تحریر: شاہ بانو میر اسلام کے دور کا مطالعہ جہاں اور بہت سی حقیقتوں سے آشنا کر رہا ہے وہاں ایک بات بار بار دورانِ مطالعہ سامنے آ رہی ہے کہ وہ دور یا اس سے پہلے کے ادوار جن کا تزکرہ قرآن پاک میں ملتا ہے دو باتیں مشترک رہیں ـصبر سچ وعدہ پورا کرنے والے حالانکہ یہ لوگ بت پرست تھے شراب نوش تھے قمار بازی کے عادی تھے ـ دنیا جہاں کی علت ان کے اندر موجود تھیں ـ مگر یہ باتیں ہمیشہ ہر دور میں دیکھنے کو ملیں ـ کہ جھوٹ کا سہارا نہیں لیتے تھے وعدے کے پابند تھے اور سچ بولتے تھےـ یہی وجہ تھی کہ اللہ پاک نے انہیں راہِ ہدایت عطا کی اور جن جن کی قسمت میں جنت کی ہوائیں تھیں انہیں اہل ایمان بنا دیا ـ آج کا دور ہر شعبہ ہائے زندگی کیلیۓ عجیب قیامت خیز دور ہے اس میں قابلیت کے نام پر خالی ڈبے کھڑکھڑ کر رہے ہیں ـ شکل و صورت پے صفحات کی بھرمار اور ذہنی قابلیت کے نام پر صفحے خالی ـ جس معاشرے میں جھوٹ پر مبنی زندگی کو رواج مل جائے سمجھ لیں وہاں سے برکت کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت مفقود ہےـ صبر سچ اور وعدہ ان اوصاف سے بے بہرہ یہ آج کا معاشرہ عجیب قسم کی تیزی اور وقتی کامیابیوں میں بھاگتا ہوا اپنے اصل سے دور اور دور ہوتا جا رہا ہےـ
جب آپ بنیاد سے نہ اٹھیں تو آپ کی بلند و بالا عمارت بغیر کسی مضبوطی کے ہمیشہ تیز ہوا کی زد میں رہتی ہے یہی آج کا حال ہے ہر قابلیت ظاہری زلزلہ ہے ـ اس کے آفٹر شاکس یہ ہیں کہ ہم احترام عزت نفس اور بڑوں کا ادب خواتین کا خاص پاکستانیوں والا انداز بھول گئے ـ کل ایک پوسٹ فیس بک پرکسی نے شئیر کی ـ جس میں ایک محترم مذہبی ہستی کو کسی سیاسی لیڈر کی قیامگاہ میں کھانا کھاتے دکھایا گیاـ ٹیبل پر دو خواتین موجود تھیں ہمارے عامیانہ ذہن جیسا کہ خود ہی گھڑ کے فسانہ بنا لیتے ہیں لہٰذا ایسا ہی کیا گیا دو خواتین تھیں تو ایک خاتون کو تو سیاسی لیڈر کی خاتون تسلیم کر لیا گیا اور دوسری کے متعلق لکھ دیا کہ یہ ان مذہبی ہستی کی بیگم ہے بہت تکلیف ہوئی اس پوسٹ پر جاری اپنی قوم کے کمنٹس دیکھ کر ـ اعتبار تو ہم نے کسی پر کرنا سیکھا نہیں ـ لہٰذا آئینے میں ہمیں اپنا ہی سراپا دکھائی دیتا ہے ـ کہ میں کیونکہ خود جھوٹ بولتی یا بولتا ہوں لہٰذا سامنے والا بھی یہی کرتا ہوگا ـ ایسا نہیں ہے
آپ نے عارضی زندگی کو یہاں مذاق بنا کر اپنی دنیا کو رنگین کرنا چاہا لیکن ہر انسان ایسا نہیں کر رہا کچھ کو اللہ پاک آج بھی ہدایت کا چراغ عطا کر کے اپنے پیاروں میں شامل کر لیتے ـ آج ہم خود بےاعتبار اور موقع شناس ابنِ الوقت بن چکے ہیں ـ جہاں اپنا مفاد نظر آتا ہے وہی ہمارے نظریہ ضرورت والے دین کی تعریف بن جاتی ہے ـ حالانکہ دین کی مضبوط تعریف یہ ہے کہ جو مخلوط محافل اگر رات کو ناجائز ہیں تو دن چڑھے بھی یہ حرام ہی ہیں ـ آپ کی موجودگی کسی حرام کو حلال نہیں کر سکتی ـ تو بات ہو رہی تھی ان خاتون کی میں برملا کہنا چاہوں گی یہ خاتون ہرگز ہرگز ان کی بیگم نہیں ہیں ـ ہم سب کو ذہنی بوسیدہ چادر پرے پھینک کر مذہبی تعصب میں آکرخواتین کے بارے میں رائے زنی سے احتراز برتنا چاہیے ـ میں خود ان کی بیگم سے آمنے سامنے مل چکی ہوں میرے گھر وہ میاں بیوی تشریف لائے تھے ـ انتہائی پردے کی پابند اور محتاط انداز میں بیٹھنے والی خاتون ہیں ـ صبر تو اب مذہبی رہنماؤں میں بھی دکھائی نہیں دیتا ـ جس کی وجہ سے ان کے ماننے والے ماہِ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی ایسی لغویات سے پرہیز کرتے دکھائی نہیں دے رہےـ دکھ کا مقام ہے ـ
Respect Women
اسلامی تعلیمات کا عملی فقدان دکھائی دے رہا ہے اس میں قصور کس کا ہے؟ اس غیر معیاری سوچ کا جو انہیں اپنے عقائد سے ملی؟ اگر انہیں خواتین کا احترام ازروئے شریعت سکھایا جاتا تو کیا ایسا ہو سکتا تھا؟ ایسے تضحیکی جملے کسی خاتون کیلیۓ لکھے جا سکتے تھے؟ ہمارا شرمناک رویہ ہے خواتین کے بارے میں کیونکہ ہم اسلام سے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے دور بھٹک رہے ہیں ـ ہم جہاں جی چاہتا ہے جو جی چاہتا ہے اپنے مذہبی جنون میں سیاستی مفاد میں معاشرتی رتبے کیلیۓ کہہ دیتے ہیں ـیاد رکھیں یورپ ہے یا پاکستان یہ سو فیصد درست بات ہے عورت کے ساتھ مقابلہ کرنے والا مرد بودا محسوس ہوتا ہے عورت کو جب اللہ پاک نے کمزور کہہ دیا تو وہ ہر زمانے میں نحیف ہے ناتواں ہےـ مقابلہ ہمیشہ اپنے جیسے سے کیا جاتا ہے ـ کمزور سے جیتنا آپ کی ہار ہے ـ وہ سچی ہو کر بھی مرد کے جھوٹ کے سامنے ہار جاتی ہے ـ
امید ہے ہم اپنے ذہنی بانجھ پن کو قرآن پاک اور سنت کی روشنی میں بہترین دوا کی صورت استعمال کر کے کھویا ہوا وقار تمدن تہذیب کو دریافت کر کے معاشرے کو وہیں اسی نہج پے واپس لے جائیں جو ہمارا اصل ہےـ خواتین خواہ وہ گھر کی ہیں یا باہر ہمارے ساتھ کام کرنے والی ہر جگہہ انہیں غیرت مند پاکستانی مسلمان مرد بن کر تحفظ دیں ـ خیال رکھیں ـ زبان کو ان کیلیۓ استعمال کرنے سے پہلے سو بار اپنی والدہ بہن بیٹی کا تصور سامنے لائیں اور پھر بطورِ مرد کوئی بات کہنے کی روایت ڈالیں ـ صبر سچ کو آج پھر سے رواج دینا ہوگا جیسے ماہِ رمضان میں دیتے ہیں اور بعد میں بھول جاتے ہیں ـ اس بار روزے کا طویل صبر بھولنا نہیں بلکہ ذات کا مستقل حصہ بنا کر اپنی سیرت کو خوبصورت بنا کر اپنے اندر کی معیاری تبدیلی سے لطف اندوز ہونا ہے اللہ پاک آپ سب کو “” قوّام “” کی ہر تعریف پر پورا اترنے کی توفیق اور شعور عطا فرمائے آمین