تحریر : نسیم الحق زاہدی اسلام دین فطرت ہے اور اسلام کی آفاقیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج پوری دنیا کے مسلمان یہو د و نصاریٰ کے اعصاب پر سوار ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو کبھی دہشت گرد تو کبھی امن کا دشمن قرار دے کر دیوار کے ساتھ لگانے کی مذموم سازشیں اور ناکام کوششیں کی جا تی ہیں عالمی مناظر کا طائرانہ جا ئزہ لیا جائے تو اقوام عالم کی مسلمانوں کیخلاف منافقانہ پالیسی کھل کر عیاں ہو تی ہے کہ جس نہج پر بر ما کے معصوم مسلمانوں کو ظلم و بریت کا نشا نہ بنا جارہا ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار وہ ممالک کہاں خواب خرگوش کی نیند سو رہے ہیں جو کسی مسلمان کے خلاف ایکشن لینے کے کے لئے تو ہمہ وقت تیا ر رہتے ہیں کیا ان کو بر ما میں ظلم و ستم کی داستان رقم ہو تی ہو ئی نظر نہیں آ تی ،عالمی حقوق کے علمبردار ہو نے کے دعو یدار اقوام متحدہ کی ر پورٹ کے مطابق برمی مسلمانوں کو قتل کے بعد اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جا تا ہے
کئی قبروں سے کٹے ہو ئے انسانی اعضا ء بر آ مد ہو ئے ہیں جس میں برما کی فوج اور سیکیورٹی فورسز براہ راست ملوث ہیں برما کی آنگ سان سوچی جس نے اپنے نام کے ساتھ عالمی حقوق کا علمبردار ہونے کا جعلی اور غیر اخلافی لیبل لگایا ہوا ہے اس وقت اس کی زبان کیوں بند ہو گئی ہے ؟جب جب مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے امن اور عالمی حقوق کے علمبرداروں کی زبانیں اور آنکھیں بند ہو جا تی ہیں ؟ یہ امتیازی سلوک صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں کیا جاتا ہے اس کی ایک خاص وجہ اسلام کی آفاقیت اورمسلمانوں کا آپس میں اتحاد ہے جس کی تپش صیہونیوں کی آنکھوںکو جلا تی ہے اور پھر وہ عالمی سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو منتشر کر دیتے ہیں۔
یہ 1982کی بات ہے جب بر ما کے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا جس کے پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ اپنا آزادانہ سوچ کا حق رکھتے ہو ئے بر ما کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ ملکر ریاست بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو مغربی ممالک کو ایک آنکھ نہ بھائی جس کی پاداش میں معصوم اور نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کا گھنائونا کھیل شروع کر دیا گیا ، صیہونی طا قتیں روز اول سے ہی مسلمانوں کے وجود سے خو فزدہ ہیں اور امت مسلمہ کے اتحاد کو اپنی بقا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں جس کو توڑنے کے لئے وہ سر توڑ کو ششیں کرتے آ ئیں ہیں تاریخ کے اوراق سے دیکھا جا ئے تو سلطنت عثمانیہ کو فر قہ ورانہ تفرقات میں ڈال کر تباہ کر دیا گیا
Myanmar Muslims
اگر دقیق نظری سے دیکھا جا ئے تو ہم آج تک اپنے فر قہ ورانہ فسادات سے ہی باہر نہیں نکل پائے ۔عراق کوشعیہ ، کرداور سنی عراق میں تقسیم کر دیا گیا ہے مسلمانوں کے قیمتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سازشیں ہمیشہ سے کامیاب ہو تی رہی ہیں عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایٹمی ہتھیار وں کا بہانہ بنا کر تیل کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کر لیا گیا ،غرضیکہ ہر وہ حربہ استعمال کیا جا تا ہے جس سے مسلمانوں کو کمزور اور بے بس کر دیا جا ئے اور ان کے وسائل کو قبضے میں لیکر اپنے تابع کر لیا جائے جس طرح عراق میںگریٹ گیم کی طرح صدام کو استعال کر نے کے بعد موت کی نیند سلا دیا گیا ،قذافی کو ٹشو پیپر کی طرح مسل کر پھینک دیا گیا اگر یہی مسلمہ امہ کی بقا اور اتحاد کی جنگ لڑتے
آج حالات قدرے مختلف ہو تے اور امت مسلمہ ان کی احسان مند ہو تی لیکن عالمی مسلم لیڈرز کے فقدان نے امت مسلمہ کو رہنمائی سے محروم رکھا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمد بن قاسم ،سلطان محمد فاتح جیسے رہنمائوں کی رہنمائی سے محروم مسلمان دربدر کی ٹھوکروں کی زد میں ہیں۔ لیکن اس وقت عصر حاضر کے محمود غزنوی امیر المجاہدین حافظ سعید امت مسلمہ کے دکھ درد بانٹنے اور امت مسلمہ کے خلاف استعماری قوتوں کا بھرپور جواب دینے کے لئے اپنی زندگی کو وقف کیے ہو ئے ہیں ،مجھے حافظ سعید کا ایک جملہ یاد ہے کہ آج ہمارے حکمرانوں اور امت مسلمہ کو دعوت کی ضرورت ہے جس سے ان کی اصلاح ہو سکے کہ امت مسلمہ کے موجودہ مسائل کیا ہیں
بہرحال اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی جس طریقے سے امداد اور داد رسی فلا ح انسانیت فائونڈیشن کر رہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی نہ جانے کتنی مشکلات سے برما کے مسلمانوں تک امداد پہنچائی جا رہی ہے لیکن یہ حافظ سعید کا پوری انسانیت کے لئے خالص انسانی و مذہبی جذبہ ہے جس کی بدولت کشمیر، برما اور تھر میں جس تیزی سے ان کی رہنمائی اور تعاون سے کام جا ری ہے یہی امر ہے کہ حافظ سعید صاحب امریکہ ، بھارت اور تمام صیہونی و یہودی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں کیونکہ ایک مسلمان کا درد پوری امت مسلمہ کا درد ہے اور اسی جذبہ کے تحت ا س وقت پوری دنیا میں ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی امداد کے لئے حافظ سعید کے ساتھ تعاون کی شدید ضرورت ہے۔