تحریر : علی رضا شاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جب تحریکی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس وقت اس قدر لو گو ں کی کثیر تعداد عمران خان کیساتھ نہیں تھی چند لوگ جو نظریاتی طورپر وابستہ تھے اس وقت عمران خان سے یہ سوال کیا جاتا کہ آپ کے پاس اتنا ووٹ بنک نہیں کہ آپ اسمبلی میں بیٹھ کر ملکی نظام میں تبدیلی لیکر آ سکیں تو اس وقت عمران خان ایک مخصوص اور خوبصورت جواب دیا کرتے تھے کہ میرا ووٹ ابھی جوان ہو رہا ہے یوتھ کے جس ووٹ بنک کی عمران خان بات کیا کرتے تھے آخر کار وہ جوان ہو گیا اور عمران خان کو ملکی سیاست میں عروج مل گیا اور وہ وقت بھی آ گیا اور جب نظریاتی لحاظ سے ایک تبدیلی ملک میں رونما ہونا شروع ہو گئی
باقی سیاسی جماعتوں نے بھی نوجوانوں کو تر جیح دینا شروع کر دی لیکن اس کے بعد سب کچھ اس کے بر عکس ہوا اور جب دوسری جماعتوں نے تحریک انصاف کی نسبت نوجوانوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنی پالیسی اور نعرے سے منحرف ہو تے ہوئے نوجوانوں کو پس پشت ڈالنا شروع کر دیا ۔2013ء کے جنرل الیکشن میں تقریباً 40سے پچاس لاکھ نوجوانوںنے پاکستان تحریک انصاف کے لئے وو ٹ کاسٹ کیا باوجود اس کے عمران خان نے 35%ٹکٹیں یوتھ میں تقسیم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا
اس کے بر عکس ٹکٹیں تقسیم کی گئیں اور ایسے چہروں کو ٹکٹیں دی گئیں جنہیں نہ تو نوجوانوں سے پیار تھا اور نہ ہی کو ئی خاص دلچسپی ،جس کی بنا پر نوجوان بھی ان بناوٹی اور سیاسی چہروں کو نا پسند کرتے تھے لیکن نوجوانوں نے نظریاتی کارکن ہو نے کی حثییت سے نہ صرف ان چہروں کو سپورٹ کیا بلکہ گلی گلی ان کی الیکشن کمپیئن چلائی اگر اس وقت پارٹی پالیسی کے مطابق 35%کی بجائے% 30ٹکٹیں بھی یوتھ کو دی جاتی تو صورتحال مختلف ہو تی ۔ جس کی مثال میاں نوا ز شریف کے حلقے سے صوبائی الیکشن لڑنے والے زبیر خان نیازی کی ہے جنہوں نے ڈٹ کر مقابلا کیا اور نوجوانوں کی طاقت اور جوش و جذبے کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا
PTI
پاکستان تحریک انصاف کو نسبتاً جنوبی پنجاب سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے سپورٹ کیا اور بہت سے ایسے نوجوان ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنی مستقبل کی فکر نہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو تر جیح دی دل شیر بھلر اور عمیر گلن جن کا جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کو منظم و مضبوط کرنے میں کلیدی کردار شامل رہا ہے گزشتہ عام انتخابات میں جب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جنوبی پنجاب کو کچھ سیاسی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا جو کہ تسلسل اب بھی قائم ہے اس وقت متنفر ہونے والے پارٹی کارکنوں کو ایک سر گرم کارکن بر قرار رکھنے میں ان ناموں کا اہم کردار رہا ہے۔ پاک ٹی ہائوس میں اتفاقاً ملاقات ایک چمکتے ہو ئے ہیرے احمد رحیم کیساتھ ہوئی جو بڑی آب و تاب کیساتھ مخصوص انداز میں پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کیساتھ محو گفتگو تھا میرا ملنے کا اشتیاق بڑھا اور سو چا کیوں نہ احمد کیساتھ ایک کپ چائے پی جائے، چائے کے اس ایک کپ پر احمد رحیم نے سائوتھ پنجاب سمیت پنجاب کی آئی ایس ایف اور یوتھ کو منظم کرنے کا نہ صرف پلان میرے سامنے رکھ دیا
بلکہ اپنی محنت سے منظم کیے گئے لوگوں کی فہر ست مجھے تھما دی چونکہ میں نے اپناتعارف ایک سیاسی شخصیت کے طور پر کر وایا تھا اس لئے احمد رحیم کی تمام خوبیوں کو جاننے میں مجھے کوئی دقعت پیش نہ آئی ۔پی ٹی آئی کے پاس اگر کوئی حقیقی سرمایہ ہے تو ایسے نوجوانوں کی ٹیم جو اپنے تمام تر ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرہے ہیں۔
اگر پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ مسائل کو بھی دقیق نظری سے دیکھا جائے تو یوتھ ونگ کے مسائل سر فہرست ہو نگے جن میں سب سے زیادہ نوجوانوں کے استحصال کا خدشہ ہے کیونکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کی روایات کی طرح پی ٹی آئی میں بھی نوجوانوں کو لیڈر شپ کی بجائے ایک عام ورکر کی سطح تک رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
Politics
پیپلز یوتھ ونگ اور مسلم یوتھ ونگ کا اگر موازنہ انصاف یوتھ ونگ سے کیا جائے تو فرق روز روشن کی طرح عیاں ہو جا ئے گا کہ کس طریقے سے ان پارٹیوں میں یوتھ کے نام پر 40سال سے اوپر لوگ یوتھ کو چلا رہے ہیں جو کہ موروثی سیاست کا غماز ہیں لیکن پی ٹی آئی کی پالیسی ان تمام پارٹیوں سے قدرے مختلف ہے پالیسی کو صرف پارٹی نعروں اور جلسوں میں تقریروں کی حد تک محدود کر دینے سے عمرا ن خاں روایتی سیاست کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں جس کی بدولت یوتھ کی جو امیدیں پی ٹی آئی سے وابستہ ہیںوہ دم توڑ رہی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اتنی دیر ہو جائے کہ یوتھ پارٹی کی جانب سے ناانصافیوں اور مسلسل رد کیے جانے پر اپنا فیصلہ خود کر لیں ۔کیونکہ عمران خان نوجوانوں کو خود مختار ی کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا ہنر سکھا چکے ہیں۔
خان صاحب آپ یاد کریں 30اکتوبر 2011کو لاہور میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل جلسے کو جب نوجوا نوں نے آپ کو سیاسی عروج بخشا اس وجہ سے نہیں کہ آپ ایک قومی ہیرو ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ آپ نے نوجوانوں کو اقبال کے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے اور قائد کے افکار پر عمل پیرا ہونے کا وعدہ کیا اور نوجوانوں نے آپ میںقائدو اقبال کے حقیقی عکس کو دیکھا لیکن پارٹی کے گزشتہ فیصلوں اور موجودہ صورتحال سے وہ عکس مانند پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔آپ کو اپنی پارٹی پالیسیوں کو سنجیدگی سے خود دیکھنا ہو گا آپ Electablesکو بھی ترجیحات میں شامل رکھیں
لیکن ان کو پس پشت مت ڈالیں جن کی بدولت اور جن کے نام پر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی اپنے ارد گرد موجودروایتی سیاست کے ”مینو فیکچررز ”سے محتاط رہیں ،پی ٹی آئی کے نظریات کو سپورٹ کرتے ہوئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر 50%ٹکٹیں نوجوانوں کو دیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کا ووٹر مکمل طور پر جوان ہو چکا ہے اور اس قابل بھی ہو چکا ہے کہ آپ کے ساتھ ملکر ملک و قوم کے اندھیروں کو اجالوں میں بد ل دے۔
Ali Raza Shaf
تحریر : علی رضا شاف سیکرٹری ممبر شپ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ ایڈیٹو ریل ایڈیٹر باغی ٹی وی 03004502094