تحریر: ع.م.بدر سرحدی پانچ برس پی پی پی حکومت نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وعدوں پر گزارے، اب دو برس سے ن لیگی حکومت نے بھی وعدوں کی چوسنی پر گزار دئے …کوئی دن ایسا نہیں ہو گا جب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے میاں شہباز شریف کا ہربیان ایک تو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی چوسنی اور دوسرا میٹرو بس جو اخبار کی زینت نہ بنا ہو، کہ کبھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن ٨ا، تک کا انتظار اور اب سولر پر کام شروع اگلے چند ماہ میں ٠٠ا، میگا واٹ ….کبھی تین سو میگا واٹ اور …..حالانکہ یہ وفاق کا مسلہ ہے مگر وفاقی حکومت خاموش ہے ….سوچنے کا مقام ہے کہ چوسنی وزیر اعلےٰ پنجاب دے رہے ہیں مگر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا دور دور تک کوئی نشان دکھائی نہیں دیتا۔
بجلی بحران پر قابو پا لیا جائے گا، اور یہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی سوائے وعدوں کے اوریہ وعدے کیوں؟ چند دن پہلے کی خبر دو ارب کی یو پی ایس ،کی خرید و فروخت ہوئی ،اسی طرح ملک بھر میں تاجروں نے یو پی ایس ،سولر سسٹم اور جنریٹروں پر اربوں کی سرمایہ کاری کی ہے لاہورمیں برانڈرتھ روڈ کے تاجروں کے گودام جنریٹروں سے بھرے ہیں ،ہال روڈ میں الیکٹرونک کی دکانوں میں یو پی ایس کا کارو بار عروج پر ہے ….. اسی طرح کراچی ،ملتان پشاور پنڈی کے بازار ان اشیاء سے بھرے ہیں ، سابق حکومت کے دور میں چین کی طرف سے بجلی مہیاکرنے کی پیشکش ہوئی جو ریکارڈ پر ہے مگر حکومت نے انکار کر دیا پھر اپنے سائنسدانوں نے تھر کول میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا منصوبہ دیا …ایران سے بجلی آ رہی ….. یہ خبریں ماضی کا حصہ ہیں ،ملک میں جج ،جرنل، کرنل،سیکٹری لیول کے آفسران ،بیورکریٹ،وڈیرے زمیندار،سرمایہ دار صنعتکار اور یہ بڑے تاجران کیا یہ لوگ بھی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہیں ہر گز نہیں ان کے تو پالتوں کتے تک متاثر نہیں ان کی تعداد تو محض ہزاروں میں ہو گی ،اور یہ جو ٨ا، کروڑ عوام کی گردان ،یہ بچارے تو محض کیڑے مکوڑے جو گرمی کی شدت سے جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔
Electricity Crisis
سردی ہو یا گرمی،یا سیلاب یہی کیڑے مکوڑے متاثر ہوتے ….پاکستان میںخاص الخاص حکمران طبقہ ان کا تعلق، صنعتکار، بڑے تاجراور جاگیر دار طبقہ سے…. ،بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں اور نہ یہ مسلہ فیثا غورث ہے ،قومی اسمبلی کے ٣٤٢ کے ہاؤس میں ایک بھی ایسا نمائندہ نہیں ہوگا جس کا تعلق عوام کے اسی گروہ سے ہو ،اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی امید کی جاسکتی ہے کہ کوئی عوام میں سے آئے گا جو عوام کی بات کرے گا،کراچی میں گرمی کی شدت سے چند دنوں میں٢٩ جون تک گرمی کے عفریت نے ٦٠٠ا، سے زائد ان کیڑے مکوڑوں کو نگل لیا۔
ایکسپریس ہائی وے فری سگنل بہت بڑا منصوبہ ہے کے افتتاح کے موقع پر وزیر آعظم نے کہا اسے بہت پہلے شروع ہوجانا چاہئے تھا ، لیکن بیچ میں پھر بجلی بحران آ گیا وزیر آعظم نے کہا لوگ صبر کریں ٧ا٢٠ تک توانائی بحران پر قابو پا لیا جائے گا، میں نے کبھی نہیں کہا ٦ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، (کون ماہ رانی سے کہے گا رانی خود کو ڈھانپ….) ہمارے دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت ٥ روپئے ٢٥،پیسے کم ہوئی،اور اب ماہ رمضان میں پٹرول کی قیمتو ں میں اضافہ کی تجویز مسترد کر دی…. نیلم جہلم منصوبے پر کا م جاری ہے جس سے ٩٠٠،میگا واٹ حاصل ہوگی جبکہ ایل این جی ،سے ٣٦٠٠ میگا واٹ ہوگی۔
ایکسپریس ہائی فری سگنل منصوبہ، مگر ان کیڑے مکوڑوں کا ایسے منصوبوں سے کیا تعلق ، ان کا سفر ربعہ صدی پہلے بھی لاہور سے پنڈی تک چھ گھنٹے تھا اور آج بھی وہی چھ گھنٹے ،اگلے دن وزیر اعلےٰ شہباز شریف نے اک اجلاس میں فرمایاقائد آعظمسولر منصوبہ بہاول پور میں چینی کمپنی نے سولر منصوبہ پرکام شروع کر دیا ہے اس سال کے آخر تک ٣٠٠ میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی ، (ہر خبر کے ساتھ میٹرو کا تذکرہ ضروری۔ پھر یہ میٹرو بیچ میں ) جڑواں شہروں میں دیڑھ لاکھ شہری میٹرو بس کے آرام دہ سفر سے مستفید ہو رہے ہیں۔
Shahbaz Sharif
سفر کرنے والوں کی تعداد کا گاہے بگاہے اعلان کرتے رہتے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ خطیر سرمائے سے چلنی والی میٹرو بس کے ادارے میں لاکھ نہ سہی کتنے ہزارافراد کو روز گا ملا، لاہور اور پنڈی میٹرو بس میں زیادہ سے ڈھائی سے تین ہزار افراد کو روزگار ملا ہوگا …..، ٩٧ء میں جب نصف صدی تک عوام کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کرنے والے قومی ادارے پی .آر. ٹی. سی، کو تالا لگایا تو چودہ ہزار افراد کو بے روزگار کیا گیا ، یہ الگ موضوع ہے۔
سترے بترے جو حیات ہیں وہ اِس ادارے کی افادیت کے گواہ ہیں اِس ادارے کو اتنی ہی رقم سے فعال کیا جاسکتا تھا مگر .. … اور یہ میٹرو بس منصوبہ ملتان میں بھی شروع کر دیا ہے،لاہور ،میں ٣٠،ارب کے خطیر سرمائے سے محض یہ میٹرو بس کا ٹریک ہی بنایا گیا، کیا اس سے تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا نہیں کی جاسکتی تھی اور اب اس سے زائد رقم سے جڑواں شہروں میں میٹرو چلائی .. … یہ ضرورت تو ہے مگر ترجیحی نہیں…مگر کیا کہا جائے ،ان کے نزدیک عوامی ترقی صرف میٹروبس،سڑکیں اور فری سگنل منصوبوں میں ہے…. .المختصر ،جب تک تاجروں کی طرف سے گرین سگنل نہیں ملتا کہ جنریٹر، سولر سسٹم اور یو پی ایس ختم ہوگئے ، جن سے ملک کے بڑے شہروں میں مارکیٹیں بھری پڑی ہیں … عوام کو توانائی بحران کے خاتمے کے وعدوں کی چوسنی پر ہی گزارا کرنا پڑے گا،اور اب یہ ٧ا،اور ١٨،تک کے وعدے اگلی حکومت کوبھی منتقل کئے جا سکتے ہیں….مگرکیا آنے والے آسمان سے اترے فرشتے ہونگے ،نہیں وہ بھی اسی طبقے اور معاشرے کا حصہ، اُن سے،……