لاہور (اقبال کھوکھر) مورخہ 8 جولائی 2015 سنٹر فار لیگل ایڈ اسسٹنس اینڈیٹلمنٹ نے عورت فائونڈیشن کے صنعتی مساوات کے پروگرام کے سائیکل 9 اور USAID کی مدد کے تحت وکلاء اور سول سوسائٹی کے ساتھ مقامی ہوٹل میں میٹنگ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر 30 سے زائد وکلاء ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبران، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافی حضرات نے شرکت کی۔
اس میٹنگ کا مقصد پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی اور صنفی تشدد ، اس تشدد کی روک تھام کے قوانین میں موجود خامیاں یا کمزوریا ںکا جائزہ اور قوانین کی بہتر ا طلاق پر بات چیت کرنا تھا۔مقررین میں بشریٰ خالق ،محبوب احمدخان، سہیل وڑائچ اور ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اختر مسیح سندھو نے عورتوں پر جنسی اور صنفی تشدد، موجودہ قوانین / اور ان قوانین کو بہتر بنانے کے موضوات پر گفتگو کی۔
محترمہ بشریٰ خالق صاحبہ نے کہا کہ صنفی اور جنسی تشدد کی روک تھام کیلئے حکومت پاکستان کو منظور شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے حکومت کی طرف سے گزشتہ سالوں میں عورتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے قوانین کی منظوری کی خوصلہ افزائی کی ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ عورتوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے جس کے لئے حکومت کو تمام صوبوں میں زنانہ پولیس افسران کی بھرتی میں اضافہ پر کرنا ہو گاتاکہ عام تشدد زدہ خواتین کی پولیس تک باآسانی رسائی ہو سکے۔
محبوب احمد خان نے شرکاء سے محاطب ہوتے ہوئے کہاکہ بنیادی معاشرتی قدر یعنی ازدواجی رشتے کو تخفظ فراہم کرنا فیملی کورٹ کے زمرے میں آتا ہے۔بکھر ے ہوئے ازدواجی رشتے کی بحالی کے لئے فیملی کورٹ اہم حیثیت کا حامل ہے ،تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا حکومت منصوبہ سازی کے ذریعے اپنے سیاسی نظریا ت کو پروگراموں اور اقدامات کے ذریعے اپنے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے کام کرتی ہے۔بہرحال انسانی حقوق کی تنظیموں کو معا شرے سے جنسی بنیادوں پر تشددکے خاتمے کے لئے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے برعکس اس کے کہ،ہم حکومت سے ایسے قوانین یا پالسیو ںکی اُمید رکھی جائے۔ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اختر مسیح سندھونے کہا کہ وفاقی حکومت مسیحی شادی کا قانون1872اور طلاق کا قانون 1869میں ترامیم کی منظوری کا بل تیارکر چکی ہے مزید ازاں ممکنہ ترامیم کی خلاصہ بھی جمع کروا چکی ہے کیونکہ یہ قوانین صدیوں پرانے ہیںاور موجودہ دور کے لحاظ سے عملی حیثیت نہیں رکھتے موجودہ قانون کے مطابق شوہر صرف حرامکاری کی بنیاد پرعورت کو طلاق دے سکتا ہے جو خاندانی رشتوں میں غیر ضروری مشکلات میں اضافہ کا سبب ہے۔
جناب جوزف فرانسس نیشنل ڈائریکٹر اورممبر آف برٹش ایمپائرMBE) ( کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے خواتین کی ترقی لازم وملزوم ہے۔پاکستانی خواتین مذہبی ،معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے تعصب کا شکار ہونے باوجود اپنی ترقی اور بحالی کے لئے کوشاں ہیں۔عورتوں کی آگاہی کے پروگرام اور تعلیم کے ذریعے ہم ان کو مضبوط بنا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لئے نا صرف آواز بلند کریں بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوںکے خلاف قدم اُٹھا سکیں ۔پروگرام کے آخر میں نورین ا ختر پروجیکٹ کوارڈینیٹر نے مقررین اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔