تحریر : روہیل اکبر پاکستان کو جہاں دہشت گردی جیسے ناسور نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہی پر ہمارے سیاسی اور معاشی دہشت گردوں نے بھی ملک کو تباہ کرنے اور لوٹنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا یہی وجہ ہے آج سماجی ناانصافیاں اور معاشی عدم استحکام ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی دو رکاوٹیں ہیں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کرنے سے ہی ایک ماڈل معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جبکہ ہمارے معاشرتی مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن موجودہ اورسابقہ تمام حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں معاشرے سے ظلم و جبر اور ناانصافی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ہیں اور عام آدمی کا استحصال بڑھتاہی گیااب کوئی محکمہ ایسا نہیں ہوگا جہاں لوگ کام کرنے کی نیت سے دفتروں میں نہیں آتے بلکہ وہ مال اکٹھا کرنے کے لیے اپنے اپنے دفاتر کا چکر لگاتے ہیں جہاں پر بیٹھ کر وہ عوام کا گلا دبا کر ان سے پیسے نکلوا سکیں
یا پھر انہیں کاغذات کے چکر وں میں ایسا پھنسائیں کہ اس غریب کی جوتی گھس جائے جس طرح ہماری مسلح افواج نے طالبان نما پودے کو جو کچھ عرصہ قبل ایک طاقتور درخت بن چکا تھا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اسی طرح اب انہیں ہمارے ان سیاسی اور معاشی دہشت گردوں کا بھی قلع قمع کرکے پاکستان کو حقیقت میں اسلامی فلاحی ریاست بناناپڑے گا تاکہ ملک میں جاری بحرانوں سے نجات مل سکے عوام کے دلوں پر راج کرنے کیلئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا ضروری ہے قیام پاکستان کے بعد ملک میں پاکستان کے اصل مقاصد کی تکمیل نہ کی گئی بلکہ ملک کو نظاموں کی تبدیلی کی تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے سماجی نا انصافیوں اور معاشی عدم استحکام سے ملک میں امیر ، امیر تر ہوگیا جبکہ غریب روٹی روزی کو ترسنے لگا آج اگرمنظم پالیسی کے مطابق ہر پاکستانی کو بنیادی سہولیات فراہم کردی جائیں تو نہ صرف معاشرہ رول ماڈل بن سکتاہے
بلکہ غیر طبقاتی معاشرے کے قیام سے کام کی اہلیت کے مطابق معاوضہ ضرورت کے مطابق عوام کو روٹی کپڑا مکان روزگارکی بلاتحصیص فراہمی ممکن ہوسکتی ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہوسکے گا جبپاکستان کو بد عنوان عناصر سے پاک کرکے ملک میںآئین اور قانون کی بالا دستی قائم کردی جائے۔قوم اور ملک کا درد رکھنے والے ساہیوال کے ایک نامور وکیل جاوید سرور چوہدری نے گذشتہ روز ایک خط کے زریعے چندبنیادی عوامی مسائل کی طرف حکمرانوں کی توجہ دلائی ہے جو شہریوں کے لیے درد سر سے کم نہیں ہے انکے مطابق عوام کا پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہپیدائش ‘وفات ‘شادی اور طلاق کا متعلقہ یونین کونسل میں لیٹ اندراج سائلین کے لیے درد سر بن چکا ہے جبکہ سکولوں میں بچوں کے داخلہ اور امتحانات کے لیے ب فارم کی شرط عائد ہونے کے بعد لاعلم والدین اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش کے اندراج کے لیے یونین کونسلوں میں رجوع کرتے ہیں
Birth Certificate
جہاں پر انہیں مکمل آگاہی نہ ہونے اور چکوک کے چوکیدارجن کا کام تاریخ پیدائش وفات ریکارڈ مرتب کرنا اور گاؤں میں پہرہ دینا ہوتا تھا کے ریکارڈ کو نسل درنسل منتقل نہ ہونے اور قیمتی ریکارڈ کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ضائع ہونے کے باعث سخت دشواریوں کاسامنا ہے والدین اپنے بچوں کی پیدائش کا لیٹ اندراج کروانا چاہتے ہیں جن کو پیچیدہ اور مشکل ترین پراسس سے گذار اجاتا ہے بعض ناخواندہ والدین تکلیف دہ مشکل پراسس مکمل نہ کرسکنے کے باعث اپنے بچوں کو سکول کی پڑھائی سے ہٹاکر اپنے گھر بٹھالیتے ہیں اس طرح نہ صرف تعلیمی نقصان ہورہا ہے بلکہ 1961سے موجودریکارڈ دستیاب نہ ہونے کے باعث سائلین کو پیدائش ‘وفات ‘شادی اور طلاق کا متعلقہ یونین کونسل میں لیٹ اندراج سخت مشکلات پیدا کررہا ہے کچھ عرصہ قبل محکمہ لوکل گورنمنٹ کے تعاون سے بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن کو 100فیصد ممکن بنانے کیلئے یونین کونسل سطح پر خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا تھا
مگر عملی طورپر عوام کو آگاہی نہ ہونے کے باعث خصوصی مہم کا عوام کو کچھ فائدہ نہ ہوا عوامی احتجاج پر سات سال سے کم عمر بچوں کی تاریخ پیدائش کا اندراج ایڈمنسٹریٹر کے اختیار میں دیا گیا جس سے کچھ ریلیف ملا مگر سات سال سے اوپر تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کا مکمل لیٹ اندراج عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا جس سے عدالتوں پر مزید بوجھ پڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے تاریخ وفات اور سات سال سے اوپر تاریخ پیدائش نظام ناممکن ہوگیا ۔اور انکا دوسرا بڑا عوامی مسئلہ بھی زرا ملاحظہ کرلیں۔
پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF)کی طرف سے جماعت نہم دہم میٹرک میں وظائف حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات کے لیے فارم میں زیادہ سے زیادہ والدین کی آمدنی 15ہزار روپے کی شرط طلبہ طالبات اور والدین کے لیے دردسربن گئی ہونہار ذہین طلبہ وظائف کے نامزد ہونے کے باوجود وظائف فارم جمع کروانے اور وظیفہ حاصل کرنے سے محروم ،،حکومت کی طر ف سے مزدور کی کم سے کم اجرت 13ہزارروپے کا اطلاق دونوں میاں بیوی کے کم ازکم اجرت پر مزدوری کرنے پر غریب سے غریب شخص پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF)کی طرف سے جاری کردہ شرائط پر وظیفہ لینے سے محروم پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF)فی الفور والدین کی آمدنی 15ہزار روپے کی شرط ختم کرے
Punjab Government
پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کی طرف سے وظیفہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آمدنی 15ہزارکی شرط بے مقصد ہے حکومت پنجاب کی طرف سے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کے زیراہتمام جماعت پنجم ، ہشتم اور نہم دہم اور ایف اے ایف ایس سی کے طلبہ طالبات جنہوں نے نمایاں پوزیشن یا نمبروں میں امتحان پاس کیا ہو وظائف دیے جاتے ہیں پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کی طرف سے جاری فارم میں طلبہ وطالبات کو پابندکیاجاتاہے اس وظیفہ کا حامل وہ طالب علم ہے جس کے والدین کی آمدنی ماہانہ 15ہزار روپے سے کم ہو وہی اس وظیفہ کا حامل ہے وفاقی حکومت کی طرف مزدور کی کم سے کم اجرت 13ہزار روپے مقرر کی گئی دونوں میاں بیوی کے مزدوری کرنے پر 26ہزا رروپے ماہانہ آمدنی بنتی ہے
سکیل 1تا4کے سرکاری ملازم کی تنخواہ16ہزارروپے سے زائد ہے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کے جاری کردہ قانون کے مطابق ایک عام مزدور کا بیٹا نمایاں کارکردگی دکھانے کے باوجود پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کے معیار پر پورانہیں اترتا گریڈ15سے اوپر کے ملازمین کے بچے جو امتحانات میں پہلی دوسری اور تیسری پوزیشنیں حاصل کرکے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کے وظائف حاصل کرنے والوں کی ٹاپ لسٹ پر ہے
ان کا زیادہ سے زیادہ آمدنی 15ہزارروپے شق کے باعث وظائف سے طلبہ وطالبات کو محرومی کا سامنا ہے اس شرط کے باعث سینکڑوں طلبہ اول دوم سوم آنے اور پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) کی لسٹ میں سرفہرست نام آنے کے باوجود وظیفہ لینے سے محروم ہونگے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ ( PEEF) انتظامیہ کو ذہین طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے والدین کی آمدنی 15ہزار روپے کی شرط ختم کرنا ہوگی تاکہ طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔