تحریر: علی عمران شاہین ”میں اپنی ساری دولت خدمت انسانی کیلئے وقف کرنے کا اعلان کرتا ہوں” ان الفاظ پر مشتمل ایک اعلان یکم جولائی کو ایک مسلم شخصیت کی جانب سے گونجا تو ایک عالم ورطۂ حیرت میں ڈوبا نظر آیا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص کل نہیں آج تک سب سے زیادہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کیلئے چاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے اچانک بدل گیا ہو؟ لیکن جب من میں سویا ایمان جاگ پڑے تو کسی کی بھی قسمت اور حال بدل سکتا ہے، اسی کو تو کرشمہ اور کمال کہتے ہیں جو سعودی شاہی خاندان کے ایک نازوں پلے شہزادے نے کر دکھایا۔ شہزادہ الولید بن طلال سعودی عرب کے امیر ترین فرد ہیں، شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بھتیجے ہیں، انہوں نے یہ دولت کوئی حکومتی خزانے سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ تو ان کی اپنی خون پسینے کی کمائی ہے جو انہوں نے 40سال کے عرصہ میں جمع کی ہے۔
3مارچ 1955ء کو پیدا ہونے والے شہزادہ الولید بن طلال کی والدہ ایک لبنانی شاہی خاتون تھیں اور ان کے والد سعودی شاہی خاندان کے فرد تھے۔ سات سال کے تھے کہ ان کے والدین کی علیحدگی ہو گئی تو وہ لبنان میں اپنی والدہ کے پاس رہنے لگے جہاں وہ کئی دفعہ کار کی ڈگی میں چھپ کر سو جاتے تھے۔ پھر وہ ریاض پہنچے تو سعودی فوج کے سکول کے سخت تر نظام میں نئی زندگی ڈھلنا شروع ہوئی۔ 1979ء میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے مین لو کالج سے گریجویشن مکمل کی تو ساتھ ہی اپنی کاروباری دنیا میں قدم رکھ دیا۔ ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے مصداق شہزادہ الولید نے ایک طرف کاروبار کا آغاز کیا تو دوسری طرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے امریکہ کی سائراکیوز یونیورسٹی سے امتیازی حیثیت کے ساتھ ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی۔
سعودی عرب میںتیل کی دولت دریافت ہو چکی تھی اور شہزادہ الولید نے تعمیراتی کاموں کی کمپنی کے ساتھ زمین و جائیداد کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا، اس عرصہ میں یونائیٹڈ سعودی کمرشل بینک کی بنیاد رکھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے خلیجی ممالک تک اپنے پر پرزے پھیلا کر سرمایہ کاروں کو ہر سطح پر اپنی جانب مبذول کر لیا۔ الولید نے جس طرف قدم رکھا، قسمت کے دروازے کھلتے گئے، انہوں نے امریکہ کے ڈوبتے ہوئے سٹی بنک میں سرمایہ کاری کی تو وہ بھی گرتے گرتے کھڑا ہو گیا۔ نیوز کارپوریشن نامی عالمی نشریاتی ادارے میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ امریکہ آن لائن، ایپل، ایم سی آئی، موٹرولا اور فوکس براڈ کاسٹنگ وغیرہ میں حصہ داری کر کے انہیں بام عروج تک پہنچایا۔ امریکی کوڈک کمپنی اور TWAG نامی فضائی کمپنی میں حصہ ڈالا، ۔ نیویارک ،ٹورنٹو،پیرس اور لندن میں شاندار ہوٹل قائم کئے تو یہاں بھی ہر طرف سے ہی کامیابی ملی۔ انہوں اتنے عالمی کاروباری اداروں میں حصہ ڈالا اور انہیں کامیابی سے چلایا کہ ان کا شمار آسان نہیں۔
Human Services
شہزادے نے اس عرصہ میں خدمت انسانی کا مشن سنبھالا تو مغربی تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم کو عام کرنے اور عرب دنیا کے تعلیمی اداروں میں جدید تعلیم کو داخل کرنے کی عملی اور کامیاب کوششیں کیں۔ 2002ء میں فلسطین میں اسرائیلی ظلم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کیلئے18.5ملین ڈالر کی امداد کی۔ دسمبر 2004ء کے سونامی کے متاثرین کیلئے 17ملین ڈالر کی امداد کی۔ 3مئی 2008ء کو 16ملین ڈالر خرچ کر کے برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں تعلیمات اسلامی کا خصوصی تحقیقاتی شعبہ قائم کیا۔ لبنان، برطانیہ اور امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں میں ایسے ہی اسلامی تعلیم کے حوالے سے خصوصی مراکز اور شعبے قائم کئے حتیٰ کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں اسلامی تعلیم کا پروگرام بھی شروع کروا دیا۔
شہزادہ الولید نے دنیا کے سارے رنگ دیکھے، سمندری سفر کیلئے انتہائی پرآسائش 282 کشتیوں کے مالک ہیں تو دنیا کے واحد ایسے انسان بھی ہیں جنہوں نے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز A-380ذاتی طور پر اپنے لئے خریدا۔ دارالحکومت ریاض سمیت ملک میں تین اتنے بڑے محلات بنائے کہ جوناقابل تصور تھے پھر… دل کی دنیا نے سب سے بڑا پلٹا کھایا تو رواں رمضان المبارک میں ساری جمع پونجی اورساری آمدن دکھی انسانی کی خدمت، تعلیم عام کرنے کیلئے اپنے رفاہی ادارے ”الولید لانسانیہ” AL-WALEED PHILANTHROPIES کے ذریعے دنیا بھر میں خرچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کی ذاتی ویب سائٹ دیکھنے کو ملی تو ان کے نظریہ و فلسفہ کے بارے میں پہلا جملہ لکھا پایا ”شہزادہ الولید قرآن کے پیغام امن اور برداشت پر پختہ یقین رکھتے اور اسے پھیلانے کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔”
Alwaleed bin Talal
دنیا کے ایک کامیاب ترین بزنس مین قرار پانے والے الولید بن طلال دنیا بھر کے کتنے میڈیا کے اداروں سے کتنے ہی عالمی ایوارڈ حاصل کئے تو آج انہوں نے سب سے بڑا ”سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے” کا ایوارڈ بھی پا لیا ہے۔ 5 جولائی کو جب انہوں نے اپنی یہ دولت خرچ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو ان کہنا تھا کہ یہ دولت میرے پاس اللہ کادیا تحفہ ہے اور میں اسے اللہ کی رضا کے حصول کے لئے ہی خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ ایسے ایوارڈ تو سعودی حکومت اور اس کے سارے شاہی افراد بھی عرصہ دراز سے حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مساجد کی تعمیر، قرآن کی سب سے زیادہ اشاعت و تقسیم، ہر جگہ انسانیت کی خدمت، عازمین حج و عمرہ کی اعلیٰ سے اعلیٰ خدمت تو ان کا طرئہ امتیاز ہیں توہم پیارے حبیب محمد رسول اللہۖ کے فرامین عالی شان کا عملی مظہر بھی ان کے ہاں دیکھ رہے ہیں۔ آپۖ نے فرمایا ”کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔مزید فرمایا ”صدقہ اللہ کے غضب کو ٹال دیتا ہے۔”(صحیح مسلم) آپۖ نے اپنے پیارے صحابی معاذ بن جبل کو ایک علاقے میں زکوٰة جمع کرنے کے لئے بھیجا، جب وہ زکوٰة جمع کرتے ہوئے ایک بستی میں پہنچے تو ایک مسلم شخص نے اپنے جانوروں کا حساب لگاکر وصول کرنے کو کہا۔
حساب لگایا تو ایک سال کی اونٹنی بطور زکوٰہ بنتی تھی، وہ وصول کرنے لگے تو صاحب مال کہنے لگے کہ یہ تو آپ کے کسی کام کی نہیں۔ رسول اللہۖ کا نمائندہ پہلی بار میرے پاس آیا ہے تو میں آپ کو اس کی جگہ تین سال کا جوان اور تنومند اونٹ دیتا ہوں۔ انہوں نے وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ اتنی زکوٰة تو بنتی ہی نہیں۔ معاملہ رسول اللہۖ کے پاس پہنچا تو آپۖ نے فرمایا کہ اگرصاحب مال اپنی خوشی اور رضا سے زیادہ اور بہتر مال دینا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اسی علاقے میں اسی شخص کے پاس دوبارہ زکوٰة وصول کرنے پہنچے تو اس کے مال سے 30جوان اونٹ بطور زکوٰة وصول کئے جبکہ ایک اونٹ زکوٰة50جوان اونٹوں پر بنتی ہے۔ اللہ نے صدقہ کے نتیجے میں اس قدر مال کو بڑھا دیا اور اس کی حفاظت بھی کی۔ (مسند احمد) سعودی عرب اور اس کی حکمران شخصیات جس طرح دنیا بھر میں اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتی اور دین کی خدمت کرتی ہیں، پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کر کے انہیں امن و سکون کی زندگی عطا کرے۔سارے اسلام دشمنوں کیلئے سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جب کہیں اسلامی حدود کے قیام کا معاملہ آتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ان کے عالمی نظاموں کو گرانے کا مرحلہ ہے لیکن سعودی عرب میں یہ سب عملاً 90 سال سے ہو رہا ہے اور اسلام دشمن سوائے سرپھٹول کے کچھ نہیں کر سکتے۔ رمضان المبارک کی ان مبارک ساعتوںمیں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ سوال ہر ایک کیلئے ہے۔