میں دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں

Ramadan Mubarak

Ramadan Mubarak

تحریر: مریم جہانگیر
آج سے دس سال پہلے رمضان صرف ایک ماہ کا نام نہیں تھا۔ یہ ایک رویے کا نام تھا جو ان بابرکت ٢٩ ۔٣٠ دنوں میں لوگوں کی روح میں سرایت کر جاتا تھا ۔نیکی اور بدی میں تمیز کی طاقت بڑھ جاتی تھی، ہاتھ گناہ کرنے سے خوفزدہ ہوتے تھے اور آنکھیں نیکی کی متلاشی رہتی تھیں۔ وقتِ سحر جگانے والے نعتیں پڑھنے آتے تھے اور جہاں جہاں سے گزرتے تھے گھر کی روشنیاں جل اُٹھتی تھیں۔

آس پاس کے گھر والوں کو دیکھا جاتا تھا کہ کہیں کوئی زیادہ گہری نیند سونے کی وجہ سے سحری کی برکات سے محروم نہ رہ جائے۔ اس کے بعد نماز اور نماز کے بعد تلاوتِ کلامِ پاک سے پورا گھر گونجنے لگتا تھا۔ سب ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کتنے پارے پڑھے گئے؟ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جاتا تھا ۔ نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ دن بھر مختلف تسبیحات میں گزرتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ تحمل کی کمی ہمیشہ سے ہماری قوم میں رہی ہے۔ ہلکے پھلکے لڑائی جھگڑے کے مناظر ہر گلی کے نکڑ پر نظر آتے تھے۔

اب ذرا ماضی کی افطاری پر نظر ڈالئے دو تین گھنٹے پہلے ہی خواتین کچن میں موجود ہوتی تھیں۔ مختلف اشیاء سے چھیڑ چھاڑ اور نت نئے پکوان تیار کئے جاتے تھے۔ کوئی مانگنے والا دروازے پر دستک دیتا تھا تو برتنوں میں سب اشیاء ڈال کر اسے دروازے پر ہی کھانا کھانے کے لئے روک لیا جاتا تھا۔ یہ وہ سنہرا وقت تھا جب گھر میں نچلے طبقے کے افراد کے لئے الگ سے برتن رکھے جاتے تھے لیکن وہ برتن صاف، گھر کے برتنوں کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔ چاہے کچھ اچھا پکا ہو یا بُرا ، صرف پھل ہوں یا پکوڑے ساتھ میں دو تین کھ جوریں رکھ کے قرب و جوار کے ہر گھر میں بھیجی جاتی تھیں۔ گھر کے پاس کے دکانداروں کے لئے الگ سے ٹرے سجائی جاتی تھی جو اپنے کاروبار کے باعث گھر جا کر روزہ افطار نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی ریڑھی والا ہو یا راہگزر اس کو دعوت دی جاتی تھی۔

گھروں کے باہر پانی کی بیلیں کِھل جاتی تھیں۔ دسترخوان پر بیٹھتے تو معلوم ہوتا تھا کہ کس کس کہ کتنے کتنے روزے ہیں؟ اور کس کا آج پہلا روزہ ہے۔ ہر دن عید کا سا رنگ لئے ہوتا تھا ۔ آخری پانچ منٹ میں گھر کے سربراہ کی وہ تنبیہی آوا ز ” اب بس چپ کر کے دُعا مانگو” ۔ جن کے گھر مساجد سے دور ہوتے تھے وہ پنکھے تک بند کر دیتے تھے کہ آواز آسکے اور روزہ اذان کے ساتھ افطار ہو۔ افطاری کے بعد نئے سِرے سے تیاریاں ہوتی تھیں۔ مرد حضرات جہاں مساجد کا رُخ کرتے تھے وہیں خواتینِ خانہ بھی محلے کے کسی ایک گھر میں مل کر درس یا تراویح میں شرکت کرتی تھیں ۔ تراویح کے بعد پھر سے بھوک مچل اُٹھتی تھی اور ہلکا پھلکا کچھ کھا پی لیا جاتا تھا۔

Iftar

Iftar

بس بہت ہو گئے ماضی کے نظارے اب ذرا حال پر نظر دوڑائیے، رمضان آتا ہے اور بس صرف ٹی وی پر ٹھنڈی بوتلوں کے اشتہار میں تبدیلی آتی ہے۔ وہ سارے بھانڈ جن کو ہم رمضان کے علاوہ بھی کبھی اچھا کہتے ہیں کبھی بُرا ، ہماری سحری اور افطاری میں ہمارے جوڑوں میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سحری سے شروعات کرتے ہیں۔ آج سے دس سال پہلے تک والدین بچوں کو جگاتے تھے اب بچے والدین کے پاس جا کر کانوں سے ٹونٹیاں نکال کر کہتے ہیں کہ اُٹھ جائیں۔سحری کے لئے جو اُٹھانے آتے تھے نہ تو اُن میں باقاعدگی رہی ہے اور نہ ہی انکا انتظار کرنے والے باقی ہیں۔ میں کسی فرد کو یا کسی طبقے کو نشانہ نہیں بنا رہی میں خود بھی اس میں شامل ہوں۔ یہ وہ رویہ ہے جو ہم نے سیکھ لیا ہے یہ وہ عمل ہے جو ہم کرتے ہیں ۔ یہ وہ فعل ہے جو درست نہیں لیکن جس پر ندامت بھی نہیں کی جاتی۔ اسے بدلنے کی کوشش بھی کہیں نہیں ہے ۔ افطاری کے وقت منتظر ہوتے ہیں کہ جب تک کسی کے گھر سے کوئی چیز نہ آئے تو خود بھی نہیں بھجوانی۔ اکثر اوقات خالی پلیٹیں بھیج دی جاتی ہیں کہ جس دن اچھا پکا ہوا ہو گا اُس دن بھیجیں گے۔ کھجور سے اچھی کیا چیز ہے؟ ہمارے نبی ۖ کو سب سے مرغوب تھی۔ لیکن ہماری اچھائی کا معیار پیزا اور لزانیہ پر جا کر ہی ختم ہوتا ہے۔

اذان ہم آج بھی سُنتے ہیں لیکن ٹی وی پر۔ ٹی وی کی آواز اُونچی کر دی جاتی ہے۔سو طرح کے رنگین اشتہارات دیکھ کر اذان سُن کر افطاری کی جاتی ہے۔ اِس شور میں اگر کوئی مانگنے والا دروازہ پر آ گیا ہے تو اُسکی آواز کانوں میں پڑے گی ہی نہیں۔ اگر آواز کانوں میں پڑ بھی گئی تو جُوں بھی کانوں پر نہ رینگے گی۔ چلو بہت ترس آیا تو شاپر میں رزق کے چار دانے اُٹھا کر دے دئیے جائیں گے ، وہ شاپر بھی ایسا جسے ہاتھ میں پکڑ کر باہر چلتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ رمضان میں نیکیوں کا اجر ستّر گنا بڑھ جاتا ہے۔ ہم کیوں گناہ کرتے ہیں جبکہ شیاطین کو بھی قید کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے اندر کا شیطان کیوں جاگ جاتا ہے کیوں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ پچھلی گلی میں بھیک مانگنے والی عورت کے کشکول میں کوئی سِکّہ نہیں تھا۔ اُسکی گود میں بیٹھا بچہ کتنے آنسوئوں کو پی کر حسرت بھری نگاہوں سے شاپر میں پڑے پھل کو دیکھ رہا تھا جسے گھر لے جانے والے آدمی کے گھر سے کل رات ہی گلاسڑا پھل کچرے میں پھینکا گیا تھا۔

پہلے ہاتھ سے قرآن پھسل جاتا تھا توبہ کرتے تھے صدقہ خیرات کرتے تھے اب قرآن کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے تو کیسا پھسلنا؟ افطاری میں یوں کھایا جاتا ہے جیسے کسی دشمن کے معدے میں اُنڈیلا جا رہا ہو۔ افطاری کر کے وہیں ٹی وی کے سامنے سب افرادِ خانہ لیٹ جاتے ہیں۔ وہ دیکھو اُس نے گاڑی جیتی؟ وہ دیکھو اُ س نے سونا جیت لیا؟ اور ہم؟ ہم نے کیا کیا؟ کیا ہم نے اس رمضان کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے اس نیکیوں کے موقع سے فائدہ اُٹھایا؟ کیا قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھا؟ پھر کیسا رمضان اور کیسی عید؟ آج کی نسل کے لئے صوم کا مطلب رُکنا نہیں ہے صوم کا مطلب ہے بھوکا رہنا۔ اس نسل کو چیلنجز لینے کا شوق ہے، ایک چیلنج کی طرح روزہ رکھا جاتا ہے۔ والدین بھی بچے کو نہیں سمجھاتے کہ بیٹا آپ ٹی وی نہ دیکھیں آپ کا روزہ ہے آپ کوئی کتاب پڑھ لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کارٹون دیکھ لو وقت گزر جائیگا۔

وقت کا تو کام ہے گزرنا اور اگر یہ واقعی گزر گیا تو ہم اور آپ کہاں کھڑے ہونگے؟ہم ذمہ دار ہونگے، ہم مجرم ہونگے کیونکہ ہم خاموش رہے ہم نے اپنے حصے کا دِیا روشن نہیں کیا ۔بڑی بڑی نیکیاں مت کریں۔ چھوٹے چھوٹے کام کر لیں ۔ کسی کو مسکرا کر دیکھ لیں۔ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کریں۔ اپنے ڈھیروں ڈھیر کپڑوں اور اشیاء میں سے خیرات کریں۔ عبدالستار ایدھی بیمار ہیں اُن کی جگہ کبھی بھی پاکستان میں کوئی بھی نہیں لے سکے گا اپنے اندر اُن سے سیکھی ہوئی نیکی کو زندہ کریں۔ جتنا ہو سکے ایدھی سینٹرز میں امداد بھیجیں اور بھجوائیں اورپنے جاننے والوں کوبھی تلقین کریں۔

تپتی ہوئی گرمی میں چھت پر کسی کٹورے میں پانی رکھ دیں۔ کھجوریں اور شربت کی بوتلیں ضرورت مندوں کے گھروں میں دے دیں۔ اپنی الماریوں میں جگہ بنائیں ضرورت سے ذیادہ سامان خیرات کر دیں۔ افطاری بنانے میں گھر والوں کی مدد کریں۔ با وضو رہیں۔ بسم اللہ پڑھیں۔ نرمی اختیار کریں۔ اپنے سے جُڑے ہوئے لوگوں کو وقت دیں۔ انھیں پیار دیں اپنے ہونے کا احساس دلائیں۔ سحری کرنے کے بعد نےّت ضرور کریں ۔ روزے کو روزہ سمجھیں بھوک ہڑتال نہ مان لیں۔ خود سے عہد کریں کہ دوسروں پر بے جا تنقید نہیں کریں گے۔

شاید میں یہ سب باتیں آپ سے نہیں کہہ رہی خود اپنے آپ سے کہہ رہی ہوںکہ اب بہت وقت ہو گیا ہے۔ کبھی بھی نقارہ بج اُٹھے گا۔ اپنی توانائیوں کا مثبت استعمال کریں۔ تھوڑی سی ہی سہی تیاری کرلیں۔ یہ کونسا رمضان ہے جو ٹی وی اور سڑکوں پر گزرتا ہے۔ جس میں تمام رات جاگا تو جاتا ہے لیکن ایک بار بھی اللہ کو یاد نہیں کیا جاتا۔ پھر ہم ہی لوگ فیس بُک پر اسٹیٹس دیتے ہیںکہ زلزلہ رین بو کی ڈی پی لگانے کی وجہ سے آیا ہے؟ تو پھر ہم کیا ہیں؟ ہماری وجہ سے کیا ہو رہا ہے؟ وقت کے ساتھ اقدار میں تبدیلی آتی ہے مگر کچھ تو روایات کو آگے منتقل کریں۔ کوئی تو رسم اچھی سی اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔اولاد پیدا کرنا مشکل نہیں ہے اُسے تربیت دینامشکل ہے۔ ہم خود اپنی ذات کے محتاج ہیں۔ ہم ابھی اپنی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہم جو تھوڑے سمجھ دار ہیںہم سے یہ نہیں کہا جائیگا کہ والدین نے کیسا ماحول فراہم کیا والدین نے کیا تلقین کی۔ ہمیں کہا جائیگا سرچ انجن پر تو سب مشکل الفاظ کے معنی ڈھونڈ لیتے تھے ۔ نیکی کا راستہ کیوں نہ ڈھونڈا؟ کوئی نیا طریقہ ثواب کمانے کا کیوں نہ ایجاد کیا؟ میں ڈھونڈتی ہوں کوئی طریقہ۔۔۔۔ کیونکہ میرے پاس تو فی الحال جواب نہیں ہے۔ آپ بھی ڈھونڈئیے۔

Logo Mariyam Jahangir

Logo Mariyam Jahangir

تحریر: مریم جہانگیر