تحریر : طارق حسین بٹ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کرنی شروع کر رکھی تھی اس نے جنگ کے امکانات کو بہت زیادہ بڑا دیا تھا۔ان کا یہ کہنا کہ پاکستان اپنی حدود میں رہے نہیں تو اسے ایسا سبق سکھایا جائیگاجسے وہ کبھی بھی فراموش نہیں کر پائیگا ۔وزیرِ اعظم کی تقریر نے جس جنگی فضا کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس کے وزرااس سے پیچھے رہنے والے کہاں تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی میدان میں کود پڑے اور برِ صغیر کے افق پر ایک دفعہ پھر جنگ کے باد منڈلانے لگے۔پاکستانی وزیرِ اعظم پہلے پہل تو خاموش رہے لیکن پھر سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے منہ توڑ جواب کے بعد انھوں نے بھی چپ کا روزہ توڑا اور بھارتی قیادت کومتنبہ کیا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال لی جائیں گی۔
وزیرِ داخلہ چو ہدری نثار اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی با جرات موقف اختیا ر کیا جس سے بھارتی قیادت کو اپنا جارحانہ انداز واپس لینا پڑا اور نریندر مودی کو میاں محمد نواز شریف کو ٹیلیفون کر کے آتشیں ماحو ل کو سرد کرنا پڑا۔یہ سچ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایٹمی جنگ بالکل تیار کھڑی تھی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ جنگ وقتی طور پر ٹل گئی۔اس میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کا کردار اہم ہے یا بھارتی قیادت کا یہ احساس کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اسے اب دھمکیوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا اور اس کے خلاف جارحیت بھارت کو بھی دنیا کے نقشے سے مٹا سکتی ہے لہذا فی ا لحال اس سے جنگ میں الجھنے سے احتراز کیا جائے بلکہ کسی ایسے موقع کا انتظار کیا جائے جب پاکستان کے اندر انارکی پھیلے اور اور عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کے حالیہ بیان کو عوام اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ زبان جو نریندر مودی استعمال کر رہے ہیں وہی زبان آصف علی زراداری بھی بول رہے ہیں ۔ آصف علی زرداری بھی فوج کو سبق سکھانے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر رہے ہیں جبکہ یہی بات بھارتی قیادت بھی کر رہی ہے ۔دونوں میں باہمی یگانگت کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔آصف علی زرداری نے متنازعہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب بھارتی قیادت اپنے خونیں پنجے کھولے پاکستان کو سبق سکھانے کا اعلان کر رہی ہے ۔آصف علی زرداری کی اس بے وقت کی راگنی کو نہ صرف عوام نے مسترد کر دیا ہے بلکہ ان کی اتحادی جماعتیں بھی ان سے دور کھڑی ہو گئی ہیں۔
PML Q
مسلم لیگ (ق) جن سے ان کی قربتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ جو فوج کے خلاف منہ کھلوے گا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ عوام فوج کے خلاف کسی بھی قسم کی تنقیدی زبان سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔مولا فضل الرحمان،ولی خان اور دوسرے سیاسی اتحادی کہاں چلے گئے ہیں ؟انھیں تو کھل کر آصف علی زدورداری کا ساتھ دینا چائیے تھا لیکن وہ بھی بالکل غائب ہیں کیونکہ آصف علی زرداری نے جس طرح کی زبان استعمال کی ہے کوئی با شعور پاکستانی اس کا دفاع نہیں کر سکتا۔اس کا دفاع تو پی پی پی کے جیالوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ انہیں بھی انپی فوج سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کسی دوسرے پاکستانی کو ہے۔آصف علی زرداری کے اس طوفانی بیان نے جیالوں کو احساسِ ندامت میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ وہ اپنی فوج اور دھرتی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
ایک ایسی فوج جودھشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے د ے کر اسے منطقی انجم تک پہنچا رہی ہے ۔کہاں ہیں وہ سارے دھشت گرد جو دن دھاڑے ہمارے نو نہالوں کو ذبح کر دیتے تھے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے دل کے ٹکروں کا بڑی بے رحمی سے لہو بہا دیتے تھے؟ ایسی فوج کے خلاف سیاستدانوں کی ہرزہ سرائی کو پوری قوم نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ پوری قوم امن کی خوہش مند ہے جس کی ضمانت ہماری فوج ہے۔،۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس میں انارکی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری اپنے عروج پر ہے۔
نائین زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور پھر ایم کیو ایم کے کئی اہم راہنمائوں کی گرفتاری نے ایم کیو ایم کی دھشت گرد تنظیم کی جو شبیہ ابھاری اس سے ایم کیو ایم کو سخت دھچکہ لگا ہے۔ایم کیو ایم کے وہ سارے کارکن جو کراچی کو یرغمال بنائے ہوئے تھے اور عوا کا جینا حرام کئے ہوئے تھے دھیرے دھیر فوج کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں جس سے شہر کی رونقیں واپس آ گئی ہیں ۔ان ملزموں کی زبان سے اعترافِ جرم نے ایم کیو ایم کے چہرے پر سیاسی جماعت ہونے کا جو نقاب چڑھایا ہوا تھا وہ اتر چکا ہے اور عوام نے ایم کیو ایم کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے ۔ نائن زیرو پر فوج کے دھاوے نے ایم کیو ایم میں کھلبلی مچائی ہوئی ہے جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر دھاوے نے پی پی پی کی صفوں میں خلفشار پیدا کر دیاہے۔آصف علی زرداری نے اس دھاوے پر جس طرح کا ردِ عمل ظاہر کیا ہے وہ بڑ ا حیران کن ہے۔
Pak Army
ان کا یہ کہنا کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے اور سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے لیکن اگر اس نے اپنے قدم نہ روکے تو پھر پورے ملک میں ہڑتالیں اور پہیہ جام ہو گا۔ اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائیگی ۔آصف علی زرادری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی بھی حالت میں طیش میں نہیں آتے بلکہ معاملات کو گفت و شنید اور باہمی اتفاقِ رائے سے حل کرتے ہیں لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ وہ سندھ بلڈنگ پر رینجرز کے دھاوے کے بعد اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ پائے۔یوں لگتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا نکشاف ہونے والا ہے جس میں پی پی پی کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کئے جانے والے ہیں ۔سندھ رینجرز کے ہیڈ پہلے ہی کراچی میں کھربوں روپوں کی بلیک منی اور بد عنوانی کا اعلان کر چکے ہیں جس میں بڑے بڑے سیاسی مگر مچھ ملوث ہیں۔کیا پی پی پی کے کچھ بڑے نام اس فہرست میں شامل ہیں جس نے آصف علی زرداری کو آگ بگولہ کر دیاہے؟حقیقت کچھ بھی ہو اتنا تو بہر حال طے ہے کہ آصف علی زرداری کی اس پریس کانفرنس نے پی پی پی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔پنجاب میں فوج اپنا خاص اثر رکھتی ہے اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی پی پی پی کو مزید تباہی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔
انھیں اس بات کا ا حساس ہونا چائیے کہ پی پی پی بھٹو کے خون پر کھڑی ہے جو پنجاب میں اپنا خاص مقام رکھتی ہے۔پنجاب کے عوام نے اس جماعت کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب فوج بڑے معرکے سر انجام دے رہی ہے اس کے سپہ سالار کے خلاف گھٹیا زبان سے پی پی پی کا مستقبل مزید تاریک ہو جائیگا۔فوج اس وقت عوامی امنگوں کی ترجمان بنی ہوئی ہے کیونکہ ملک سے دھشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے فوجی جوان جس طرح اہنا لہو بہا رہے ہیں پاکستان کے عوام اسے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی معا ملات میں اتر چڑھائو تو آتے ہتے ہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب بھارت جیسا مکار دشمن پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کر رہا ہو ایک بڑی جماعت کا قائد اپنی ہی فوج کو للکارے اور اس کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کرے تو سمجھ جانا چائیے کہ ہمارے سیاسی قائدین نے اب بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔لوگ آصف علی زرداری کے بیان کو بھارت کو مداخلت دینے کی دعوت سے تعبیر کر رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ آصف علی زرداری کا میج ایک صلح جو اور مفاہمتی سیاست کا علم اٹھانے والے سیاستدان کا ہے جس نے اپنی سب سے زیادہ مخالف جماعت مسلم لیگ (ق) کو بھی مفاہمتی سیاست کے کھونٹے سے باندھ لیا تھا۔
اب اچانک ایسا کیا ہونے جا رہا ہے جس نے آصف ہ علی زرداری کو فوج سے ٹکرائو کی ڈگر پرڈال دیا ہے ۔؟ان کا دھمکی آمیز بیان اس بات کی دلیل ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ ایسے حقائق ہیں جو افشاء ہو گئے تو آصف علی زرداری کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی اور پی پی پی عوامی حمائت سے مزید محروم ہو جائے گی۔اسی ساکھ کو بچانے کے لئے آصف علی زرداری نے یہ تازہ پتہ پھینکا ہے لیکن وہ پتہ الٹا پڑ گیا ہے اور پورا ملک اس پر سراپاا حتجاج بن گیا ہے۔کبھی کبھی چالاکی کے مظاہرے سے اپنا ہی نقصان ہو جاتا ہے اور شائد آصف علی زرداری کا حالیہ بیان اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس سے پی پی پی کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ وفاق کی علامت پی پی پی کی قیادت سے عوام اس طرح کے بیانات کی توقع نہیں رکھتے۔،۔