تحریر : اقبال زرقاش یکم رمضان بروز جمعہ 19جون 2015کو بوقت صبح 9.53پر پیر طریقت انجینئر خواجہ محمد فیروز حسن المعروف بابا جی (کشمیر والے )کے موبائل سے کال آئی۔ حسب معمول میں نے باباجی کو مخاطب کر کے سلام کرنا چاہا تو دوسری طرف سے بابا جی کے چھوٹے بیٹے کی تھر تھراتی ہوئی پر سوز آواز آئی کہ میں بابا جی کا بیٹا بول رہا ہوں،آج صبح بابا جی کا انتقال ہو گیا ہے ۔”اناللہ وانا الیہ راجعون ” اس خبر نے اچانک غم سے نڈھال کر دیا آنکھوں سے بے اختیار اشک جاری ہوگئے یقین نہیں آ رہا تھا کہ بابا جی اچانک اس دنیا سے پردہ فرما جائیں گے ۔بہرحال موت بر حق ہے اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا وہ اپنے فیصلوں پر قادر ہے دعا ہے کہ اللہ بابا جی کو اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔پیر طریقت خواجہ فیروز الحسن المعروف بابا جی ایک نا مور روحانی شخصیت تھے آپ ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ تھے آپ کی ذات بابرکات ،فطرت کی روحانی فیاضی اور باطنی عنایات کا ایک مکمل نمونہ تھی ۔شریعت “محمدی”کی تلقین آپ کی تبلیغ تھی آپ با شرح فقیر تھے ۔آپ خلاف شرح باتوں کو کبھی گوارہ نہ کرتے تھے اور تمام عمر اس پر عمل پیرا رہے۔
بابا جی 1942ء کو تحصیل ہجیرہ کے گاوںکھمیر ہموڑہ ضلع پونچھ آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی خواجہ ستار جنجوعہ کو ایک فقیر نے بشارت دی تھی کہ آپ کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو کامل فقیر ہو گا۔بابا جی نے حسب روایت دینی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور گائوں کے ایک پرائمری سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔بابا جی نے اپنی تعلیم مکمل کر کے بطور انجینئر ایک یورپین کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور اس کمپنی کو تربیلا ڈیم کا ٹھیکہ ملا ۔بابا جی تربیلا ڈیم کے معماروں میں شامل ہو گئے ۔اس کے بعد چشمہ بیراج ،غازی بروٹھا ڈیم جیسے پراجیکٹ پرآپ نے پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیں۔آپ کو موصل ڈیم عراق کی تعمیر میں بھی حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا ،بطور انجینئر سعودی عرب اور دیگر ممالک میں بھی آپ نے کام کیا ۔روحانی طور پر آپ نے حضرت خواجہ غلام محی الدین غزنوی نیروی سے فیض حاصل کیا ۔نیروی نے آپ کو سلسلہ نقشبندی کی خدمات عطا کیں اور فرمایا کہ فیروز حسن میرے سینے کا وارث ہے ،جو ان کے در پر آئے گا ہر مراد لے کر جائے گا۔
بابا جی فیروز حسن نے صدیوں پرانے خانگاہی نظام سے بغاوت کر کے عملی طور پر اپنے ہاتھ سے رزق حلال کمانے کو ترجیح دی اور ثابت کیا کہ ایک انجینئر ہوتے ہوئے بھی وہ روحانی فیض و برکات سے مخلوق خدا کو منور کر سکتے ہیں ۔آپ نے 36سال تک یورپین کمپنیوں کے ساتھ کام کیا اور ساتھ ساتھ روحانی منازل بھی جاری رکھیں۔آپ ایک سال تک مجذوبیت کی کفیت میں رہے اور گوشہ نشیبی اختیار کیے رکھی ۔حضرت محمد افسر چشتی کی دست شفقت آپ پر ہوئی اور آپ نے سلسلہ چشتی نظامی کی خدمت سے بابا جی کو فیض یاب کیا ۔عراق سے آپ کوسلسلہ قادری کی خلافت عنایت ہوئی آپ کو کمپنی نے کام کے سلسلہ میں سعودی عرب بلایا ۔آپ سعودی عرب مقام مقدسہ کی زیارت کر کے جب مسجد قباء میں آئے تو اس دوران عربی لباس میںملبوس ایک باریش شخص نمودار ہوا اور آپ کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر آپ دولت کے حصول کیلئے سعودی عرب آئے ہوئے ہیں تو ریگستان دولت سے بھرے پڑے ہیں اور اگر آپ کو اللہ چاہیے تو عمرہ کر کے واپس پاکستان چلے جائیں اور وہاں مخلوق خداکی اصلاح کا کام کریں پھر چلے جائیں مگر آپ نے کہا کہ مجھے جو حکم ملا ہے اس پر عمل درآمد کرنا میری مجبوری ہے۔
Khawaja Mohammad Ferooz
آپ نے کمپنی کو استعفیٰ پیش کیا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ آپ کو جتنی تنخواہ چاہیے ہم بڑھا دیتے ہیں مگر آپ نہ جائیں ۔بابا جی نے عمرہ کیا اور واپس پاکستان آگئے اس وقت ملک میں فرقہ واریت کی آگ عروج پر تھی ۔بابا جی نے لوہے کا ایک امن ماڈل بنوایاجو 8فٹ اونچااور 5فٹ چوڑا تھا جس کی مشابہت ایک درخت کی سی تھی اس درخت کی چار شاخیں چاروں صوبوں اور ایک شاخ کشمیر کی عکاسی کر رہی تھی ۔آپ اس امن ماڈل کو لاہور سے لے کر ایک قافلے کی صورت میں راولپنڈی سے ہوتے ہوئے ٹیکسلاکے نواحی علاقے بھلیسر لے کر آئے۔ معروف گلوکار عنایت حسین بھٹی بھی آپ کے قافلے میں شامل تھے جو امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے بابا جی کے ہم نوا تھے ۔بابا جی نے ملتان اور دیگر شہروں کے دورے کیے اورلوگوں کو امن اور بھائی چارے سے رہنے کی تلقین کی۔ زندہ پیر گھمگول شریف کوہاٹ کی طرف سے آپ کو بلاوا آیا اور آپ گھمگول شریف تشریف لے گئے ۔زندہ پیر گھمگول شریف نے آپ کو درخواست کی کہ وہ آپ کو کشمیر میں اپنا خلیفہ مقرر کرتے ہیں آپ وہاں جا کر انسانیت کی خدمت کریں مگر بابا جی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خانگاہی نظام سے دور رہنا چاہتے ہیں وہ دین اور دنیا دونوں کیلئے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں کہیں ایک جگہ بیٹھنا ان کے بس میں نہیںچنانچہ پیر آف گھمگول شریف نے آپ کے خیالات کو سراہا اور دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔ بقول اقبال۔۔۔ “نکل کر خانگاہوں سے ادا کر رسم شبیری”
بابا جی نے تمام زندگی جو کمایا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا حتٰی کہ باباجی کا اپنا مکان تک نہ تھا آپ کرائے کے مکانوں میں زندگی بسر کرتے رہے اپنے آبائو ،اجداد کی زمین اور مکانات بھائیوں کے سپرد کر دیے ۔بابا جی نے اپنی کئی کتب بھی تحریر کیںجن میں( رہنمائے طریقت و منازل روحانی) ،بابا جی کے مکمل حالات زندگی اور منازل روحانی پر ایک مفصل کتاب ہے۔بابا جی کے مریدین کی ملک بھرمیں ایک کثیر تعداد موجود ہے ۔بقول اشفاق احمد اہل اللہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں ان کا سکہ دلوں پر چلتا ہے ،باباجی کی زندگی سادگی کا ایک نمونہ تھی آپ نے ہمیشہ انسانیت سے محبت ،اخوت اور بھائی چارے کا درس دیاآپ کو آپ کی وصیت کے مطابق 19جون یکم رمضان بروز جمعہ کہوٹہ سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ان کے داماد ملک معین کے گائوں جلیاری شریف میں شام5بجے سپرد خاک کر دیا گیا ۔نماز جنازہ میں آپ کے عزیز و اقارب اور مریدین کے علاوہ صحافیوں ،وکلاء سیاستدانوں اور علماء کرام کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔جلیاری ایک حسین و جمیل بستی ہے جہاں چاروں طرف سرسبز پہاڑی سلسلہ ہے۔سیف الدین سیف کیا خوب فرمایا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی اولیاء اللہ زندہ رہتے ہیں ،جب انسان کے دل و دماغ پر سیاہی چھا جاتی ہے جب اس کے اعمال پر غیرت روتی ہے، ایمان ماتم کرتا ہے، جب جسم کے عیش کی پھٹکار چہرے پر آ جاتی ہے،
جب سکون دل عنقا ہو جاتا ہے ،جب پریشانیاں سکون کو متزلزل کر دیتی ہیںاور جب مصائب کمر توڑ دیتے ہیں تب اہل دل کے در پر حاضری اور ان کے مزاروں پر سلام و دعا سے اطمینان و سکون کی دولت ملتی ہے،افسردہ پریشانیاں ستاروں کی طرح دمک اٹھتی ہیں،پریشان دل شگفتہ ہو جاتے ہیں،بجھی شمیں روشن ہو جاتی ہیں۔ بقول اقبال۔۔۔ الہٰی کیا چھپا ہے اہل دل کے سینوں میں اللہ تعالیٰ خواجہ فیروز حسن بابا جی کی مغفرت کرے یہی ہماری عقیدت کا اظہار ہے ،محبت و خلوص کے پھول ہیں جو بابا جی کی نظر ہیں خدا انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ۔۔۔ بقول علامہ اقبال “یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی نہ مر سکے ”