مذہب اور معاشرہ

Women

Women

تحریر: محمد شہباز، کمالیہ
سنگدل سنسار اور محکوم و مغلوب افکار کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی سرراہ کانٹے بن کر اپنے ادبی اور مذہبی اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ادب دل میں ہوتا ہے اور اس کے لئے ہر کسی کے قرب یا وصال کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ہر کوئی دل کا محرم بھی تو نہیں ہوتا۔ درخشندہ ستارے جب تک جھرمٹ میں چمکتے ہیں تب تک انہیں کہکشاں کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن جب وہ ستارے علیحدہ ہوتے ہیں تو کہکشاں نہیں رہتے بلکہ صرف ستارے ہوتے ہیں۔ نسبت کسی بھی شے کا وہ قائم مقام ہوتی ہے جو اس کے ادب اور تعظیم کا کرتا دھرتا ہوتی ہے۔

اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم مذہب سے الگ ہو کر ترقی کی راہوں پر گامزن رہیں گے تو پھر ساتھ ہی مفکر کی سوچ اس نقطے پر بھی کچھ پلوں کے لئے ضرور ٹھہرنی چاہئیے کہ مذہب کے ساتھ منسلک رہ کر کیا ہم ترقی کے مفکر ہو جائیں گے یا ترقی ہم سے دور ہو جائے گی۔

ہم یہ تو بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو پھر ساتھ ہی یہ بھی تو دیکھنا ہوگا اور اسے بھی چشم مشاہدہ میں لانا ہوگا کہ آخر عورت کو یہ مقام کس نے دیا ہے؟ اور اس کی تعظیم ہم پر کس نے فرض کی ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ مذہب ہر فرد کا انفرادی مسئلہ ہے کہ وہ اسے کس طرح اپناتا ہے یا اپنے فکر اور عمل سے عملی جامہ پہناتا ہے تو پھر معاشرے کا تصور تو ختم ہو جا چا ہیے اور صرف فرد ہی فرد ہونا چا ہئیے۔جب ہر فرد کی بات ہوتی ہے تو اس کی معنویت یہی ہونی چا ہئیے کہ تمام افراد آپس میں ستاروں کے جھرمٹ کی طرح ہیں اور جب یہ صرف اپنے نفس کی بھوک پیاس مٹانے میں لگ جائیں تو پھر ان کے مقا م کا تعین کرنا مشکل ہو جائے گا۔

Society

Society

ْفرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

نسبت کسی بھی چیز میں کڑی کا کام سر انجام دیتی ہے افراد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جب کڑی ٹوٹتی ہے تو اس کا نقصان سب کو ہوتا ہے اب اگر یہ انفرادی مسئلہ ہوتا تو باقیوں کے لئے مشکلات جنم لینی چاہئیں مگر نہیں۔ ہم سب آپس میں کڑی میں پروئے گئے ہیں اور جب بھی پھولوں کے ہار میں سے کوئی پھول علیحدہ ہوتا ہے تو ہار کی خوبصورتی اور خوشبو میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔ جب ہمیں آپس میں بھائی بھائی بنا دیا گیا تو پھر ہمارے دکھ سکھ، خوشی غمی ایک دوسرے سے منسوب کر دی گئیںاور ہمیں آپس میں ایک نہ ٹوٹنے والی نسبت اور ایک مضبوط ترین اور مستحکم رشتے میں جوڑ دیا گیا مگر آج جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مذہب تو انفرادی معاملہ ہے تو پھر میرے اور آپ کے گھر کی عزت کا انحصار کس پر منحصر ہے؟

جب تعظیمی استحصال اور کردار کشی کسی ایک گھر کی ہوتی ہے تو اس کے اثرات کسی دوسرے پر کیوں منحصر ہوتے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں مختلف فرقوں کی بنیاد پر تفریق کا شکا ر ہیں مگر باہر تو میر ی اور آپ کی پہچان مسلمان یا پاکستانی کے نام سے ہے اور کامیابی یا ناکامی کے اثرات ان دونوں ناموں پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں پر تو کسی فرد کو یہ نہیں کہا جاتا کہ نہیں! مسلمان یا پاکستانی کے اسم گرامی کی بجائے اس واحد فرد کا نام لیا جائے۔ بلکہ وہاں اس نسبت کا ذکر اچھے یا بْرے الفاظ میں کیا جاتا ہے جب لفظ انسان کا استعمال کیا جاتا ہے تو پھر مراد پوری انسانیت ہوتی ہے کیونکہ نسبت انسانیت بن جاتی ہے اور نام انسان اگر اسرار حیات کو سمجھنا ہے تو پھر ایک قطرہ ہی کافی ہے جو کہ مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور مختلف صحبتوں کو ظاہر کرتا ہے بقول اقبال

زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا۔

یہاں جب بھی قطرے کو مختلف صحبتیں میسر آئیں تو اسے مختلف نسبتوں سے پہچانا گیا اور پھر اس کے مقامات میں بھی فرق رونما ہوا۔ ہماری مثال بھی اسی طرح ہے کہ اگر ہم خود کو مذہب اور ملک سے جدا کریں گے تو پھر ہماری نسبت ختم ہوجائے گی اور مقامات کا تعین مشکل ہو جائے گا۔ ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہے اور ہمیں مل کر ایک بہترین معاشرہ تعمیر کرنا ہے جس میں ہمارے کردار کی بھی تکمیل ہو اور ہم انفرادی حیثیت سے نکل کر آپس میں شفیق ہو جائیں اور ایک دوسرے کے احترام کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔

Muhammad Shahbaz

Muhammad Shahbaz

تحریر: محمد شہباز، کمالیہ