تحریر : ڈاکٹر ایم اے قیصر زمانے میں کتنی تیزی آچکی ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ جب انسان کے پاس وقت ہی وقت تھا اور وہ مصروفیت کے بہانے تلاش کرتا تھا اور آج کہ کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ ہر کوئی وقت کی تیز دھار کے ساتھ بہے جا رہا ہے۔ انسانی زندگی انسانی نہیں مشینی بن کے رہ گئی ہے، جیسے ایک مشین بٹن دبانے سے آن ہو جاتی ہے اور پھر اپنے میکانزم کے مطابق کام کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ اسے بٹن دبا کے آف نہ کر دیا جائے یا اس میں کوئی تیکنیکی خرابی پیدا نہ ہو جائے اسی طرح انسان بھی شب و روز اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں گم ہے اور یہ مصروفیات کا سلسلہ اس کے بیمار ہونے سے سست پڑتا ہے یا کچھ وقت کے لئے معطل ہوتا ہے اور تندرست ہونے پہ پھر زور و شور سے جاری ہو جاتا ہے۔ مصروفیات کا یہ سلسلہ مستقل طور پر تبھی رکتا ہے جب انسان کی سانسیں رک جاتی ہیں۔ آج کا انسان اتنا مصروف کیوں ہے؟ کوئی کاروبار چلا رہا ہے، دفتر میں کام کرتا ہے یا گھریلو خاتون، حتیٰ کہ ایک سات آٹھ سال کا بچہ بھی اتنا مصروف ہے کہ اس کے پاس بھی وقت نہیں۔
اس کے معمولات بھی کچھ اس طرح ہیں کہ صبح جلدی اُٹھنا قرآن کی تعلیم کے لئے مسجد جانا، مسجد سے چھٹی ملنے پہ بھاگے ہوئے گھر پہنچنا، ناشتہ کرنا ، سکول کے لئے تیار ہونا اور سکول بھاگ جانا، سکول سے چھٹی پہ گھر پہنچنا، کپڑے تبدیل کرنا، کھانا کھانا اور قرآن کی تعلیم کے لئے مسجد جانا، وہاں سے چھٹنی ملنے پہ گھر پہنچتے ہی امی کی آواز کان میں پڑتی ہے کہ بیٹا ٹویشن کا وقت ہو چکا ہے لیٹ ہو جائو گے جلدی سے بیگ اٹھائو اور ٹویشن چلو، بیچارہ معصوم بیگ اٹھاتا ہے اور ٹویشن چلا جاتا ہے، ٹویشن سے چھٹی ہونے پہ جب گھر پہنچتا ہے تو تقریباً شام ہو چکی ہوتی ہے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد ہوم ورک کا فکر سر پہ منڈلانے لگتا ہے۔ بیگ اٹھاتا ہے ، ہوم ورک لکھنے اور اسباق یاد کرنے کی غرض سے پھر سے کتابوں اور کاپیوں میں کھو جاتا ہے۔ بمشکل ہوم ورک نپٹاتا اور اسباق یاد کرتا ہے کہ نیند آ دبوچتی ہے اور سو جاتا ہے۔
اگلے دن اٹھنے پہ پھر سے یہی معمول۔۔۔ مسجد جانا۔۔۔ ناشتہ کرنا۔۔۔ سکول کی تیاری۔۔۔ سکول جانا۔۔۔ دوپہر کا کھانا۔۔۔ ٹویشن جانا۔۔۔ رات کا کھانا۔۔۔ اسباق کی تیاری اور ہوم ورک۔۔۔ شب و روز کا یہی معمول چلتا رہتا ہے۔گرمیوں کی چھٹیوں میں جو امید ہوتی ہے کہ چھٹیاں ہوں گی، کھیل کود کے لئے، گھومنے پھرنے کے لئے کچھ وقت مل پائے گاوہ امید بھی ظالم سمر کیمپس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ ماضی میں بیشتر مشترکہ خاندان ہوا کرتے تھے، گھر میں ایک یا دو افراد کمانے والے اور کئی افراد کھانے والے ہوتے تھے، پھر بھی خوشحالی تھی۔ ہر کسی کے پاس ایک دوسرے کے لئے کافی وقت تھا، گھر کا نظام ایک شخص کی سرپرستی میں ہونے کے ناطے سب اس کے فیصلے کی قدر کرتے تھے۔بزرگوں کے فیصلے تجربے کی روشنی میں ہونے کی وجہ سے کئی مسائل سے بچہ جا سکتا تھا۔ مل جل کر بیٹھنے ، ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لئے وقت ہی وقت تھا۔ بچے رات کو دادی اماں سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنتے تھے۔
Home Office Couple
آج زیادہ تر سادہ خاندان ہیں، خاوند بھی کماتا ہے، بیوی بھی کماتی ہے پھر بھی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتیں، لب پہ شکوے رہتے ہیں۔ دراصل ہم نے اپنی ضرورتوں کو بے جا بڑھا لیا ہے،ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاوند کی آمدنی جب کم پڑ جاتی ہے تو پارٹ ٹائم کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے پھر بھی ضرورتیں پوری نہ ہو پائیں تو بیوی کو بھی جاب کرنا پڑتی ہے۔ میاں بیوی اپنی اپنی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے۔ تفریح کے لئے ٹی وی ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اس سے بھی انسان کی مصروفیت بڑھ جاتی ہے اور حقیقی رشتوں کے ساتھ گزارنے کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ انسان کی اس قدر مصروفیت نے رشتوں اور تعلقات کے دائروں کو محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ رشتوں ناطوں کی جگہ مطلب کی دوستیوں نے لے لی ہے۔ یہاں مفادات نہ ہوں وہاں دوستی کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے، دوستی کرنے سے پہلے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس سے کتنا مفاد ملے گا، فائدہ ہو تو دوستی کو آگے بڑھایا جاتا ہے ورنہ بات دعا سلام پہ ہی ختم۔ تعلقات میں باہمی ہمدردی، خلوص اور پیار جیسے جذبات کا فقدان ہے،
ان جذبات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔آپسی تعلقات صرف سطحی نوعیت کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی عزیز کی وفات پہ بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی مصروفیات کا فکر ہوتا ہے، کوشش ہوتی ہے جلد از جلد اس کی تدفین کا عمل ہو اور ہم پھر سے اپنے معمولات زندگی کو بحال کر سکیں۔ جنازہ گھر کی دہلیز سے باہر ہوتا ہے اور ہم اپنے معمولاتِ زندگی میں مصروف ہونے کے لئے پر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اے انسان! تیری یہ مصروفیت تجھے نفع بخش رہی ہے یا نقصان پہنچا رہی ہے؟ اپنے معاشرتی مقام کو دوسروں سے بلند کرنے کی کوشش میں تم نے اپنی مصروفیات بڑھا لیں، تیرے پاس تیرے والدین کے لئے وقت نہیں، رشتہ داروں کے لئے وقت نہیں، دوستوں کے لئے وقت نہیں، حتیٰ کہ اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں۔ اس نفسا نفسی کی دوڑ میں کیوں تو خود بھی تنہا ہو کے رہ گیا اور اپنے والدین کو بھی تنہائی کے سمندر میں سوچوں کی لہروں سے الجھنے کے لئے چھوڑ دیا؟
کیوں دوستوں میں مفادات تلاش کرنا شروع کر دیے؟ کیوں اپنی اولاد کی تربیت خود کرنے کی بجائے دوسروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا؟ پھر بھی گلہ ہے کہ مصروفیت بہت ہے، سکون پھر بھی نہیں۔ اپنی اولاد کی خود اچھی تربیت کر، ان کے ساتھ وقت گزار تاکہ ان کے دل میں تیرے لئے الفت پیدا ہو، دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزار شاید کہ وہ مشکل وقت میں تیرے کام آ سکیں، والدین کے ساتھ وقت گزار تجھے راحت ملے گی اور انہیں تنہائی سے رہائی۔ اپنوں کو وقت نہ دے پانے سے چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، ان غلط فہمیوں کو بیٹھ کر بات چیت کر کے سلجھایا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس! بات چیت کے لئے بھی تو وقت چاہئے جو کہ تیرے پاس ہے نہیں! تو ایسے میں یہ چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں مل کر بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ ان مسائل سے بچنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اپنوں کے سنگ گزاریںتاکہ ہمارے دلوں سے رنجشیں کم ہوں ، محبتیں بڑھیںاور راحت نصیب ہو۔