13 جولائی………. شہدائے کشمیر

Kashmir

Kashmir

تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعة الدعوة پاکستان
اسلام کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوں کے ایمان افروز واقعات اور معرکوں سے بھری پڑی ہے۔ مسلمانوں نے ہر دور میں اسلام کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کیں اور معرکہ ہائے عدیم المثال برپا کئے ہیں۔ ان میں سے ہر معرکہ ایمان افرو زاور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن سرزمین کشمیر پر کشمیری مسلمانوں نے اعلائے کلمة اللہ کے لیے ایک ایسا معرکہ برپا کیا جو جرات و بہادری اور جانثاری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ یہ آج سے 84 سال پہلے کی بات ہے تب سرزمین جموں کشمیر پر ڈوگر ہ حکمران قابض تھے۔ قابض و غاصب حکمرانوں کی اپنی رعایا سے نفرت عام فہم بات ہے لیکن جو نفرت ڈوگرہ حکمرانوں کو کشمیری مسلمانوں سے تھی اس کی مثال تاریخ میںشاذ ہی ملے گی۔ وجہ یہ تھی کہ ڈوگرے مذہباً ہند و تھے اور حد درجہ نسلی و مذہبی تعصب کا شکار بھی تھے۔ انہوں نیجہاں معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو پسماندہ رکھا وہاں مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے بھی توڑنے کی بھر پور کوششیں کیں۔ اس ضمن میںسب سے بھیا نک کردار ڈوگرہ راج کے بانی گلاب سنگھ کا ہے۔ گلاب سنگھ نے 1806 ء میں اپنی عملی زندگی کا آغاز بھمبر کے مسلمان راجہ سلطان خان کے ہاں 2 روپے ماہوارپر کیا۔

راجہ سلطان نے گلاب سنگھ کو اعزاز واکرام سے نوازا مگرجب 16 مارچ 1846 ء کو گلاب سنگھ انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے ریاست جموں کشمیر کے سیاہ وسفید کامالک بنا تو یہ مسلمانوں کے لئے نہایت ہی ظالم اور سفاک شخص ثابت ہوا ۔ اس نے سب سے پہلے اپنے محسن راجہ سلطان خان کو دھوکے سے جموں بلا کر شہید کروایا دیا۔ زندہ مسلمانوں کی کھا ل اتارنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کھا ل اتارنے کا عمل سر کی بجائے پائوں سے شروع کیا جاتااور مہاراجہ اپنے کم سن ولیعہد رنبیر سنگھ کے ساتھ اس وحشیانہ عمل کا خود مشاہدہ کرتا ۔انسانی جانوں کی بے وقعتی کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ دورمیں مسلمانوں پر بے انتہا معاشی پابندیاں و سختیاں بھی تھیں۔ ندی نالوں میں بہنے والے قدرتی پانی کے علاوہ ۔۔۔۔۔ہوا۔۔۔۔۔سمیت ہر چیزپر ٹیکس تھا۔اگر کوئی مسلمان گھرمیں تازہ ہواکے لئے کھڑکی رکھناچاہتا تواس پر ٹیکس ،گھرمیں ایک سے زائد چولہا بنانے پرٹیکس، حد یہ ہے کہ مسلمان بچوں کے ختنہ کروانے پر بھی ٹیکس تھا۔ معاشی پابندیوں کے علاوہ مذہبی پابندیاں بھی تھیں۔ کہیں اذان پر پابندی تو کہیں مساجد پر تالہ بندی تھی۔ معاشی پابندیاں تو کسی حد تک قابل برداشت ہو سکتی تھیں لیکن جب مذہبی پابندیاں حد سے بڑھنے لگیں تو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا چلا گیا۔ 29 اپریل 1931 ء کو مسلمان نماز عید کے لئے میونسپل کمیٹی باغ جموں میں جمع تھے۔

مفتی محمد اسحاق حضرت موسٰی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ دفعتا ًموقع پر موجود ڈوگرہ آئی جی رام چند کے حکم پر ایک پولیس انسپکٹر کھیم چند عید گاہ میں داخل ہوا اور نہایت ہی درشت لہجے میں مفتی محمد اسحق کو مخاطب کر کے کہنے لگا ” آپ جرم بغاوت اور قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں لہذا خطبہ بند کیجیے۔” آئی جی کا خیال تھا کہ امام صاحب فرعون کی آڑ میں مہاراجہ ہری سنگھ کو آڑے ہا تھو ں لے رہے ہیں۔بات یہ ہے کہ جب بھی عصائے حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر ہو تو وقت کا ہرفرعون اپنی ذات اور اقتدار کو خطرے میں محسوس کرتا ہے۔بہر کیف خطبہ عید کی بندش معمولی واقعہ نہ تھا کہ جسے نظرانداز کردیا جاتا۔ جموں شہر۔۔۔۔ ڈوگر ہ حکمرانوں کا پایہ تخت اور سیاسی ومذہبی طاقت کا مرکز تھا۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود جموں کے مسلمان چوہدری غلام عباس کی قیادت میں خطبہ عید بند ش کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے یہاں تک کہ احتجاج کی لہریں پوری ریاست میں پھیل گئیں ۔دوسرا واقعہ 4جون 1931 ء کواس وقت پیش آیا جب جموں پولیس لائینز میں ایک ہندو کانسٹیبل لبھو رام نے قرآن مجید کی توہین کی۔ توہینِ قرآن کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یکے بعد دیگرے رونماہونے والے ان دو واقعات نے احتجاج کوشعلہ جوالہ بنا دیا ،مسلمانوں کی روحو ں کو تڑپا ،دلوں کو گرما ،ان کی غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔اس دوران ایک اور واقعہ پیش آیاجو جموں کشمیر میں دو قومی نظریہ کی صداقت وطاقت کی بنیاد اور اہل کشمیر کی منزل کے تعین کا سبب بنا۔

Muslim Rally

Muslim Rally

ہوا یہ کہ خطبہ عید کی بندش اور اور توہین قرآن جیسے سنگین واقعات پرڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں کی تسلی وتشفی کرنے کی بجائے الٹا جارحانہ اور توہین آمیزرویہ اختیار کیا جس سے مسلمانوں کا مزید مضطرب ومشتعل ہونا فطری امر تھا چنانچہ اس سلسلے میں 25 جون 1931 ء کوسری نگر میں بعداز نماز جمعہ ایک عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں تقریباً 50،60 ہزار مسلمان جمع تھے۔میر واعظ مولانا محمد یوسف اورشیخ عبداللہ تقریر کر چکے تھے کہ ان کے بعد ایک اجنبی نوجوان نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تقریر شروع کی ۔ اس کی گرجدار آواز نے جلد ہی مجمع کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ اس نے اسلام کی روشنی میںبتایا کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مسلمانوں کے لئے کیا حکم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجنبی نوجوان کا کہنا تھا ” مسلمانو۔۔۔۔!یاد رکھو یاداشتوںاور قرارداوں سے ظلم کے بادل نہیں چھٹتے۔ ظلم کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔” ۔ ایک ر و ایت کے مطابق اس نوجوان کا تعلق صوبہ خیبر کے پی ( پاکستان ) سے تھا اس کا نام عبدالقدیر خان اور وہ ایک سیاح کے ساتھ بطور گائیڈ ریاست میں آیا ہوا تھا۔عبدالقدیر کی پر جوش تقریر نے مجمع میں آگ لگا دی۔حکومتی اہلکاروں نے عبدالقدیر کو فورا ہی حراست میں لے کر اور بغاوت کا مقدمہ درج کر کے پابند سلاسل کردیا۔عبدالقدیر نے غیر ریاستی باشندہ ہونے کے باوجودریاستی مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائی تھی اس لئے کشمیری مسلمانوں کی اس کے ساتھ محبت وہمدردی فطری بات تھی۔ عبدالقدیر کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو ہزاروں لوگ کاروائی سننے کے لئے جمع ہو گئے۔

جس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ آئندہ مقدمے کی سماعت جیل میں ہو گی۔یہ 13جولائی کا ۔۔۔۔ دن تھا لوگ اپنے دینی بھائی عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت کے لئے جیل کے سامنے پر امن طریقے سے جمع تھے کہ اتنے میں نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ایک نوجوان اذان کہنے کے لئے دیوار پر چڑھا ابھی اس نے۔۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ ۔ کہا ہی تھا کہ ایک فوجی جوان نے تاک کر موذن کا نشانہ باندھا اور کئی گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں۔وہ نوجوان موقعہ پرہی شہید ہو گیا۔روایت اور معمول یہ کہ جب مجمع پر سید ھی فائرنگ ہو تولوگ خوف زدہ ہو کر اور جانیں بچانے کے لئے بھاگ اٹھتے ہیںلیکن یہ معاملہ اللہ کی واحدنیت اور کبریائی کا تھالہذا ایسے موقعہ پر مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ بر سرِ مقتل جان دے دیتا ہے مگر سر جھکا نہیں سکتا۔۔۔۔۔ چنانچہ جب ایک نوجوان شہید ہوا تو جذبہ ایمانی سے سرشار دوسرا نوجوان آگے بڑھا،دیوار پہ چڑھااور اذان اس جگہ سے کہنا شروع کی جہاں پہلے نوجوان نے چھوڑی تھی۔اس نے ابھی اذان کا ایک جملہ بھی مکمل نہ کیا تھا کہ اسے بھی ڈوگرا فوجیوں نے خون میں نہلا دیا ۔پھر تو ایک کے بعددوسرامسلمان آگے بڑھتا رہا،اذان کا اگلا کلمہ دھراتا رہااور سینے پر گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کرتا رہا۔واضح رہے کہ اذان کے کل 15 کلمات ہیں جبکہ تکمیلِ اذان کرتے کرتے 21 مسلمان شہید ہوئے ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اذان کہنے والے ابھی ایک کلمہ بھی مکمل نہ کرپاتے تھے کہ سنسناتی گولیاں ان کے سینوں میں پیوست ہوجاتی تھیں۔

شہید ہونے والوں میں 19 سال کے نوجوان سے لے کر 60 سال کے بزرگ شامل تھیاور گولیوں کے نشانات صرف ان کے سینوںپر ہی سجے تھے ۔یہ ایک ایسا ایمان افروز اور ولولہ انگیز منظر تھاکہ تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس لیے کہ ایک طرف نہتے مسلمان اور دوسری طرف مسلح ہندو فوجی تھے جن کی انگلیاں بندوقوں کی لبلبی پرہر دم شعلے اگلنے کے لئے تیار اور مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے بے قرار تھیں۔ہندو فوجیوں کی پوری کوشش تھی کہ مسلمان اذان مکمل نہ کر پائیں۔بعدکی تحقیقات کے مطابق ہندو فوجیوں نے 180سے زائد رائونڈ فائر کئے تھے اس کے باوجود وہ تکمیلِ اذان کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکے ۔ آج اس واقعہ کو 84 سال ہوچلے ہیںمورخین آج بھی ڈ وگر ہ فوج کے اس وحشیانہ ظلم کے بارے میں لکھ رہے اور۔۔۔۔۔۔۔ اس کی مختلف توجیحات کر رہے ہیںکہ محض اذان کی خاطر اتنا ظلم کیوں کیا گیا۔۔۔۔؟اصل اورسچی بات یہ ہے کہ اذان۔۔۔۔ محض چند کلمات ہی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کے نظام ، حاکمیت ،کبریائی وبڑائی کا اظہار واقرار اور نظامِ کفر کا انکارہے۔یہ اسلام وکفر اور توحید و شرک کی کشمکش ،چراغ مصطفوی وشرارِ بوللہبی کی جنگ ہے جو ازل سے ابد تک جاری ہے۔ اسی راہ میں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو بھی ۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔ کی موجودگی میںاپنے نظام ٹوٹتے اور بکھرتے نظر آرہے تھے۔یہی حال ڈوگرہ حکمرانوں کا تھا۔سو انہوں نے بھی پوری قوت اور طاقت سے ۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔ کی صدا کوکچل دینا چاہا۔۔۔لیکن یہ تو اللہ کا نور ہے جسے پھونکوں سے بجھانا ممکن نہیں۔

Martyrs Kashmir

Martyrs Kashmir

امر واقعہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کی برکت سے ہی اہل کشمیر کو ظالم ڈوگرہ حکمرانوں سے نجات ملی، ریاست جموں کشمیر کا 84471 مربع میل خطہ آزاد ہوا اہل کشمیر نے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کیا۔۔۔اور اب مقبوضہ جموں کشمیر بھی اسی کلمہ طیبہ کی برکت سے آزاد ہو گا ۔اسی کلمہ نے ایک اجنبی نوجوان عبدالقدیر کو اپنے مظلوم مسلمان بھایئوں کی مدد پر آمادہ کیا تھا اور ہم بھی ان شاء اللہ اس کلمے کو گواہ بنا کر اپنے بھائیوں کی مدد جاری رکھنے کاعہد کرتے ہیں۔ 13 جولا ئی کے دن اہل کشمیر کا اپنے سینوں پر گولیاں کھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قوم بزدل نہیں بلکہ،جر ی وبہادر ، شجاع ودلیراور اسلام کی والہ وشیدا ہے ۔ 13 جولائی کے دن میں یہ پیغام بھی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی اساس اور بنیاد۔۔۔۔اسلام ہے۔یہ تحریک۔۔۔۔۔ا سلام کی بنیاد پر شروع ہوئی، سری نگر کی جامع مسجد میں پلی بڑھی اور قرآن کے سایہ میں جوان ہوئی۔ آج بھی کشمیری قوم کا پسندیدہ و مقبول نعرہ ”آزادی کے تین نشان اللہ محمد اور قرآن” ہے۔گویا اہل کشمیر اپنا مقدر اسلام سے وابستہ کرچکے ہیں۔ جو اقوام اورافراد اپنا تعلق اللہ سے جوڑ لیں۔۔۔۔۔ تو فرشتے ان کی مدد کے لئے آسمانوں سے اترتے اورفتح و کامیابی کی بشارت صرف انہی کیلئے ہے۔

تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
برائے رابطہ:
ارشاد احمد:03311488538