تحریر: پروفیسر مظہر ایٹمی پاکستان کو امریکہ نے کبھی دل سے تسلیم کیا نہ بھارت اور اسرائیل نے۔ پاک چائنااکنامک کوریڈور پر بھی اِن کا نقطہ نظر ایک ۔بھارت اکنامک کوریڈورپر برملااپنے تحفظات کااظہار کرچکا لیکن امریکہ مصلحتاََ خاموش۔ اب چین کے اقتصادی تعاون اور روس سے بڑھتے دفاعی تعلقات نے امریکہ اور بھارت کو مزید پریشان کردیا۔دونوں کی شدید ترین خواہش کہ پاکستان میں افراتفری پیدا کرکے دفاعی اعتبار سے مضبوط پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ سرنہ اٹھاسکے۔ پاکستان اقتصادی راہداری کی صورت میں چین کو مشرقِ وسطیٰ اور یورپ جانے کا مختصر ،محفوظ اور آسان ترین راستہ فراہم کررہا ہے جو بھارت کو قبول ہے نہ امریکہ کو۔ دوسری طرف امریکہ چین کامقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ عسکری اورجوہری تعاون متواتر بڑھاتا چلاجا رہاہے۔
جس کی شہ پاکر بھارتی ریشہ دوانیاں شتربے مہار۔ وہ ایٹمی پاکستان پرحملہ کرنے کی جرأت تو کبھی نہیں کرے گا لیکن سرحدوں پر چھیڑچھاڑ اور اندرونِ ملک ”را” کے ذریعے افراتفری پیدا کرنے کے لیے کسی بھی حربے سے باز نہیں آئے گا۔ اندریں حالات ہمیں ہرقدم پھونک پھونک کے رکھنا ہو گا لیکن اپنی یہ حالت کہ سیاسی جماعتوں میں ”مباہلہ جاری۔ ملکی سلامتی کی ناؤ بھنور میں پھنسی ،ڈگمگاتی ،ہچکولے کھاتی ہوئی لیکن ناخداؤں کی محفل (پارلیمنٹ) میں شرم کرو ،حیا کرو ،ڈوب مروکا شور ۔آلودگیٔ زباں میں سبھی بے مثل لیکن دعویٰ یہ کہ زبان آبِ کوثرمیں دھلی ہوئی ،فصاحت وبلاغت کے موتیوں سے مزین۔ صرف اُن لمحات میں ”جوئے نغمہ خواں” جب ووٹوں کی بھیک درکار،مطلب نکل جانے کے بعد ”سیلِ تندخُو” البتہ زور آور کی چوکھٹ پہ ہمہ وقت زاتوئے تلمذ تہ۔ خبطِ عظمت میںسبھی مبتلاء لیکن اِن ارسطوانِ دہرکی ہردلیل ناقص، حکمت ودانائی نام کونہیں، فکرمیں گہرائی نہ گیرائی ،الفاظ میںحسن نہ معانی میںوسعت۔ ساری سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوئی۔ زباںپہ زباںبدلنے میںمہارتِ تامہ ، ذراجھجک نہیں ،ذراشرم نہیں، ذراخجالت نہیں۔ دَھن کی دُھن میںسب ایک ،زانو بہ زانولیکن ایسے زیاںکار کہ اُسی درخت کی جڑوںپہ کلہاڑا چلانے میںمگن جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھے ہیں ،اُسی دھرتی ماںکی کوکھ اجاڑنے کی سعی جس نے اپنی آغوشِ محبت میںپال پوس کے بڑاکیا ۔
اب ایک ”مولوی ”پاکستان پرتیسری بارحملہ آورہونے آچکا ۔ارسطو نے کہا ”زیادہ باتیںکرنا دیوانگی کی دلیل ہے، چاہے وہ باتیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں”۔ خلیل جبران کے خیال میں”جو جتنا زیادہ بولتاہے ،وہ اتناہی کم عقل ہوتاہے ”لیکن یہ ”حضرت” گھنٹوں بلکہ پہروں بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ وہ کم عقل ہوںیا نہ لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ اُن کے طویل خطبات میں سچ کی آمیزش آٹے میںنمک کے برابر۔ دس، بیس ہزارکے مجمعے کوپچیس ،تیس لاکھ ثابت کرتے وقت ذراجھجک نہیں ،ذراشرم نہیں، ذراخجالت نہیں۔اُس مسلوب الحواس کی ”صدا”ایک مخصوص حلقے کے سوا کہیں مسموع نہیں۔ وہ حلقہ مریدین اورارادتمندوںکا کہ جنہیں اُس کاجھوٹ بھی سچ لگتاہے۔ اگست 2014ء میںیہی حضرت اسلام آبادپر حملہ آورہوئے تب کپتان صاحب بھی اِن کے ہمراہ تھے اور ملکی وبیرونی مقتدر قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل۔ایم کیوایم کی تمام ترہمدردیاںمولاناکے ساتھ اور چودھری برادران غلامِ بے دام۔ تب پیپلزپارٹی نے جی بھرکے نواز لیگ پر طنز کے تیربرسائے جواباََبے بسی کی تصویربنی نوازلیگ ”ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم”۔
Electronic Media
سارا الیکٹرانک میڈیا دھرنوں کی پشت پر اور لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج ، چائے کی پیالی میںطوفان اٹھانے والے تجزیہ نگارحکومت جانے کی تاریخ پہ تاریخ دیتے ہوئے لیکن نتیجہ یہ کہ ”بڑے بے آبروہو کرتیرے کوچے سے ہم نکلے”۔ مولانابستربوریا سمیٹ کر” اپنے دیس”سدھارے اورکپتان صاحب نے نہ صرف سانحہ پشاورکی آڑمیں دھرناختم کیا بلکہ اُسی پارلیمنٹ میںواپس آ گئے جسے جعلی کہتے کہتے اُن کاحلق خشک ہو گیا۔ اب مولانا آئے تو بیرونی قوتوں کے حکم پراقتصادی راہداری منصوبے کوسبوتاژ کرنے کے لیے ہیںلیکن اب پلوںکے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے۔ مولانانے پاکستان کی سرزمین پرقدم رکھتے ہی کپتان صاحب کواپناسیاسی ”کزن ”تو قراردے دیالیکن اسی کزن سے مشورہ کیے بغیرمولانا دھرنوںکے دنوںمیں اُنہیں بیچ منجدھارچھوڑ کرداغِ مفارقت دے گئے تھے ۔اب پتہ نہیںکپتان صاحب اُسی ”سوراخ”سے دوبارہ ڈسے جاتے ہیںیا نہیں۔ ایم کیوایم نے بھی اپنی سیاسی آڑھت چمکانے کے لیے مولاناکا ”اخلاقی” ساتھ دیالیکن اب لندن میںبیٹھے الطاف بھائی وقفِ مصیبت اورپاکستان میں ایم کیوایم کے گرد گھیرا تنگ اِس لیے اب کی بار مولانانے جوکچھ بھی کرناہے اپنے مریدین کے زورپر ہی کرناہے البتہ بیرونی طاقتیں اُن کی کامیابی کے لیے دعاگو ضرور ہوں گی۔
پاکستان کی تاریخ میںشاید پہلی باریہ معجزہ رونماہوا کہ سیاسی اورعسکری قیادت ایک صفحے پر، ایک خاموش معاہدہ مابین ”شریفین” کہ افہام وتفہیم کی اِس فضاء کوہر حالت میںشَک کی زہرناک بادِ سموم سے پاک رکھاجائے گا ۔میاں صاحب نے بہت اچھا کیا جو ملک کے دگرگوں اندرونی معاملات کے سلجھاؤ کے لیے اسٹیبلشمنٹ کوصفِ اول پہ لے آئے کہ سیاسی جماعتوںکی کچھ مجبوریاںہوتی ہیں، یقیباََنواز لیگ کی بھی ہوںگی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مجبوری نہیں۔ فوج کراچی کوامن کے نورسے منورکرنے کے لیے پُرعزم ،دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی ،ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کے خاتمے کے لیے بلا امتیاز آپریشن جاری ،بلوچستان میںباغیوںکی سرکوبی کے لیے پرعزم ، بہت سے باغی ہتھیارڈال چکے اورباقی قومی دھارے میںشامل ہونے کے لیے بیقرار۔سپہ سالارنے ملک دشمنوں کے ناقابلِ تسخیرقلعوں میںاپنے عزمِ صمیم کی منجنیقوںسے دراڑیںڈال دیں۔ زیادہ عرصہ نہیںجب یہ قلعے مسخربھی ہوجائیںگے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت وطنِ عزیزکو اقتصادی رفعتوںتک لے جانے کے لیے بیقرار ۔ہرمحبِ وطن کی خواہش کہ نوازلیگ کو”فری ہینڈ” ملناچاہیے کہ اُمیدکے سارے رشتے اسی کی ڈورسے بندھے ہوئے ۔اگرنواز لیگ قوم سے کیے گئے وعدے ایفاء نہ کرسکی توپھر وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ پیپلزپارٹی کی طرح اِس کی بھی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوںمیں ۔
میاںنواز شریف صاحب نے 29 جون کوکیاجانے والاکراچی کادورہ ملتوی کردیا جس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ نے برطانوی حکومت سے BBC پرنشر کی جانے والی اون بینٹ جونز کی ڈاکومینٹری اور 30 مئی 2012ء کوطارق میرکے برطانوی پولیس کو دیئے جانے والے بیان کی تصدیق چاہی ہے۔ شنیدہے کہ برطانوی حکومت نے تصدیق توکر دی ہے لیکن با ضابطہ طورپر آگاہ نہیں کیا۔ ہوسکتاہے کہ وزیرِاعظم صاحب اسی کا انتظارکر رہے ہوںتاکہ جب وہ بات کریںتو پورے وثوق سے کریں۔ اِس میںکوئی شک نہیںکہ اگریہ سب کچھ درست ہے توپھر ایم کیوایم پرپابندی بھی لگنی چاہیے اوراس کے رہنماؤںکے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بھی درج ہوناچاہیے۔ ایک خوف بہرحال دامن گیرکہ کہیںیہ سب کچھ کسی ”گریٹ گیم” کا دیباچہ تونہیں؟۔ عین اُس موقعے پرجب سیاسی اورعسکری قیادت اکنامک کوری ڈور کے لیے پرعزم، برطانوی صحافی نے دھماکہ کردیا، طارق میرکا برطانوی پولیس کودیا گیابیان اچانک سوشل میڈیاپر آگیا اور مولانا قادری بھی پاکستان پہنچ گئے ۔ آپریشن توکسی صورت بھی ختم نہیںہونا چاہیے اورنہ ہی ننگِ دیں ،ننگِ ملک ،ننگِ وطن ضمیرفروشوں کے لیے رعایت لیکن احتیاط ،بہت احتیاط کہ افراتفری نہ پھیلے۔ چال خرگوش کی نہیں کچھوے کی۔