جسے پیارے نبی کی عظمتوں کاپاس نہیں جنت تو کیا دنیا بھی اسے راس نہیں معرفت حق کے واسطے ضروری ہے پہچان اپنی مانے جوعقل کی وہ عشق شناس نہیں کیا نہ جائے سرشار حب رسول ہو کر بے جان ہے عمل کی کوئی اساس نہیں داغدارہے سیاہی کے دھبوں سے کتاب زیست پیش کرسکیں زندگی کاایسااقتباس نہیں کیا اعتبار کیاجائے اس کے ایمان کا جس مسلمان کو ہمسائے اپنے کا احساس نہیں محروم رہے گامحشر میں جنت سے وہ حسین کے غم میں ہوا جو اداس نہیں حج عمرہ کرنے کی تمناہی عبث ہے دیدار محبوب کی گر دل میں آس نہیں کرکے متاع نچھ اور بتایا صدیق اکبرنے محبت کے سودے میں آتا کبھی لاس نہیں مت ڈرائیں میلاد منانے والوں کو قیامت سے ان دیوانوں میں محشرکا خوف وہراس نہیں دیدارکے شربت سے ہی سیراب ہوںگے بجھا سکیں اور مشروب یہ وہ پیاس نہیں صدیق زبان مصطفی کے میٹھے میٹھے پھولوں جیسی شہد مصری میں بھی پائی جاتی مٹھاس نہیں