آبادی میں اضافہ انسان کے لئے خطرہ

Population

Population

تحریر : ماجد امجد ثمر
ایک ملک شہر یا علاقے میں رہنے والے افراد کی کل تعداد وہاں کی آبادی ہوتی ہے یعنی انسانوں کا مجموعہ آبادی کہلاتا ہے اور دنیا کی آبادی سے مراد زمین پر رہنے والے انسانوں کی کل تعداد ہے۔کسی بھی ملک کی آبادی اگر ایک حد تک رہے اور انہیں خوراک کی کمی ، صاف پانی کی قلت، مہنگائی ،بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل سے دوچار نہ ہونا پڑے تو پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگراس ملک میں رہنے والی عوام کو ان مسائل کا سامنا ہو اور ان کی طلب کے مطابق سہولیات میسر نہ ہو ں تو وہاں کی آبادی پھر ‘اوور پاپولیشن ‘کے ذمرے میں آجاتی ہے۔

آج تقریباً ہر ملک کو ہی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ لاحق ہے کیونکہ آبادی میں شدید اضافے کی وجہ سے ملک میں اشیاء و خدمات کی طلب میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے اور اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے پھر برآمدات پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے اور یوں آبادی میں زبردست اضافے کی وجہ سے سہولیات کی فراہمی ،تعلیم ،رہائش ،سڑکوں ،علاج معالجے اور دیگر انتظامی خدمات کو پورا کرنے کے لئے غیر ترقیاتی اخراجات کرنے پڑتے ہیں جس کا نتیجہ بجٹ خسارے میں ظاہر ہوتا ہے۔

“World population Day” آبادی کا عالمی دن ہر سال 11 جولائی کو تما م دنیا میں منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کے مسئلے بارے شعور میں اضافہ کرنا ہے۔اور لوگوںکو سے ان کی اپنی ذندگی میں اس مسئلے کی وجہ سے نقصانات سے آگاہی دلانا ہے۔یہ دن اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامز کی گورننگ کونسل کی طرف سے 1989ء میں منظور کیا گیا ۔کیونکہ جب 11جولائی 1987ء کو دنیا کی کل آبادی 5 ارب تک پہنچ گئی تھی۔تو پھر تب یہ مسئلہ توجہ کو مرکز بنا اور اس پر قابو پانے کے لئے اقدا مات بارے سوچا گیا۔

آبادی کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم دنیا کی آبادی کا ذکر کرتے ہیں پھر پاکستان کی آبادی کا تذکرہ کرتے ہیں۔”The united states census bureau” کے رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 361481 کے لگ بھگ ہے۔جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک منٹ میں 251 بچے پیدا ہو رہے ہیں ۔امریکہ کی مر دم شماری پیورو کے ایک محتاط اندازیکے مطابق آج دنیا کی کل آبادی تقریباً 7 ارب سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔اور دنیا کی آبادی سالانہ1.8 فیصد شرح کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر آبادی میں اضافے کی شرح اسی طرح ہی رہی تو 2050ء میں دنیا کی آبادی 10 بلین تک پہنچ جائے گی۔اور اب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کی بات کی جائے توآبادی کی فہرست میں پاکستان 6 ویں نمبر پر آتاہے۔جس کی موجودہ آبادی 19 کڑوڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔دراصل آبادی میں اضافہ بے روذگاری کو جنم دیتا ہے اور جب بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے تو غربت میں بھی اضافہ ہو جاتاہے۔اور یوں عوام کی ایک بڑی تعداد کے لئے روذگار کے مواقع تھوڑے رہ جاتے ہیں۔اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

Unemployment

Unemployment

کیونکہ جب ایک انسان کو جائز طریقے سے روذگار نہ ملے گا تو ذندہ رہنے ااور اپنی دیگر ضروریات ذندگی کو پورا کرنے کے لئے چوری چکاری،لوٹ کھسوٹ اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔اور انتہائی افسوس سے یہ کہنا پر رہا ہے کہ۔ بالکل یہی صورت حال ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے۔آبادی میں اضافہ معیشت کو بھی متاثر کرتا ہے۔انسان کو ذندہ رہنے کے لئے خوراک سب سے ذیادہ ضروری چیز ہے اور جتنا ذیادہ خوراک کا حصول آسان ہو گا انسان کی ذندگی اتنی ہی سہل ہو گی۔اگر کوئی ملک ترقی یافتہ ہو جائے لیکن اس کی عوام کو خوراک جیسی بنیادی سہولت بہتر انداز میں میسر نہ ہو تو اس کی ترقی کسی کام کی نہیں رہتی۔انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ خوراک کی کمی کا ہی ہے اور کسی بھی ملک میں زراعت کے شعبہ جتنا ذیادہ متحرک ہو گا اتنی ہی آسانی سے اس ملک کی آبادی کو خوراک حاصل ہو گی اگر ایسا نہ ہو تو پھر خوراک کو دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے اور اس سے ادائیگیوں کا توازن اور ملک کی معاشی ترقی متاثر ہو تی ہے۔

آبادی میں شدید اضافہ خوراک کی قلت کو دعوت دے رہا ہوتاہے۔کیونکہ جس حساب سے آبادی ہو رہی ہوتی ہے اس حساب سے خوراک کی پیداوار مشکل ہوتی جارہی ہے۔بلکہ زرعی زمینوں کی جگہ رہائش کے لئے گھر آباد کئے جارہے ہیں۔یوں زمین کے وہ حصے جو زرعی اجناس کی پیداوار کا سبب بنتے تھے انسا ن اس سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے۔کیونکہ انسان تو اپنی نسل کو بڑھا سکتا ہے لیکن زمین اپنے آپ کو بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اس طرح محدود زمین صرف محدود آبادی کے ہی کام آ سکتی ہے۔ہمارے ملک میں آبادی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں اس محاورے یا فقرے پر بڑا عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ جو بھی دنیا میں آتا ہے وہ اپنا رزق ساتھ لے کر آ تا ہے۔اور اسی آڑ میں لوگ بچوں کی لائینیں لگائے جاتے ہیں۔بیشک اللہ ہی رازق ہے لیکن اس نے انسان کو باشعور بھی تو بنایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں صرف دو بچوں کے ہی اخراجات پورے کرنے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتے جا رہے ہیں۔لیکن لوگ پھر بھی اس سوچ سے ماورا ہو کر بچوں کی تعداد بڑھانے پر لگے رہتے ہیںاور پھر جب وہ بچوں کو ان کے مطابق سہولیات یا حقوق نہیں دے پاتے تو خود بھی پریشان رہتے ہیں۔جو نہ صرف اپنے بلکہ پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ بھی ذیادتی کر رہے ہوتے ہیںکیونکہ پیدا ہوتے ساتھ ہی انسان یا بچہ اس قابل نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنے اخراجات فوراً خود اٹھا سکے بلکہ اس تک پہنچنے میں ایک خاص عرصہ درکار ہوتا ہے۔

اگر روذانہ جتنے بچے یا انسان پیدا ہو رہے ہوتے ہیں اتنے ہی انسان وفات پا جائیں تو پھر تو آبادی کی شرح مستحکم رہتی ہے لیکن جب روزانہ پیدا ہونے والے افراد کی نسبت مرنے والے افراد کی تعداد آدھے سے بھی کم رہ جائے تو یہ بات بھی آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ بنتی ہے۔اس مسئلے کے حل کے لیے لوگوں میں تعلیم سے خوب آراستہ کرنا ہے ۔تاکہ ان میں اتنا شعور پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے مستقبل کی مشکلات کو جان سکیں اور ان کے حل کے لئے ابھی سے حکمت عملی تیا ر ک سکیںکیونکہ ایسا کرنے میں ہی نسل انسانی کی بقا ء ہے ورنہ انسان ہی انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔

Majid Amjad Samar

Majid Amjad Samar

تحریر : ماجد امجد ثمر