و امریکہ اور ایشائی ممالک میں ڈارئون ازم پر تنقید کی جاتی ہے ،روس و بھارت میں اس کی حمایت کی جاتی ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں ڈارئون کا نظریہ ارتقا پڑھایا جاتا ہے ۔اور بہت کم اس پر تنقید کی جاتی ہے ۔اور نہ ہی طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک چارلس ڈارئون نامی نام نہاد سائنس دان نے جھوٹ لکھا تھا جس کی سچائی کے لیے نہ اس کے پاس اور نہ ہی اس کے پیروکار بندر کی اولاد کے پاس ہیں۔
مسلمان ممالک میں بھی اس نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کر کے خام ذہنوں کو خراب کیا جارہا ہے ۔مختصر طور پر نظریہ ارتقا کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے ۔سب سے پہلے پانی میں موجود یک خلوی جاندار مثلاً امیبا میں تبدیل ہوئے اور پھر ارتقا کے نتیجے میں مختلف شکلوں کے حیوانات وجود میں آئے پھر یہ حیوانات مزید ارتقائی مراحل سے گزر کر نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ جانوروں مثلاً بندروں یا جیسے کہ بعض کا خیال ہے کتوں کی صورت اختیار کر گئے اور پھر ارتقائی مراحل کی آخری کڑی کے طور انسان وجود میں آیا۔اس نظریہ کو خود سائنس ہی رد کرتی ہے۔مثلاً حشرات الارض ساڑھے تین سو ملین سال پہلے اپنے ظہور سے لے کر اب تک ایک ہی شکل و صورت کے حامل ہیں۔جب اتنے چھوٹے جانداروں میں بھی کسی قسم کا تغیروتبدل نہیں ہوا تو ڈارئون ازم کے حامیوں کا یک خلوی جانداروں سے کثیر خلوی جاندار اور پھر بندر سے انسان بننا اس کی کوئی دلیل یا ثبوت نہیں ہے ۔ڈارئون کے مطابق لاکھوں سال پہلے گھوڑا ایک چھوٹا سا جانور ہوتا تھا،جس کے پاؤں میں پانچ ناخن ہوتے تھے ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی جسامت بڑھ گئی اور اس کے پائوں کا ایک سم رہ گیا۔
ALLAH
ان کی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اس کو سائنس مانتی ہے کہ شہد کی مکھی دس کروڑ سال پہلے بھی اسی انداز سے شہد بناتی تھی جیسے آج بناتی ہے ۔ڈارئون ازم کے تحت تو مکھی کو اب تک ہاتھی بن جانا چاہیے تھا۔اسلام اور دیگر الہامی مذاہب کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو پیدا کیا ،پھر اس کا جوڑا حضرت حوا کو پیدا کیا ،جنت میں رہے پھر دنیا میں بھیج دئیے گئے ،یہاں ان سے اولاد آدم پھیلی یعنی انسان روز اول سے ہی اپنی اسی شکل و صورت میں ہے ۔سائنس نے اتنی ترقی کر لی لیکن کوئی ایک معمولی سا واقعہ بھی نظریہ ارتقا کے حق میں نہیں ہوا ۔مثلاگدھا ،گھوڑا بن گیا ہو ،چڑیا ،مرغی بن گئی ہو،چیونٹی ،بھینس بن گئی ہو۔یہ صرف ایک قیاس ہے اور بس جسے ملحدین نے اپنے مذہب(ملحدیت)کے مطابق پایا اور اس کو درست سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس سے تمام الہامی مذہب پر چوٹ پڑتی ہے ۔اور ملحد اپنا دفاع اس نظریہ سے یوں کرتے ہیں کہ اس کائنات کو کوئی بنانے والا نہیں ہے سب خود بخود بن گیا۔
مثلاً قانون ِ وراثت کے متعلق ڈارئون کہتا ہے کہ لوگ کچھ عرصہ تک کتوں کی دم کاٹتے رہے (ان کو پاگل کتے نے کاٹا تھا جو ایسا کرتے رہے) جس کانتیجہ یہ ہوا کہ کتے بے دم پیدا ہونے لگے ۔اس پر سائنس دان کہتے ہیں کہ عرب اور عبرانی لوگ عرصہ دراز سے ختنہ کرواتے چلے آرہے ہیں لیکن آج تک کوئی مختون بچہ پیدا نہیں ہوا ۔اسی طرح ڈارئون کا نظریہ میں”ماحول سے ہم آہنگی ” کو جھوٹ کا پلندہ کہ کر رد کیا جاتا ہے کہ انسان کے پستانوں کا بدنما داغ آج تک کیوں باقی ہے جس کی کسی دور میں بھی کبھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ بندر کو اپنا باپ ماننے والے (یہ کوئی گالی نہیں ہے ڈارئون ازم ہی یہ ہے)۔
دعویٰ کرتے ہیں کہ چیمپینزی او ر انسان کے جین میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس بات کو انسان اور چیمپینزی کے درمیان مماثلت اور نظریہ ارتقا کی تصدیق کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔اس کا جواب کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے دیا اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ”ٹماٹر” سے ہونا چاہیے ، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے ۔انسان اور مرغی کے جین میں بھی چیمپینز ی سے زیادہ یکسانیت موجود ہے۔بعض سائنس دان تو ڈارئون کے نظریہ ارتقا کو سائنسی نظریہ ہی نہیں مانتے آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارئون کامذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔اسی طرح دورِ جدید کے ایک سائنسدان دْواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقائ(اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا) محض ایک فلسفیانہ خیال ہے ، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔