تحریر : محمد علی رانا ابو الاثر حفیظ جالندھری نے شاہنامئہ اِسلام میں جنگِ بدر کا نقشہ اپنی منفرد شاعری میں بڑے خوبصورت انداز میں مکمل کھینچا ہے۔ لگایا بدر کے میدان میں کفار نے ڈیرا یہاں تدبیر کی تزویر کو تقدیر نے گھیرا حضرت محمد ۖ نے قریشِ مکہ کی جانب سے پہنچائی جانے والی دن رات کی تکلیفوں کو برداشت کیا اور پھر جب اللہ کی جانب سے ہجرت کا حکم آن پہنچا تو مدینے کی جانب روانہ ہوگئے۔مدینہ میں مسلمانوں کو کھل کر تبلیغ کرنے کا موقع ملا اور یوں اہلِ مکہ کی راتوں کی نیندیں حرام ہونے لگیں کیونکہ اہلِ اسلام دن بہ دن بڑھنے لگے تھے اور دوسری سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مکہ آنے جانے والے قافلوں کو مدینہ کے راستے سے گزر کر مکہ آنا پڑتا تھا جو اہلِ مکہ کیلئے انتہائی تشویش ناک بات تھی۔اہلِ مکہ نے مسلمانوں کو(نعوذ با اللہ) صفحِہ ہستی سے مٹانے کیلئے نت نئے منصوبے بنانا شروع کر دیے اور اِسی سلسلے میں ابوسفیان ( یاد رہے ابھی ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ) کی زیرِ سرپرستی ایک بڑا قافلہ تجارت کی غرض سے بھیجا تاکے منافع کی رقم سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاسکے ۔
حضرت عبد المطلب ( ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ آپ نے کبھی بت پرستی کی ہو آپ حضرت ابراہیم کے دین پر قائم رہے) کی ایک بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ کئی شتر سوار مکہ پر حملہ آور ہو رہے ہیں انہوں نے یہ خواب حضرت عباس ( ابھی حضرت عباس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ) کو سنایا اور کہا کہ یہ بات کِسی سے نہ کہیں لیکن انہوں نے ایک دوست سے ذکر کر دیا اور یوںبات چلتے چلتے پورے مکہ میں پھیل گئی ۔حضرت عبدالمطلب کی بیٹی جو کے غیب گوئی میں پہلے سے ہی اہلِ مکہ میں مشہور تھیں اہلِ مکہ نے جب یہ سنا تو سب کے ہوش اڑتے رہے کہ اہلِ مکہ پر کوئی بہت بڑی آفت ٹوٹنے والی ہے کیونکہ حضرت عبدالمطلب کی بیٹی کی پہلے بھی کئی پیش گو ئیاں درست ثابت ہو چکی تھیں ۔اِس خبر کا سننا تھا کہ اہلِ مکہ میں سنسنی پھیل گئی اور فکر لاحق ہو گئی کہ وہ تجارتی قافلہ جس میں عورتوں نے اپنے زیور تک دائو پر لگا دیے ہیں کہیں مدینے سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کے ہاتھوں لٹ نہ جائے اور اِدھر ابو سفیان کو بھی جب یہ فکر لاحق ہوئی تو اُس نے قافلے کا راستہ مدینے کی جانب سے موڑ کر دوسری جگہ جو اس راستے سے ذرا طویل تھی وہاں کی جانب کر لیا اور لمبا سفر طے کرنا مناسب جانا۔
مکہ میں ایک تنظیم ایسی بھی تھی جس کا کام لوگوں کو اہم خبروں سے آگاہ کرنا تھا اور مکہ کا معمور تھا کہ جب کوئی قافلہ مکہ پہنچنے والا ہوتا تو ایک ہرکارہ پہلے پہنچتا اور قافلے کی آمد کی خبر دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور کوئی ہرکارہ نہ پہنچا حالانکہ ابو سفیان کے قافلے کے پہنچنے کا وقت بھی گزر گیا اب قریش مکہ کی تشویش اور بڑھی ۔ اہم خبروں سے آگاہ کرنے والی تنظیم کا ایک رکن اسی دوران مکہ میں داخل ہوا ( اسے ڈھنڈورچی ) بھی کہا جاتا تھا ۔وہ ایک ایسے اونٹ پر بیٹھا تھا جِس کے کان کاٹ دیے گئے تھے اور خود اُونٹ کی برہنہ پیٹھ پر بیٹھا تھا ۔ڈھنڈورچی نے کپڑے پھاڑ رکھے تھے اور اس کے بال پریشان حال تھے اور اپنے چہرے پر گرد وغبار ڈال رکھا تھا اور ایسا حال بنا کر مکہ میں داخل ہونا اسی بات کی علامت تھی کہ بہت بڑا خطرہ لاحق ہونے والا ہے ۔ڈھونڈھورچی نے مکہ میں داخل ہوتے ہی چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا ” اے قبیلہ قریش کے لوگوں ! باخبر رہو کہ مکہ کا کارواں خطرے میں ہے ۔ مسلمانوں نے تمہارے قافلے کو لوٹنے کا بندو بست کر لیا ہے لحاظہ تم میں سے اگر کوئی بھی غیرت مند ہے تو تلوار اٹھائے اور اپنا مال و زر بچانے کی غرض سے مسلمانوں کے مقابلے کیلئے تیار ہو جائے ” ڈھنڈورچی کا اتنا کہنا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے نو سو پچاس جنگجو مرد ،سات سو سے اُوپر اونٹ اور دوسو گھوڑوں کی مدد سے مسلمانوں کے مقابلے پر جانے کیلئے تیار ہو گئے ۔
Legions
کالم کے دامن میں اس قدر گنجائش نہیں کہ میں تفصیل میں جاسکوں ۔جب ابوسفیان نے اپنے قافلے کا رخ مدینے کی سمت سے موڑ لیا اور مسلمانوں کو ایک جنگجو لشکر کی مکہ کی جانب سے آنے کی خبر ملی تو آپ ۖ نے اپنے صحابہ اکرام سے مشورہ کیا اور ہر جانب سے مثبت جواب پا کر مقامِ بدر کا رخ کیا۔خیر ابو سفیان تو اپنا قافلہ مدینہ کی حدود سے بچا کر دوسری جانب سے نکل گیا لیکن مدینے سے اسی کلو میٹر کے فاصلے پر ابو جہل کی قیادت میں مکہ سے آنے والے نو سو پچاس جنگجو تین سو تیرہ مسلمانوںجن کے پاس ستر اونٹ اور صرف دو گھوڑے تھے بدر کے مقام پر مدِ مقابل آگئے ۔ مسلمانوں کا جزبہ شوق دیکھنے کے قابل تھا باوجود اس کے کہ انہوں کے پاس پوری طرح جنگی ہتھیار بھی نہ تھے لیکن انہوںکے دلوں میں اللہ کا خوف اور محبتِ رسول ۖ موجود تھی ۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ۖ نے سترہ رمضان کی رات ( صبح سترہ رمضان تھا ) اللہ پاک سے مدد کی دعا مانگی اور اللہ پاک کی جانب سے مدد آن پہنچی اس روز اس زور سے موسلا دھار بارش ہوئی کہ جہاں اہلِ مکہ کھڑے تھے وہ جگہ بارش کی وجہ سے چکنی اور دلدلی ہو گئی جبکہ مسلمانوں کی جگہ جو کے ریتلی تھی بارش کی وجہ سے مزید ٹھوس ہو کر جم گئی ۔ صبح 17رمضان المبارک2ھ کو حضرت محمد ۖ نے فجر کی نماز کے بعدمسلمانوں کو جہاد کی تلقین کی اور اُن قرانی آیات کی تلاوت کی جن میں جہاد اور جنت کا ذکر ہے یوں مسلمانوں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے۔ پھر حضور اکرم ۖ نے مسلمانوں کو ایک انوکھی جنگی صف آرائی سے روشناس کروایا جو اس وقت سے دو ہزار سال قبل اسکندر مقدونی کے زمانے میں کی جاتی تھی ۔ اس جنگی صف آرائی کو یونانی زبان میں ” فا لا ثر ” کہتے ہیں ۔ اس جنگ میں حضور پاک ۖ نے تمام مسلمانوں جنہوں نے جنگِ بدر میں شرکت کی جنت کی بشارت بھی دی ۔
Allah
اللہ پاک نے نو سو پچاس جنگی ہتھیاروں سے لیس جنگجو وئوں کے مقابلے میں کلمہِ رسول ۖ پڑھنے والے صرف تین سو تیرہ مسلمانوں جو کہ جنگی ہتھیار بھی پوری طرح ساتھ نہ رکھتے تھے کو فتح سے ہمکنار کروایا۔ اور ابو جہل سمیت اس جنگ میں کفار کی ستر ہلاقتیں ہوئیں جبکہ مسلمانوں کی جانب سے صرف تیرہ مسلمان شہید ہوئے ۔یہی نہیں بیشمار مشرقین اسیر ہوئے لیکن آپ ۖ نے اسیرانِ جنگ کے ساتھ انتہائی مخلصانہ رویہ اختیار کیا انہیں کھانا کھلایا گیا اور اچھی رہائش کا بندوبست کیا گیا اور بعد میں فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا ۔
غزوہ بدر اسلام اور کفر کی پہلی اہم ترین جنگ تھی اِس جنگ کے ذریعے دنیا پر عیاں ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ بڑی فوج کو شکست دے سکتے ہیں ۔یہ وہی جنگ تھی جِس میں باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے مقابلے میں آیا ہر کوئی کِسی نہ کِسی کا رشتہ دار تھا حضرت عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھوں سے واصلِ جہنم کیا کیونکہ وہ اسلام اور نبی ۖ کا دشمن تھا ۔پس یہ ثابت ہوا کہ حضور پاک ۖ کی محبت ہر رشتے اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر اور پہلے ہے ۔اور جو حضور پاک ۖ کی محبت میں جہاد کا ارادہ کرتے ہیں اللہ پاک انہیں کامیابی و کامرانی سے نوازتا ہے خواہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی ہے ۔نوٹ :غزوہ بدر ایک طویل اور ایمان افروز واقعہ ہے لیکن یہاں جگہ کی کمی کی وجہ سے واقعہ کو سمیٹ کر مختصر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
M Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا muhammadalirana26@gmail.com muhammadalirana26@yahoo.com